امریکہ کا پاکستان کو جدید ایمریم میزائل فروخت کرنے کا فیصلہ لیکن اس کی صلاحیت کیا ہے؟

امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایمریم میزائلوں کے خریداروں کی فہرست میں شامل کرنے کو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی گرمجوشی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون کو امریکی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ خریداروں کی فہرست میں ترمیم کے بعد اب بظاہر یہ کمپنی پاکستان کو بھی جدید درمیانے فاصلے کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل (ایمریم) فروخت کر سکے گی۔

امریکی وزارتِ جنگ (جو پہلے وزارتِ دفاع کہلائی جاتی تھی) کی جانب سے امریکی فضائیہ کے لیے جاری ہونے والے کانٹریکٹمیں کہا گیا ہے کہ ریتھیون کو پہلے سے دیے گئے کانٹریکٹ میں سی ایٹ (C8) اور ڈی تھری (D3) میزائلوں کی بہتری اور اس کی پروڈکشن کے لیے مزید چار کروڑ 16 لاکھ ڈالر کے فرم فکسڈ پرائس ترمیم کی منظوری دی گئی ہے۔

بیان کے مطابق، اس ترمیم کے بعد معاہدے کی مجموعہ مالیت 2.47 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 2.5 ارب ڈالرز ہو گئی ہے۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان سمیت 30 سے زائد ممالک کی افواج کو عسکری سامان فروخت کیا جائے گا۔ جن ممالک کو اس معاہدے میں رکھا گیا ہے ان میں برطانیہ، پولینڈ، پاکستان، جرمنی، فن لینڈ، آسٹریلیا، رومانیہ، قطر، عمان، کوریا، یونان، سوئٹزرلینڈ، پرتگال، سنگاپور، ہالینڈ، جمہوریہ چیک، جاپان، سلوواکیہ، ڈنمارک، کینیڈا، بیلجیم، بحرین، سعودی عرب، اٹلی، ناروے، اسپین، کویت، سویڈن، فن لینڈ، کویت، سویٹزرلینڈ، ٹاونیا، لیو، اسپین بلغاریہ، ہنگری اور ترکی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ یہ میزائل پاکستان کے پاس موجود امریکی ساختہ ایف 16 فیلکن میں نصب کیے جاتے ہیں۔

اس سے قبل 2007 کی ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، اس سال جنوری میں پاکستان نے ریتھیون گروپ سے 28 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے 700 فضا سے فضا میں کرنے والے میزائل خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔

پاکستان فضائیہ کا ایف-16 طیارہ
AFP via Getty Images
پاکستان فضائیہ کا ایف-16 طیارہ

ایمریم اے آئی ایم-120 میزائل کیا ہے؟

امریکی فضائیہ کے مطابق، ایمریم اے آئی ایم-120 جدید درمیانے فاصلے کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے (ایڈوانسڈ میڈیم رینج ایئر ٹو ایئر) میزائل ہیں جو ہر موسم میں نظر کی حد سے دور (جسے بی وی آر کہا جاتا ہے) اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان میزائلوں کو امریکی ایئر فورس، بحریہ اور امریکہ کے اتحادیوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔

ریتھیون کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق، یہ میزائل 40 ممالک خرید چکے ہیں اور انھیں ایف-15، ایف-16 فیلکن، ایف-18 فپر ہورنیٹ اور جدید ایف-35 سمیت متعدد لڑاکا طیاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

کمپنی کے مطابق یہ واحد ریڈار گائیڈڈ فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے جسے F-35 پر استعمال کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

ایم120-C8اور 120-D3 کا شمار سب سے جدید امریم میزائلوں میں ہوتا ہے۔ ان میزائلوں کی لمبائی تقریباً 12 فٹ ہے۔

امریکی وزارتِ جنگ یا کمپنی کی جانب سے باقاعدہ طور پر تو نہیں بتایا گیا کہ یہ میزائل کتنی دوری تک مار کر سکتے ہیں تاہم متعدد دفاعی جریدوں کے مطابق، 120-D3 میزائل 180 کلومیٹر کی دوری تک مار کر سکتے ہیں اور انھیں چینی پی ایل 15 میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

رواں ماہ ایئر اینڈ سپیس میگزین نے ریتھیون کے عہدیداروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ کمپنی نے گذشتہ سال سافٹ ویئر تبدیلیوں کر کے اے آئی ایم 120 کی حد ’نمایاں طور پر‘ بڑھانے میں کامیاب رہی۔

چین کے پی ایل-15 میزائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی رینج 190 میل (300 کلو میٹر) تک ہے جبکہ اس میزائل کا وہ ورژن جو چین برآمد کرتا ہے اس کی رینج تقریباً 90 میل (144 کلو میٹر) ہے۔

