انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سرکریک کے قریب علاقوں میں فوجی انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے اور کسی بھی مہم جوئی پر اُسے سخت جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے اس بیان پر تاحال کوئی ردعمل جاری نہیں کیا ہے۔

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سرکریک کے قریب علاقوں میں فوجی انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے اور کسی بھی مہم جوئی پر انھوں نے پاکستان کو سخت جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔ اس بیان پر پاکستان نے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو راج ناتھ سنگھ نے ’وجے دشمی‘ کے موقع پر ریاست گجرات میں ایک فوجی اڈے پر تقریب میں شرکت کی۔ جس میں انڈین آرمی کے سربراہ سمیت دیگر سینیئر رہنما موجود تھے۔ اس دوران انھوں نے پاکستان کو تنبیہ کی۔
انھوں نے کہا کہ ’آزادی کے 78 سال بعد بھی پاکستان بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی انڈیا کی بار بار کوششوں کے باوجود سر کریک سیکٹر پرتنازعات پیدا کر رہا ہے۔‘
انڈین وزیر دفاع نے کہا کہ ’پاکستان کی طرف سے سر کریک سیکٹر میں فوجی بنیادی ڈھانچے کی حالیہ توسیع بدنیتی کی عکاسی کرتی ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’سر کریک سیکٹر میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی طرح کی مہم جوئی فیصلہ کن ردعمل کو دعوت دے گی۔‘
’اگر پاکستان سر کریک سیکٹر میں کسی قسم کی مہم جوئی کرنے کی ہمت کرتا ہے تو جواب اتنا شدید ہوگا کہ یہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو بدل دے گا۔1965 میں انڈین فوج نے لاہور پہنچکر ہمت کا مظاہرہ کیا اور 2025 میں پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی جانے والی سڑک بھی کریک سے گزرتی ہے۔‘
سر کریک سرحدی تنازع کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے بعض سرحدی علاقوں پر تنازعات موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ زیر بحث علاقے کشمیر اور لداخ ہیں مگر ایک اور خطہ جس کی تقسیم کئی دہائیوں سے بحث کا موضوع رہی ہے، وہ سر کریک سیکٹر ہے۔
یہ پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی ریاست گجرات کے درمیان واقع 96 کلومیٹر طویل دلدلی زمین ہے جس پر دونوں ممالک کے اپنے اپنے دعوے ہیں۔
کریک کا مطلب سمندر میں موجود ایک تنگ خلیج ہے۔ سر کریک انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک تنگ اور دلدلی خلیج ہے جو بحیرہ عرب سے جڑی ہوئی ہے۔
اس کا اصل نام بان گنگا ہے جسے بعد ازاں برطانوی دور میں سر کریک کا نام دیا گیا تھا۔ یہ علاقہ تب سے ہی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔
سادہ الفاظ میں تنازعیہ ہے کہ دونوں ملک سمندری سرحد کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ سرحد کی لکیر خلیج کے وسط میں سے کھینچی جائے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ سرحد اس کے ساحل سے کھینچی جائے کیونکہ برطانوی حکومت نے 1914 میں اسے غیر بحری (یعنی جہاں بحری جہاز نہیں چل سکتے) علاقہ قرار دیا تھا۔

