کراچی ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر ماہ 90 افراد سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں ہلاک اور زخمی ہونے والے زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہی ہوتے ہیں جو ہر کچھ عرصے بعد شہر میں چلنے والی بھاری ٹریفک یعنی ڈمپروں، ٹینکروں اور ٹریلروں کا نشانہ بنتے ہیں۔

’کیا سڑک پر موٹر سائیکل چلانے والے انسان نہیں ہیں؟ کیا اُن کی زندگی قیمتی نہیں ہے؟آپ دو منزلہ گاڑی پر بیٹھ کر ڈرائیونگ کرتے ہو، کیا آپ لوگوں کو ہم دکھائی نہیں دیتے۔۔۔‘
محمد شاکر کے پاس اس نوعیت کے لاتعداد سوالات ہیں اور اُن کے مطابق وہ ان سوالات کا جواب نہیں ڈھونڈ پا رہے۔
10 اگست کی شب شاکر اپنے بچوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار اپنے بردار نسبتی کے گھر سے واپس اپنے گھر جا رہے تھے جب وہ واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی بدل دی۔
کراچی کی راشد منہاس روڈ پر ایک ’بے قابو ڈمپر‘نے ان کی بائیک کو ٹکر ماری اور ان کے بچوں کو روندتا ہوا نکل گیا۔
شاکر کو وہ منظر آج بھی یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی موٹر سائیکل کے پیچھے تین سے چار ڈمپر ٹرک آ رہے تھے، انھوں نے انھیں راستہ دیا تو کچھ ٹرک گزر گئے مگر اِسی دوران عقب سے اُن کی موٹر سائیکل کو زوردار ٹکر لگی۔
’جب ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تو میری بیٹی کی چیخ نکلی۔ میں نے لڑکھڑاتے ہوئےپیچھے مڑ کر دیکھا تو میرا بیٹا اور بیٹی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر موجود نہیں تھے۔‘
’اِسی دوران ایک ہائی روف وہاں سے گزر رہی تھی جس سے میری بائیک ٹکرائی اور پھر مجھے ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو میرا بیٹا اور بیٹی فٹ پاتھ پر پڑے تھے اور وہاں سینکڑوں لوگ جمع تھے۔ جب میں نے اُن سے اپنے بچوں کے بارے میں سوال کیا تو بتایا گیا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘
ہیوی ٹریفک کا سایہ اور موٹر سائیکل سواروں کا خوف
محمد شاکر کی کہانی کراچی میں موٹر سائیکل چلانے والے ایسے درجنوں شہریوں کی نمائندگی کرتی ہے جو اس شہر میں ہر سال اسی نوعیت کے حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کراچی ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر ماہ 90 افراد سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں ہلاک اور زخمی ہونے والے زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہی ہوتے ہیں جو ہر کچھ عرصے بعد شہر میں چلنے والی بھاری ٹریفک یعنی ڈمپروں، ٹینکروں اور ٹریلروں کا نشانہ بنتے ہیں۔
کراچی کی راشد منہاس روڈ پر ایک ’بے قابو ڈمپر‘نے شاکر کی بائیک کو ٹکر ماری اور ان کے بچوں کو روندتا ہوا نکل گیاخوشی اسلام پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور آمدورفت کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ خود دو بار موت سے بچی ہیں۔ ’ایک بار میں شاہراہ بھٹو پر آہستہ آہستہ جا رہی تھی جب ایک ٹرالر انتہائی تیز رفتاری سے میرے بالکل قریب سے مڑا اور سیدھا نکل گیا۔ اس روز میں بڑی مشکل سے بچی۔‘
وہ بتاتی ہیں اسی طرح سڑک پر ایک ٹرالر نے ایک دفعہ اچانک سے رُخ موڑ لیا، جس کے پیچھے آنے والی گاڑی کا ڈرائیور قابو نہ رکھ سکا اور وہ بہت مشکل سے بچیں۔
