کلیدی فیصلے، پپی جپھی والے سٹرٹیجک معاہدے اور خرید و فروخت کے سمجھوتے کہیں اور کوئی اور کسی اور سے کر رہے ہوں تو پھر با اختیاری کے سراب میں مبتلا بے اختیار اداکار قیادت کا ویہلا ٹائم ایک دوسرے کی پگڑیوں سے والی بال کھیل کے ہی گزر سکتا ہے۔ غلاموں کا غصہ غلاموں پر ہی نکلتا ہے۔
میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھےکسی کو یاد ہے کہ 19 برس پہلے 14 مئی 2006 میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 36 نکاتی چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) پر دستخط کیے تھے۔
اس چارٹر میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے پہلے والے 1973 کے آئین کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایک آزاد و خود مختار و غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے قیام کا عہد کیا گیا تھا۔ کمیشن کے ارکان کی تقرری حزبِ اقتدار و اختلاف کی مشاورت اور کھلی پبلک سماعت کے بعد ہونا تھی۔
چارٹر کے تحت ایک سچائی کمیشن بھی بننا تھا جس کا کام سیاسی انتقام، ٹارچر، جھوٹے ریاستی مقدمات، مخصوص سیاسی مفادات کے تحت ہونے والی قانون سازی اور جانبدار احتسابی عمل کی روک تھام تھا۔
کارگل جیسی عسکری مہم جوئی کی چھان بین کے لیے ایک کمیشن کے قیام کا وعدہ بھی تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئندہ منتخب حکومتیں اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بالائے آئین ہتھکنڈے استعمال نہیں کریں گی اور نہ ہی استعمال ہوں گی۔
کوئی جماعت کسی منتخب حکومت کے خاتمے یا برسرِ اقتدار آنے کے لیے فوجی قیادت سے مدد نہیں لے گی۔ ارکانِ پارلیمان کی طرح عدالتی و عسکری عہدے داروں پر بھی لازم ہو گا کہ وہ اپنے اثاثہ جات کے سالانہ تفصیلی گوشوارے مشتہر کریں۔
تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو بلا امتیاز و دباؤ انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔ عام انتخابات کے انعقاد کے نوے روز کے اندر بلدیاتی انتخابات لازماً کروائے جائیں گے۔
بلاول بھٹو پی پی پی کے چیئرمین اور مریم نواز پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیںخصوصی عدالتیں بشمول دہشت گردی سے متعلق اور احتساب عدالتیں ختم کر دی جائیں گی اور تمام مقدمات معمول کی سویلین عدالتوں میں چلیں گے یا منتقل کر دیے جائیں گے۔
اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک خود مختار کمیشن کرے گا اور چیف جسٹس بھی وہ جو ماضی میں کسی عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) کا حلف یافتہ نہ رہا ہو۔ اس جوڈیشل کمیشن میں ہائی کورٹوں کے غیر پی سی او حلف یافتہ چیف جسٹس یا سینیئر جج اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے صدور شامل ہوں گے۔ کمیشن میں حکومت کی نمائندگی صرف وفاقی وزیرِ قانون و اٹارنی جنرل کریں گے۔
آئی ایس آئی، ایم آئی سمیت تمام حساس ادارے وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ، وزارتِ دفاع اور کیبینٹ ڈویژن کے توسط سے منتخب حکومت کو جوابدہ ہوں گے۔ ان اداروں کے بجٹ کی ڈیفنس کمیٹی منظوری دے گی۔ ان اداروں کے سیاسی ونگز ختم کر دیے جائیں گے۔
ملکی سلامتی کے نام پر سکیورٹی اداروں میں بجٹ کے درست استعمال کو باقاعدہ بنانے کے لیے جائزہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ایجنسیوں میں سینیئر آسامیوں پر تقرریاں متعلقہ وزارت کے توسط سے حکومت کی منظوری سے ہوں گی۔ دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں بحث مباحثے کے بعد منظور کیا جائے گا۔
