حالیہ برسوں میں متعدد غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا وہیں دوسرے جانب ملازمتیں بھی ختم ہوں گی۔
حالیہ برسوں میں متعدد غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اس بحث نے زور اس وقت پکڑا جب رواں ہفتے امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) نے پاکستان میں کمرشل اور مینوفیکچرنگ سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے اعلان میں پی اینڈ جی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی تقسیم کار کمپنی کا سہارا لے گی۔
واضح رہے کہ پی اینڈ جی بچوں، خواتین اور مردوں کے لیے مختلف اشیا تیار کرتی ہے جن میں صابن، سرف، لوشنز اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں۔
کمپنی نے پاکستان میں 1991 میں کام کرنا شروع کیا تھا جس میں ملک میں فیکٹری لگانے کے ساتھ سپلائی چین کا پورا نیٹ ورک بھی موجود تھا۔
گذشتہ دنوں پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کی بڑی کمپنی گُل احمد ٹیکسٹائل نے بھی ملک میں ملبوسات کی تیاری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں ایلی للّی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر اور یاماہانے بھی پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر دیے تھے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں بلند افراطِ زر، بلند شرح سود، ڈالر کی کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے خام مال کی وجہ سے جہاں عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی وہیں پر کاروباری شعبہ بھی ملک میں کاروبار پر بڑھتی ہوئی لاگت کی شکایت کرتے نظر آیا۔
یاد رہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں دعوے کیے گئے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور معاشی اشاریوںمیں بہتری نظر آرہی ہے جس کی فائدہ عام آدمی کے ساتھ کاروباری شعبے کو بھی ہو گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیوں کے کام بند کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان افضل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گل احمد ٹیکسٹائل نےدرست کہا ہے کہ ملک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان سے غیر ملکی اور ملکی کمپنیوں کے کاروبار بند کرنے یا محدود کرنےکی وجوہات کیا ہیں، بی بی سی نے یہی جاننے کے لیے ماہرین اور حکومتی افراد سے بات چیت کی ہے۔
پی اینڈ جی نے پاکستان میں مینوفیکچرنگ بند کرنے کا اعلان کیوں کیا؟
پی اینڈ جی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی عالمی حکمتِ عملی کے مطابق ترقی اور قدر میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے کاروبار اور آپریشنز کا ماڈل بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی اینڈ جی کے مطابق اب کمپنی پاکستان میں تیسرے فریق (تھرڈ پارٹی) ڈسٹری بیوٹر ماڈل کے ذریعے صارفین کو سہولت فراہم کرے گی۔
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پی اینڈ جی پاکستان اور جیلیٹ پاکستان لمیٹڈ کی فیکٹری اور تجارتی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی اور صارفین کو کمپنی کے دوسرے علاقائی آپریشنز کے ذریعے اشیا مہیا کی جائیں گی۔
تاہم اس عمل کے مکمل ہونے تک کمپنی معمول کے مطابق اپنا کاروبار جاری رکھے گی جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے پی اینڈ جی پاکستان اور ریجنل ٹیمیں اپنے آپریشنز کی منتقلی کا منصوبہ بنانا شروع کریں گی۔ کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان میں ملازمین پر ہو گی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ جن افراد کی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی ان کو یا تو دوسرے ممالک میں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں گے یا پھر مقامی قوانین، کمپنی کی پالیسیوں اور اصولوں کے مطابق علیحدگی (سیپریشن) پیکج دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ملک میں گذشتہ کئی مہینوں سے یہ چہ مگوئیاں بھی چل رہی تھیں کہ پاکستان میں بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسز اور دوسرے عوامل کے سبب کمپنیاں کاروبار بند کر رہی ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان افضل گل احمد ٹیکسٹائل کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
بی بی سی نے اس حوالے سے پی اینڈ جی سے جب رابطہ کیا تو کمپنی نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ ’یہ فیصلہ پی اینڈ جی کی عالمی حکمت عملی کے تناظر میں لیا گیا ہے، جس کا مقصد ترقی اور قدر میں اضافہ ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس مرحلے پر پاکستان میں اپنے آپریشنز کو تھڑد پارٹی ڈسٹری بیوٹر ماڈل میں منتقل کرنا زیادہ مؤثر ہے، جس سے ہم ملک میں صارفین کی خدمت جاری رکھ سکیں گے۔‘
گل احمد ٹیکسٹائل نے ملبوسات کی تیاری کا شعبہ کیوں ختم کیا؟
گل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان میں اپیرل یعنی ملبوسات کے شعبے کو بند کرنے کے سلسلے میں جاری ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ کمپنی نے یہ فیصلہ اس شعبے کی کارکردگی اور مستقبل کے جائزے کے بعد لیا ہے۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ شعبہ بہت زیادہ محنت طلب ہے اس لیے اسے کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے منافع کمانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
کمپنی کے مطابق ان مسائل میں خطے کے دوسرے ممالک سے سخت مقابلہ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مضبوطی، حکومت کی نئی پالیسیاں (جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ)، کپڑوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی و گیس کے زیادہ بل شامل ہیں۔
