کچھ لوگ دنیا میں صرف اپنی صلاحیت سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے امر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی ایک مکمل کہانی لگتی ہے. ایک ایسا سفر جس میں شہرت بھی ہے، دولت بھی، آزمائش بھی اور آخر میں ایمان کی چمک بھی۔ آج ہم ایک ایسے ہی بچے کی بات کر رہے ہیں جو کبھی نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھا، مگر وقت نے اسے دین کی راہ پر ایسا مسافر بنا دیا کہ وہ ایک نئی پہچان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا۔
یہ کہانی ایک ایسے لڑکے کی ہے جو 80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان کے ہر گھر میں پہچانا جاتا تھا۔ اس کی آواز نے پوری قوم کو جوڑ دیا تھا، اس کی مسکراہٹ میں ایک معصوم کشش تھی، اور اس کے گانے ملک کا غیر رسمی ترانہ بن گئے تھے۔ وہ گلوکار، ماڈل اور انجینئر, تینوں صفات کا حسین امتزاج تھا۔ لیکن پھر ایک دن، اس نے وہ فیصلہ کیا جو کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ شہرت کی چکاچوند سے بھرپور زندگی چھوڑ کر، اس نے دین کی راہ اختیار کی۔ موسیقی کے بجائے نعتوں کو، فیشن کے بجائے سادگی کو، اور دنیا کے بجائے آخرت کو اپنا مقصد بنا لیا۔
جی ہاں، یہ کہانی ہے جنید جمشید کی. ایک ایسا نام جو “دل دل پاکستان” کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور بعد میں “محمد ﷺ کے غلاموں کا غلام” کہلایا۔ جنید جمشید نے 1987 میں “وائٹل سائنز” کے ساتھ اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے سب سے مقبول پاپ سنگر بن گئے۔ ان کے گانے “گورے رنگ کا زمانہ”، “سانولی سلونی” اور “اعتبار بھی ” نے نئی نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
لیکن جب ان کے دل میں ایمان کی روشنی اترنے لگی تو سب کچھ بدل گیا۔ انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارا، قرآن و سنت کا علم حاصل کیا، اور اپنی باقی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ وہ کہتے تھے، “میں نے اپنے رب کو پہچان لیا ہے، اب میرا کام دوسروں کی اصلاح ہے۔”
7 دسمبر 2016 کو، جنید جمشید چترال سے واپس آ رہے تھے جب پی آئی اے کی پرواز PK-661 حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اس حادثے میں شہید ہو گئے۔ ان کی موت نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا، مگر ان کا نام ایمان، قربانی اور تبدیلی کی علامت بن گیا۔
جنید جمشید آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں. کبھی ایک قومی گانے کے ذریعے، کبھی ایک نعت کے وسیلے سے، اور کبھی اس یاد کے ساتھ کہ ایک شخص جس نے دین کے لئے دنیا چھوڑ دی، اسے دنیا نے کبھی نہیں بھلایا۔