سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں اگرچہ پارٹی میں اختلاف کا سلسلہ پرانا ہے مگر اب علی امین گنڈاپور کے ان الزامات کے بعد دونوں اطراف سے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر اس وقت اس تقسیم اور اختلافات کو سمجھنے کے لیے بی بی سی اردو نے پشاور میں مقیم سینیئر صحافیوں اور تـجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں گذشتہ کئی مہینوں سے اندرونی اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن اس کی تصدیق اس وقت ہوئی جب خیر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کُھل کر عمران خان کی بہن علیمہ خان پر نہ صرف تنقید کی بلکہ ان پر جماعت کو تقسیمکرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
منگل کو اڈیالہ جیل میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد جہاں ایک ویڈیو پیغام میں علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان پر پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا، وہیں عمران خان کی بہن نے ان سے ان الزمات کے ثبوت بھی مانگے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات کوئی نہیں بات نہیں ہیں لیکن علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے درمیان حالیہ کشیدگی کے سبب یہ اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین اس معالے کو کس طرح دیکھتے ہیں، یہ جاننے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی بہن پر کیا الزامات لگائے اور علیمہ خان نے اس کے ردِ عمل میں کیا کہا۔
’مائنس عمران خان مہم کی بنیاد پر پارٹی میں تقسیم پیدا کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے‘
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے منگل کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے۔
اس ویڈیو پیغام میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ان کی عمران خان سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی ہے اور اس سے قبل گذشتہ کچھ عرصے سے عمران خان کی ان کی بہنوں سے ہی ملاقاتیں ہو رہی تھیں اور ان ہی کے ذریعے ہدایات آرہی تھیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے عمران خان کو آگاہ کیا کہ پچھلے چند ماہ میں کیا ہوتا رہا ہے اور ’پارٹی میں بہت تقسیم آچکی ہے۔‘
علی امین گنڈاپور کے مطابق انھوں نے عمران خان کو بتایا کہ ’مائنس عمران خان مہم کی بنیاد پر پارٹی میں تقسیم پیدا کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے اور اسی وجہ سے پارٹی میں مایوسی پھیل رہی ہے۔‘
علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمران خان سے کہا کہ ایسے احکامات دیں جس سے پارٹی متحد ہو۔
علی امین گنڈاپور کے علاوہ علیمہ خان نے بھی منگل کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ نے عمران خان سے شکایت کی ہے کہ وہ پارٹی چیئرپرسن بننا چاہتی ہیں اور سوشل میڈیا بھی وہ ہی کنٹرول کر رہی ہیں۔
علیمہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پارٹی کا چیئرمین صرف عمران خان ہیں اور وہی رہیں گے۔‘
انہوں نے نہ صرف ان تمام الزامات کو مسترد کیا بلکہ علی امین گنڈا پور سے ان الزامات کے ثبوت بھی مانگے۔
علیمہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'پارٹی کا چیئرمین صرف عمران خان ہیں اور وہی رہیں گے'اس سے قبل ماضی میں علیمہ خان بھی علی امین گنڈاپور پر متعدد مرتبہ تنقید کر چکی ہیں۔
صوبائی بجٹ کی منظوری کے بعد علیمہ خان نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت نے عمران خان کو آگاہ کیے بغیر بجٹ منظور کراوایا تھا۔
’خیبر پختونخوا کی حکومت کو بجٹ پاس کرنے کی کیا جلدی تھی، بجٹ میں بانی سے کیا چھپایا گیا ہے اسے پاس کرنے کیلئے عمران خان کا دو دن بھی انتظار نہیں کیا، میرا خیال ہے مائنس عمران خان ہوچکا۔‘
پارٹی میں اندرونی اختلافات کی خبروں پر مؤقف جاننے کے لیے بی بی سی نے متعدد رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم کسی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بیرسٹر گوہر نے بات کرنے کی یقین دہائی کروائی لیکن خبر شائع ہونے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی میں تقسیم ہے کیا؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں اب اختلافات کے باعث صوبائی حکومت چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا آ رہا ہے۔
پشاور میں مقیم صحافی فرزانہ علی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اب پی ٹی آئی میں اختلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اب حکومت کیسے چلے گی؟
ان کی رائے میں سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کبھی علی امین گنڈاپور کو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ اس سے پھر صوبائی حکومت سے ہاتھ دھونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
پشاور کے ہی ایک سینیئر صحافی عقیل یوسفزئی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اس وقت علی امین گنڈاپور کے پاس جو سب سے طاقتور ہتھیار ہے وہ ان 30 کے قریب اراکین صوبائی اسمبلی کا ہے جو آزادانہ حیثیت سے انتخابات لڑ کر کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے حلف نامے موجود ہیں ان کا تعلق کسی جماعت سے نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق اس فالٹ لائن کے ہوتے ہوئے عمران خان کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی صوبائی حکومت گر جائے۔
یہاں یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان کے درمیان اختلافات کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہئے فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ یہ ملین ڈالر سوال ہے کیونکہ بظاہر تو دونوں رہنماؤں کا ایک دوسرے سے کوئی مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔
مگر ان کی رائے میں اس وقت معاملہ یہ ہے کہ سیاسی کارکن سب سے زیادہ یقین عمران خان کی بہنوں کی بات پر کرتے ہیں اور علی امین گنڈا پور کو پارٹی کے اندر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
فرزانہ علی کے مطابق علیمہ خان بھی علی امین گنڈا پور، صوبائی حکومت اور دیگر رہنماؤں پر تنقید کرتی ہیں جس سے ان رہنماؤں سے متعلق کارکنوں میں مزید بداعتمادی بڑھتی ہے۔
’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ عمران خان تک رسائی کا ہے کیونکہ آسانی سے کوئی ان سے مل نہیں سکتا ہے اور پھر جو ان سے مل کر باہر آتے ہیں تو کارکن سب سے زیادہ اعتماد عمران خانکی بہنوں کی بتائی ہوئی باتوں پرکرتے ہیں۔‘
فرزانہ علی کے مطابق علیمہ خان نے بجٹ سے لے کر اسلام آباد میں 26 نومبر کو ہونے والے احتجاج اور پھر ابھی جو پی ٹی آئی کا حالیہ جلسہ عام ہوا اس پر کڑی تنقید کی ہے، جس سے علی امین گنڈاپور کو زچ پہنچی ہے۔
دوسری جانب عقیل یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ ان تمام اختلافات کا اثر صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی پڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو اس وقت حکومت چلانے میں بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔
’بیوروکریسی کے سربراہ کسی اور کو بریفنگ دے رہے ہوتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے دفتر کی اس سے پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیںپی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی جماعت میں اختلافات اس قدر شدت اختیار کر گئے ہیں کہ عملاً پارٹی دو واضح گروپس میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔
تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اس وقت غیر رسمی طور پر سب کچھ علیمہ خان ہی ڈیل کر رہی ہیں اور انھوں نے عمران خان والا انداز سیاست اختیار کیا ہوا ہے، کسی دن بیرسٹر گوہر پر تنقید تو کسی دن کسی اور رہنما پر۔‘