پاکستان اور انڈیا کے لیے سر کریک کیوں اہم ہے؟
1914 کے دوران پاکستان کا موجودہ صوبہ سندھ اور انڈین ریاست گجرات کا علاقہ کچھ دونوں بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ تھے۔ تاہم سر کریک کے علاقے پر دونوں کے درمیان تنازع تھا۔
اس وقت تک اس علاقے کا سروے تک نہیں ہوا تھا۔
سرویز 1913 اور 1914 کے درمیان کیے گئے اور بمبئی پریزیڈنسی نے ایک قرارداد جاری کی۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ سر کریک ایک دلدلی علاقہ ہے، اس لیے اس کی حدود کا تعین مرکز سے نہیں بلکہ ساحل سے ہو گا، یعنی مشرقی کنارے سے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پوری سر کریک سندھ کی طرف چلی گئی۔
آزادی کے بعد پاکستان اس فیصلے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن انڈیا کا کہنا تھا کہ سرحد خلیج کے وسط یعنی درمیانی راستے میں ہونی چاہیے۔
انڈیا نے اس کے پیچھے بین الاقوامی سرحدی قانون اور سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی ایل او ایس) کے اصول کا حوالہ دیا۔
اس اصول کو ’تھل ویگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر دو ملکوں کے درمیان کوئی دریا یا خلیج ہو تو عام طور پر اس کے ذریعے سرحد کا فیصلہ کیا جائے گا۔
لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ دلدلی اور غیر سمندری زمین ہے اس لیے اس پر یہ اصول لاگو نہیں ہوگا۔
انڈیا کا موقف ہے کہ یہاں سمندری لہریں آتی رہتی ہیں اس لیے علاقے کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور اب یہ صرف دلدلی زمین نہیں رہی ہے۔ انڈیا کے مطابق یہاں سے بحری جہاز بھی گزر سکتے ہیں اس لیے ساحل سے سرحد کی حد بندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اگر سرحد کی لکیر درمیان سے کھینچی جائے تو انڈیا کو سمندر کا بڑا حصہ مل جائے گا جبکہ لکیر کو کنارے سے کھینچا جائے تو پاکستان کو فائدہ ہوگا۔
دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ریشمی قاضی کہتی ہیں کہ یہ علاقہ اقتصادی اور علاقائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خصوصی اقتصادی زون ہے یعنی پانی یا سمندر کی سطح پر موجود وسائل اور کانٹینینٹل شیلف یعنی سمندر کے نیچے کی زمین اور اس کے معدنیات، تیل اور گیس کے ذخائر بھی اہم ہیں۔
ان کے مطابق یہ علاقہ تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے اکثر اس متنازع سرحد کو دونوں ممالک کے ماہی گیروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے دیکھا ہے۔ پاکستان اپنے لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین منصوبے کے حصے کے طور پر نمکین اور صنعتی پانی کو سر کریک میں پمپ کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ماحولیات متاثر ہوتا ہے بلکہ سندھ طاس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف یہ علاقہ سیلاب کا باعث بنتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ پانیسیلاب کا باعث بنتا ہے۔‘

کیا کبھی اس تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی؟
انڈیا اور پاکستان دونوں اقوام متحدہ کے کنونشن Law Of The Seaکے رکن ہیں۔
اس معاہدے کے تحت تمام ممالک کو 2009 تک اپنے سمندری تنازعات کو حل کرنا تھا، بصورت دیگر متنازع علاقہ بین الاقوامی پانی قرار دیا جائے گا۔
لیکن رکن ہونے کے باوجود انڈیا اور پاکستان سر کریک کو دو طرفہ مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اس تنازع کو کسی بین الاقوامی عدالت میں نہیں لے جانا چاہتے۔
دونوں ممالک کے درمیان 2015 تک اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ 1995 اور 2005 میں ہونے والی بات چیت کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ لیکن یہ معاملہ تعطل کا شکار رہا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔
ریشما قاضی کہتی ہیں کہ ’انڈین حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن یہ مسائل صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کو خود ہی اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا سر کریک کے علاقے میں پاکستان کے فوجی انفراسٹرکچر کی توسیع کا دعویٰ کتنا اہم ہے۔
دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی کا کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کا بیان ’بہت ہی غیر معمولی ہے‘ کیونکہ سر کریک کا معاملہ اب متعلقہ نہیں رہا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’1990 کی دہائی میں سر کریک ایک گرما گرم موضوع تھا لیکن اب یہ ایک مردہ موضوعہے۔ ‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ واضح نہیں ہے کہ راج ناتھ سنگھ نے اس وقت یہ بیان کیوں دیا لیکن یہ ممکنہ طور پر پاکستان کو خبردار کرنے کی کوشش ہے کہ انڈیا اس محاذ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘
اُن کے مطابق ’انڈیا نے بارہا کہا ہے کہ آپریشن سندور ابھی بھی جاری ہے اس لیے اسے اس کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے۔‘
دوسری جانب سابق انڈین سفارتکار مہیش سچدیو نے خبر رساں ایجنسی ’آئی این ایس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے اس علاقے پر ’پاکستان کے دعوے کو مسلسل مسترد کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہیں، ہم اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے یہاں انفراسٹرکچر بھی بنا رہے ہیں۔ اس لیے راج ناتھ سنگھ کا بیان پاکستان کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے کسی بھی طرح کے مبینہ دباؤ کو انڈیا زیادہ اہمیت نہیں دے گا۔‘
پروفیسر ریشمی قاضی کا خیال ہے کہ اگر پاکستان ’سر کریک کے علاقے میں اپنی فوج نقل و حرکت بڑھا رہا ہے تو انڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فضائی دفاع اور ریڈار ٹیکنالوجی کو مضبوط بنائے کیونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں سے دراندازی کا خطرہ بھی ہے۔‘