محمد ریحان بائیکیا رائیڈر ہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ ’بھاری گاڑیاں چلانے والے بظاہر آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتے۔ صرف انھیں ایک بار تھوڑی سے خالی سڑک نظر آ جائے پھر وہ کچھ نہیں دیکھتے کہ آیا آگے موٹر سائیکل ہے، رکشہ ہے یا کوئی اور چیز۔ اس طرح کے کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ ہمارے بہت سے موٹر سائیکل سوار بھائی بھی مارے گئے ہیں۔‘
آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق حادثات کا شکار ہونے والوں کی اکثریت 30 سے 40 سال کے عمر کے درمیان ہوتی ہے، جو اپنے خاندانوں کے لیے (معاشی لحاظ سے) ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے محقق سرجن ڈاکٹر رشید جمہ کہتے ہیں کہ حادثے کی صورت میں متاثرہ شخص کے بیروزگار ہونے کی قیمت، اُس کی طبی امداد کے اخراجات، فیملی کی پریشانی وغیرہ یہ سب ملا کر ایک بڑا بوجھ بنتا ہے۔
’تیز رفتاری حادثات کی بڑی وجہ‘
ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں لگ بھگ 24 ہزار سے زائد ڈمپرز، ٹینکرز اور ٹرکس موجود ہیں اور ماہرین حادثات کی سب سے بڑی وجہ ان بھاری گاڑیوں کی تیز رفتاری کو سمجھتے ہیں۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبے اربن اینڈ انفرا اسٹریکچر کے پروفیسر محمد احمد کہتے ہیں کہ ’اگر بھاری گاڑی ہو، پھر چاہے وہ پانی سے بھری ہو، کچرے سے یا کسی اور چیز سے اسے مشکل صورتحال میں کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
’اگر گاڑی کی رفتار پر غور کریں تو یہ جتنا زیادہ وزن اٹھائے گی اس میں اتنی ہی زیادہ طاقت ہو گی۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شہری علاقوں میں استعمال ہونے والی ان گاڑیوں کے بریکس کس نوعیت کے بنائے گئے ہیں اور یہ کتنا وزن برداشت کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’صرف ٹرک والوں کو مورد الزام ٹھہرانا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ موٹر سائیکل سوار بھی قدرے لاپرواہ ہیں، وہ بھی لائن میں نہیں رہتے اور کسی بھی کونے کھدرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تمام تر وجوہات حادثات کا باعث بنتی ہیں۔‘
شہر کی ٹوٹی سڑکیں
دو کروڑ سے زائد آبادی والے کراچی شہر میں سڑکوں کا جال موجود ہے تاہم یہ کچھ بہتر زیادہ بہتر حالت میں نہیں ہیں۔ ماہرین حادثات کی ایک وجہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں کو بھی قرار دیتے ہیں۔
ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کہتے ہیں کہ ’سڑکوں پر گڑھے ہیں، اگر کوئی موٹر سائیکل سوار کسی بھاری گاڑی کو اوور ٹیک کر رہا ہو اور اس دورانیے میں وہ کسی گڑھے سے ٹکرا جائےتو توازن خراب ہو جاتا ہے۔
’ہم نے بہت سے ایسے حادثات دیکھے ہیں جن میں موٹر سائیکل سوار کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ خراب سڑک کی وجہ سے سوار نے اپنی موٹرسائیکل کا کنٹرول کھو دیا، اور وہ گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک ہو گیا۔‘
ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں لگ بھگ 24 ہزار سے زائد ڈمپرز، ٹینکرز اور ٹرک موجود ہیںپروفیسر محمد احمد کے مطابق ’موٹرسائیکل چلانے والے پیچھے یا دائیں بائیں دیکھنے والے شیشے لگانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے حالانکہ اگر یہ لگے ہوں اور ان کی مدد سے پیچھے نظر رکھی جائے تو حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔‘
’موٹر سائیکل سوار گڑھوں یا کسی دوسری ٹوٹی ہوئی سڑک سے بچنے کے لیے اچانک رُخ بھی موڑتے ہیں، یہ بچنے کے لیے ایک غیر اداری عمل ہوتا ہے اس سے قطع نظر کہ پیچھے کیا آ رہا ہے۔‘
’لہذا یہ حادثات کی ناگزیر وجوہات ہیں۔ میں براہِ راست کہوں یا بالواسطہ، یہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں حادثات کی وجہ ضرور ہیں۔‘
دوسری جانب کراچی ڈمپر اونرز ایسوسی ایشن کے صدر لیاقت محسود کہتے ہیں کہ موٹرسائیکل سے لے کر ٹریلر تک سب ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود سڑک کے بیچوں بیچ گڑھے ہیں۔ ’شہر کی حالت اور سڑک کی حالت دیکھیں۔ ہر چیز کی ذمہ داری ٹرانسپورٹر پر ڈال دی جاتی ہے۔‘
پانی کے ٹینکر
کراچی میں پینے کے پانی کا بحران ہے۔ ڈیفنس ہو یا اورنگی، کئی علاقوں میں پانی کی ترسیل کی لائنیں ہی موجود نہیں ہیں۔ اور اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے پانی سے محروم علاقوں میں واٹر سپلائی کا واحد ذریعہ بڑے ٹینکر ہی رہ جاتے ہیں جو دن کے 24 گھنٹے سڑکوں پر موجود رہتے ہیں۔
پروفیسر محمد احمد کہتے ہیں ’اگر ہم چند دہائیاں پیچھے جائیں تو اُن دنوں مزدا کی وجہ سے حادثات ہوا کرتے تھے کیونکہ مزدا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں دوڑ لگا رہے ہوتے تھے۔‘
’اب پانی ہر گھر تک نہیں پہنچ رہا ہے، اس لیے ہر ٹینکر مالک پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ ٹینکر بھر کر پانی سپلائی کرے اور کمائی کرے، اسی جلد بازی میں وہ بعض أوقاتاپنی رفتار پر کنٹرول کھو دیتے ہیں۔‘
کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق حادثات کی ایک بڑی وجہ ان ٹینکروں کی رفتار کا بے قابو ہونا بھی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی
کراچی میں شہریوں کی آمدرفت کے لیے حکومت نے گرین لائن اور ریڈ لائن بسوں کا آغاز کیا ہے لیکن یہ محدود پیمانے پر ہے اور زیادہ تر شہری اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے مطابق ان کی تعداد پچاس لاکھ سے زائد ہے۔ ماہرین کے نزدیک سڑکوں پر حادثات کی ایک وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی بھی ہے۔
کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق حادثات کی ایک بڑی وجہ ٹینکروں کی رفتار کا بے قابو ہونا بھی ہےڈاکٹر رشید جمعہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال جناح میں سرجن کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خاص طور پر سنہ 2005 کے بعد سڑک پر حادثات اور بلخصوص موٹر سائیکل سواروں کے زخمی ہونے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ’اس کی وجہ یہ ہے کہ سڑکیں ٹریفک سے بھر چکی ہیں اور وقت کے ساتھ دو پہیوں والی گاڑیوں یعنی موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘
’ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ لوگ سفر میں سڑک کے استعمال میں جو خطرہ مول لے رہے ہیں، وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔‘
پروفیسر محمد احمد بھی ڈاکٹر رشید جمعہ سے اتفاق کرتے ہیں۔
اونچی نشستیں اور ’بلائنڈ سپاٹس‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ڈمپرز اور ٹینکرز جیسی بڑی گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹیں اونچی ہوتی ہیں اور اسی اونچائی کی وجہ سے ’بلائنڈ سپاٹس‘ بنتے ہیں جن میں کچھ نظر نہیں آتا۔