اے ایم آئی-120 کے نئے ویریئنٹ

دفاعی و میزائل تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں ایمریم امریکی فضائیہ اور بحریہ کا صفِ اول کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے اور تمام امریکی لڑاکا طیارے بشمول ایف-16، ایف-18 اور ایف-35 اسی میزائل سے لیس ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان فضائیہ نے جو اے آئی ایم-120 میزائل 2006 میں حاصل کیے تھے وہ سی 5 ماڈل تھے جنھیں ایف-16 سی اور ڈی بلاک 52 کے ساتھ لیے تھے۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ 2019 میں آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوران پاکستان فضائیہ نے انڈیا کے پائلٹ ابھینندن کے مگ-21 طیارہ کو بھی اس ہی میزائل کی مدد سے نشانہ بنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مئی میں انڈیا کے ساتھ ہونے والی فضائی جھڑپ میں پاکستان نے چینی ساختہ پی ایل 15 میزائل استعمال کیے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ مئی میں ہونے والی جھڑپ کے دوران پاکستان نے ایف-16 کے ذریعے کسی انڈین جہاز کو نشانہ نہیں بنایا۔ ’اس کی وجہ یہ ہے پی ایل-15 کی رینج ایمریم سے کہیں زیادہ ہے۔‘ ان کے مطابق، پاکستان نے انڈیا کے جتنے بھی طیارے تباہ کیے سب انڈین حدود کے اندر تباہ کیے تھے۔

محمد علی کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد امریکی کمپنیوں میں بھی احساس پیدا ہوا ہے کہ انھیں اپنے میزائلوں کی رینج بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

محمد علی کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے ایئر چیف کے دورہ امریکہ کے بعد اس خبر کا سامنے آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے پاکستانی فضائیہ چین کے ساتھ تعاون کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی دفاعی تعاون میں بھی اضافہ چاہتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ابھی پاکستان فضائیہ کے ایف-16 طیارے اے آئی ایم-120 کے سی-5 ویریئنٹ سے لیس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میزائل نئے ورژن کی نہ صرف رینج بہتر ہے بلکہ اس کا سیکر (گائیڈنس سسٹم) بھی زیادہ موثر ہے۔

’اس کے علاوہ اس کی الکٹرانک جیمنگ کے خلاف صلاحیت بھی بہتر ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے ایف-16 طیاروں کی فضا سے فضا میں طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت میں بھی کافی اضافہ ہو جائے گا۔‘

امریکہ اور پاکستان کے درمیان بڑھتی گرمجوشی اور چین کے ساتھ تعلقات

امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایمریم میزائلوں کے خریداروں کی فہرست میں شامل کرنے کو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی گرمجوشی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مئی میں ہونے والی جنگ، جسے رکوانے کا دعویٰ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرتے ہیں، کے بعد سے پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم تین مرتبہ امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔

انھوں نے پہلا دورہ جون کے وسط میں کیا جس کے دوران ان کی ایک نجی محفل کے دوران امریکی صدر سے بھی ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات کے محض دو ہفتوں بعد پاکستان فضائیہ کے سربراہ ظہیر احمد بابر سدھو جولائی کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے گئے۔ وہ امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان فضائیہ کے پہلے سربراہ ہیں۔

گذشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی۔

پاکستان نے مئی میں انڈیا کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں انڈیا کے فرانسیس ساختہ رافیل سمیت چھ طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے اس لڑائی کے دوران چینی ساختہ پی ایل 15 میزائل بھی استعمال کیا تھا۔

دوسری جانب انڈیا بھی پاکستان کے ایف-16 سمیت متعدد جہاز گرانے کا دعویٰ کرتا آیا ہے۔

اس کے علاوہ، امریکی صدر بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ جنگ کے دوران سات طیارے مار گرائے گئے تھے۔

ایسے میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو میزاِئل فروخت کرنے کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت بہت سارے لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کی حالیہ نطرِ کرم کی وجہ کیا ہے۔‘

’اس کی ایک ممکنہ وجہ تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے مدبھیڑ ہے لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے جتنے بھی تعلقات ہوتے ہیں ہمارے جیسے ملکوں کے ساتھ وہ ٹرانسیکشنل (کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر) ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستانی قیادت مغرب کے زیادہ دورے کر رہی ہے اور وہاں زیادہ وقت گزارا جا رہا ہے۔ ہمارے لیڈران چین بھی گئے ہیں لیکن جتنے دن کے لیے گئے ہیں اور جو بیانات آئے ہیں اور جو کچھ مغرب کی طرف ہو رہا ہے اس میں توازن نظر نہیں آ رہا۔ ایسا لگ رہا ہے ہمارا جھکاؤ مغرب کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘

’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آئی گی یا ہم توازن قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ہم امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات کو ہینڈل کر پائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US