’ان سب وجوہات کی وجہ سے اس شعبے کی لاگت بڑھ گئی اور منافع کم ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں یہ کاروبار مسلسل نقصان میں جا رہا تھا۔‘
آپریشنز بند ہونے پر معاشی ماہرین کا موقف
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے آپریشنز بند کرنے کے بارے میں ملک میں معاشی اور ٹیکس امور کے ماہرینکہتے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت کے بڑھنے کی وجہ سے اب پاکستان میں مینوفیکچرنگ قابل عمل نہیں رہی ہے۔
ماہر معیشت علی خضر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پیداواری لاگت میں بجلی، گیس، ٹیکس، فنانسنگ اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے اب ایسی صورت حال بن چکی ہے کہ پاکستان میں پیداواری عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جو حالات بنے ہیں اس میں اب کمپنیاں پیداوار سے زیادہ ڈسٹری بیوشن اور ٹریڈنگ پر کام کریں گی جیسے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی مصنوعات کی پیداوار تو بند کر دیں گی تاہم یہاں صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے سپلائی کریں گی۔‘
دوسری جانب ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے پاکستان میں ٹیکس نظام اور ریٹ کو بھی کمپنیوں کے پاکستان سے نکلنے کی ایک وجہ قرار دیاہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ٹیکس نظام کافی زیادہ بوجھل اور غیر منصفانہ ہو چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی کارپوریٹ ٹیکس اتنے زیادہ اور مختلف شکلوں میں نہیں لیے جاتے جتنے پاکستان میں لیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ’یہاں ایک بڑی کمپنی کو 39فیصد انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس کے ساتھ سپر ٹیکس، ورکرز ویلفیئر کنٹریبیوشن اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جومجموعی طور پر پچاس فیصد ہو جاتا ہے۔‘
’اس بھاری ٹیکس کے بعد جب کمپنی شیئر ہولڈرز کو ڈویڈنڈ (منافع میں حصہ) دیتی ہے تو اس پر بھی 15 فیصد سے 25 فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے، حالانکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ہوتی ہے۔‘
’اسی طرح توانائی کے زیادہ اخراجات اور بلند شرحِ سود کے ساتھ کوئی بھی کمپنی ایمانداری سے چل کر زندہ نہیں رہ سکتی، یہی وجہ ہے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل اور گل احمد جیسی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔‘
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا کمپنیوں کے انخلا پر حکومت کا کیا کہنا ہے؟َ
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا وہیں دوسری جانب ملازمتیں بھی ختم ہوں گی۔ ایسی صورت حال کے بارے میں حکومتی افراد کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان افضل نے بتایا کہ انھوں نے گل احمد ٹیکسٹائل کمپنی سے رابطہ کیا ہے اور پروکٹر اینڈ گیمبل سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اصل وجوہات کا پتہ لگایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت صعنتی اداروں سے رابطہ میں ہے تاکہ ان کی تجاویز کی روشنی میں پیداواری لاگت کو کم کیا جا سکے۔
’پاکستان میں پیداواری لاگت دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے تاہم حکومت کوشش کررہی ہے کہ اسے کم کیا جا سکے جیسے کہ وزیر اعظم نے صعنتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت 16 سینٹ فی یونٹ سے 12 سینٹ یونٹ کم کی ہے۔‘
رانا احسان نے بتایا کہ حکومت ایک صعنتی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہے جس میں پیداواری لاگت پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے تاکہ ملک میں کارپورٹ ٹیکس کم ہو کربجلی و گیس کی قیمت اور شرح سود میں بھی کمی لائی جا سکے۔
کیا غیر ملکی کمپنیوں کے انخلا کے پیچھے اور وجوہات بھی ہیں؟
پاکستان سے غیر ملکی کمپنیوں کے انخلا کی ایک وجہ تو ملک میں پیداواری لاگت کا بڑھنا ہے تاہم اس کے ساتھ ان کمپنیوں کے بین لاقوامی منصوبے اور حکمت عملی کا بھی اس میں دخل ہے۔
مثال کے طور پر دو سال قبل جب شیل پاکستان نے اپنے حصص فروخت کیے تھے تو کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ اس کے پورٹ فولیو کو بہتر بنانے عالمی پالیسی کا حصہ ہے۔
کچھ ماہرین معیشت کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ بلاشبہ پاکستان میں پیداواری لاگت کا بڑھنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم دوسری جانب ان کمپنیوں کی عالمی سطح پر پالیسی اور اس کے ساتھ پاکستان میں مقامی کمپنیوں کی مصنوعات سے مقابلہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ آف اکنامکس سے وابستہ ماہر معیشت شاہد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’صرف پیداواری لاگت بڑھنے کی عینک سے اس سارے معاملے کو دیکھنا صحیح نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ غیر ملکی کمپنیوں کی اپنی عالمی سطح پر اپنی حکمت عملی ہوتی ہے جو پاکستان میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
’اس کے ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں مقامی کمپنیوں سے سخت مقابلہ، ملک میں ریگولیٹری قوانین اور پاکستان سے ڈالر کی شکل میں منافع باہر لے جانے کی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنا زیادہ منافع بخش نظر نہیں آتا۔‘
شاہد محمود کے مطابق مقامی کمپنیوں کے ساتھ مقابلے کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے مارجن میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی سیل میں کمی ہے۔