پروفیسر محمد احمد کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں اب بڑی گاڑیوں میں بھی ڈرائیوروں کی سیٹ نیچے ہوتی ہے تاکہ بلائنڈ سپاٹس نہ ہوں لیکن یہاں اب بھی پرانا نظام موجود ہے۔ اونچی گاڑیوں میں کچھ بلائنڈ زون بنتے ہیں جہاں ڈرائیوروں کی نظر نہیں پڑتی، چاہے وہ کچھ بھی کر لیں۔‘
ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کہتے ہیں کہ ’بڑی گاڑیوں میں کچھ اطراف ایسی ہوتی ہیں جہاں ڈرائیور کچھ نہیں دیکھ پاتے، خاص طور پر موٹر سائیکل سوار جو ایک ٹرک کے مقابلے میں انتہائی چھوٹے سائز کی سواری ہے۔‘
’دوسری بات یہ کہ جب کوئی بڑی گاڑی چلتی ہے تو ایک لرزش پیدا ہوتی ہے اور ہوا کا دباؤ بھی جو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اور ایسی صورت میں اگر کوئی بڑی گاڑی کسی چھوٹی سواری کے انتہائی قریب سے گزرتی ہے تو چھوٹی سواری کا توازن خراب ہونا یقینی ہے۔ بڑی گاڑیوں کے ڈرائیورز کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔‘
حکومت کیا کر رہی ہے؟
حکومت سندھ نے ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے جرمانوں میں اضافہ کیا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 30 سال سے کم عمر افراد کے بڑی گاڑیاں چلانے پر پابندی عائد کی ہے۔ اس کے علاوہ ان گاڑیوں پر کیمرے لگانے کی بھی ہدایت کی ہے لیکن ٹرانسپورٹرز اس سے خوش نہیں ہیں۔
حکومت سندھ نے ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے جرمانوں میں اضافہ کیا ہے اور 30 سال سے کم عمر افراد کے بڑی گاڑیاں چلانے پر پابندی عائد کی ہےڈمپرز اونرز ایسوسی ایشن کے صدر لیاقت محسود کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ذاتی گاڑی میں کیمرے لگائے جس پر اُن کا 25 سے 30 ہزار کا خرچہ آیا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر کارگر نہیں۔
ڈی آئی جی ٹرئفک پیر محمد شاہ کہتے ہیں ’ڈمپرز، ٹینکر اور بسیں اگر ٹریکر نہیں لگوائیں گی تو ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے جس کی کابینہ منظوری دے چکی ہے۔‘ پولیس نے شہر میں ان بڑی گاڑیوں کی حد رفتار 30 کلومیٹر مقرر کی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر چالان ہوتا ہے۔
کراچی میں ٹریفک پولیس کے کنٹرول روم میں کئی سکرینوں پر مشتمل مانیٹرنگ سیل قائم ہے جہاں ہیوی گاڑیوں کے ساتھ شہر کی ٹریفک کی نگرانی کی جاتی ہے۔
اگر کوئی بڑی گاڑی جس پر ٹریکر نصب ہے، کی رفتار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد ہوتی ہے تو اس کنٹرول روم میں الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے جس پر گاڑی کے مالک کو چالان بھیجا جاتا ہے۔ کنٹرول روم کے مطابق اس وقت تک دس ہزار سے زائد ٹینکرز، ڈمپرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جن میں ٹریکر لگائے گئے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاڑیوں اور ڈرائیوروں کی فٹنس کا کوئی مؤثر نظام نہیںہے جس کے نتیجے میں گاڑیوں کی خرابی ہو یا ڈرائیور کی غفلت دونوں ہی بڑے حادثات کو جنم دیتی ہے اور اب یہ کراچی میں لگ بھگ ہر روز کا معمول بن چکا ہے۔
نتیجے میں عوام کا صبر کبھی کبھار لبریز ہو جاتا ہے اور وہ ان ہیوی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیتے ہیں اور یوں یہ انتظامی اور تیکنکی مسئلے کے بجائے سیاسی شکل اختیار کر لیتا ہے۔