جوائنٹ سروسز کمان (جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) کو مزید مؤثر اور کارگر بنانے کے لیے کمان کی گردشی سربراہی (روٹیشن) کا اصول قانونی طور پر لاگو ہو گا۔
دفاعی اداروں کو جو زرعی اراضی اور کنٹونمنٹ ایریاز کی زمین الاٹ کی گئی ہے اس کی شفاف قانونی حیثیت کا تعین اور الاٹمنٹ کے قواعد کی چھان پھٹک ایک کمیشن کرے گا۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
آج 19 برس بعد حالات یہ ہیں کہ اگر میں یہ نہ لکھوں کہ یہ نکات چارٹر آف ڈیموکریسی کے مسودے میں شامل ہیں کہ جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے علاوہ دیگر سرکردہ جماعتوں نے بھی دستخط کیے تھے تو مجھے خدشہ ہے کہ کہیں عوام الناس کو اکسانے، ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور منتخب حکومت کے خلاف منافرت پھیلانے کے الزام میں ایف آئی اے سمیت کوئی ادارہ پیکا ضوابط یا ملکی سلامتی کے کسی قانون کے تحت پرچہ نہ کاٹ دے یا کوئی ’آزاد شہری‘ کسی تھانے یا عدالت میں مندرجہ بالا الزامات کے تحت درخواست نہ دے ڈالے۔
چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستحظوں کی کئی برس تک سالگرہ بھی منائی جاتی رہی۔
عدلیہ کی آزادی کی تحریک بھی پورے جذبے سے دیکھنے کو ملی۔ نئے نئے جوش میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی کچھ عرصہ سنائی دیتا رہا۔ ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو دو بار پرامن انتقالِ اقتدار کی خوشیاں بھی منائی گئیں اور یہ بھی سننے میں آیا کہ پاکستان بالاخر اس جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ گیا ہے کہ جس کا خواب ملک کے بانیوں نے دیکھا تھا۔
اور پھر ڈکشنری ہی بدلتی چلی گئی۔ ہائبرڈ جمہوریت، پارلیمنٹ ٹوٹنے کے نوے روز کے اندر لازمی الیکشن کی آئینی شق کا مضحکہ، فارم پینتالیس، فارم سینتالیس، انتخابی نشان سے محرومی، مخصوص نشستوں کا بٹوارا، چھبیسویں آئینی ترمیم، فائر وال اور پیکا ایکٹ کے بوٹوں تلے میثاقِ جمہوریت ایسا دبا کہ اب اسے تلاش کرنے والا چھوڑ نام لینے والا بھی دور دور تک نہیں۔ یہ کارِ خیر بھی میثاقِ جمہوریت کے دستخط کنندگان کی تائید سے ہوا۔
چارٹر کی ایک دستخط کنندہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں اور دوسرے دستخط کنندہ میاں نواز شریف ایوانِ سیاست کے عقبی کمرے میں بظاہر گوشہ نشین ہیں۔ اندونوں کے وارث سندھ اور پنجاب کوایسے وقت ایک دوسرے سے عظیم تر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب انتخابی مہم کا دور دور تک ماحول نہیں اور موثر حزبِ اختلاف نام کی کوئی شے دوربین سے بھی نظر نہیں آ رہی۔
کلیدی فیصلے، پپی جپھی والے سٹرٹیجک معاہدے اور خرید و فروخت کے سمجھوتے کہیں اور کوئی اور کسی اور سے کر رہے ہوں تو پھر با اختیاری کے سراب میں مبتلا بے اختیار اداکار قیادت کا ویہلا ٹائم ایک دوسرے کی پگڑیوں سے والی بال کھیل کے ہی گزر سکتا ہے۔ غلاموں کا غصہ غلاموں پر ہی نکلتا ہے۔
دوسری جانب سیلابی پانی بھی حسبِ معمول خود بخود خشک ہو رہا ہے۔ لڑکھڑانے والے لاکھوں گیلے متاثرین پہلے کی طرح جیسے تیسے خشک ہو کر کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہو ہی جائیں گے۔ نہ تو یہ مخلوق چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہے اور نہ ہی چارٹر آف ہپوکریسی میں فریق۔ مگر سب کاروبار اسی مخلوق کی بہتری کے نام پر چل رہا ہے۔