پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دوسرے ششماہی اقتصادی جائزہ مذاکرات میں فنڈ نے ٹیکس میں کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی محصولات عائد کرنے کی تجویز پیش کر دی۔
ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 200 ارب روپے کا ٹیکس شارٹ فال سامنے آیا ہے جس پر آئی ایم ایف نے حکومت کو تجاویز دیتے ہوئے کھاد اور زرعی کیڑے مار ادویات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ تجویز کیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق کھاد پر ایکسائز ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کی جائے جبکہ زرعی ادویات پر 5 فیصد نئی ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ محصولات میں کمی کا ازالہ کیا جا سکے۔ تاہم حکومت پاکستان نے حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے پیش نظر ایک سال کی مہلت دینے کی درخواست کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے رکھا گیا تھا مگر ٹیکس شارٹ فال کے باعث اب یہ ہدف 13.89 کھرب سے 13.96 کھرب روپے کے درمیان مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے عندیہ دیا کہ وہ ایف بی آر کے سالانہ ہدف میں 167 سے 240 ارب روپے تک کمی پر آمادہ ہو سکتا ہے اگر حکومت ٹیکس اصلاحات اور نئے ریونیو اقدامات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائے۔
آئی ایم ایف نے اجلاس میں کہا کہ علاقائی کشیدگی میں ممکنہ اضافہ معیشت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے جس سے اجناس کی قیمتوں اور تجارتی استحکام پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ عالمی سطح پر غیر یقینی حالات بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے تسلیم کیا ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو رواں مالی سال کے اختتام تک ٹیکس وصولی کا ہدف 400 سے 500 ارب روپے تک کم رہنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ نوید قمر نے کھاد اور زرعی ادویات پر ٹیکس میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسان پہلے ہی سیلاب اور گندم کی امدادی قیمت میں کمی سے متاثر ہیں مزید بوجھ ڈالنا ناانصافی ہوگی۔