خدارا اسے خوشامد مت کہیں۔ بہتر ہو گا کہ اسے سفارت کاری بھی نہ کہا جائے۔ شہباز شریف نے شرم الشیخ میں ساڑھے پانچ منٹ میں جو کر دکھایا وہ ایک فن پارہ تھا۔ محمد حنیف کی تحریر۔۔۔

خدارا اسے خوشامد مت کہیں۔ بہتر ہو گا کہ اسے سفارت کاری بھی نہ کہا جائے۔ شہباز شریف نے شرم الشیخ میں ساڑھے پانچ منٹ میں جو کر دکھایا وہ ایک فن پارہ تھا۔
اُسے بچے سکولوں میں دیکھا کریں گے، وہ سرکاری افسران کے ٹریننگ سکولوں میں سلیبس میں شامل ہو گا، آرٹ گیلریز میں نمائش ہو گی، شادیوں پر ڈی جے مائی فیورٹ فیلڈ مارشل والے جملے کو میوزک پر سیٹ کریں گے اور مست ماحول بنا دیں گے۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوں تو دوبارہ سوچیں کہ مبالغہ آرائی وہ کر رہے تھے یا میں۔
اگر یقین نہیں آتا تو شہباز شریف اور ٹرمپ والی ویڈیو دوبارہ دیکھیں۔ میں نے ریوائنڈ کر کے دیکھی، آواز بند کر کے دیکھی، پھر ایک گیارہ سالہ بچے کو دکھائی۔ وہ بھی مبہوت ہو کر سُنتا رہا، کبھی میری طرف دیکھے کبھی شہباز شریف اور صدر ٹرمپ کی جوڑی کی طرف دیکھے اور حیرت کے ساتھ سر ہلاتا جائے۔
یہ ہوتا ہے فن، اسے کہتے ہیں فنکار۔
بند کمروں میں ہر کوئی چھوٹی چھوٹی خوشامد کر لیتا ہے، پبلک فورم پر نپے تلے انداز میں سپاس نامے پیش کیے جاتے ہیں لیکن فنکار کا اصلی امتحان اُسی وقت ہوتا ہے جب سٹیج بڑا ہو اور سُر سنگیت کو سمجھنے والے سامنے بیھٹے ہوں۔
غزہ میں دو سال کی خون آشام تباہی کے بعد صدر ٹرمپ امن معاہدے کا میلہ سجاتے ہیں اور دُنیا میں مسئلہ کوئی بھی ہو صدر ٹرمپ اُس کا حل ایسے ہی ڈھونڈتے ہیں کہ ہر چیز اُن کی ذات کے گرد گھومے جیسے آج میرے منّے کی سالگرہ ہے۔
شرم الشیخ میں بادشاہ بیٹھے ہیں، شہزادے، ترکی کے مردِ آہن، مصر کے ڈکٹیٹر، برطانیہ، فرانس، اٹلی کے منتخب حکمران لیکن اس دربار میں اُن کو کوئی نہیں بھاتا۔ وہ پہلے اپنے فیورٹ فیلڈ مارشل کو یاد کرتے ہیں اور پھر ہمارے وزیراعظم سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جو خوبصورت باتیں تم نے مُجھ سے پہلے کی تھیں اب ذرا دوبارہ سُناؤ۔
اگر یہ سین کسی فلم میں ہوتا تو یہاں پر وائلن بجنے لگتے، گلاب کے پھولوں کی ڈالیاں ایک دوسرے کی طرف جھکنے لگتیں۔
راز و نیاز کی باتیں پھر بھری محفل میں کہنے پر شاید محبوب شرما جاتا لیکن شہباز شریف بڑے اعتماد کے ساتھ مائیک پر آئے، سلام علیکم اور گُڈ ایونگ کے بعد ادھر اُدھر دیکھ کر ایک آدھ برادر لیڈر کا نام لیا لیکن 30 سیکنڈ میں ہی جان گئے کہ صاحب کا موڈ کیا ہے اور آغاز ہی اپنے نوبیل پیس پرائز والے آئٹم نمبر سے کیا۔
تالیاں بجیں، پھر سامعین میں بیٹھے اپنے برادر لیڈروں کو دیکھا اُن کا نام لیا، آپ نے نوٹ کیا ہوگا جیسے ہی انھوں نے دو تین نام لیے صدر ٹرمپ کا چہرہ تھوڑا اُترنا شروع ہوا۔
صدر ٹرمپ اُن کے پیچھے کھڑے تھے لیکن بڑے فنکار کے سر کے پیچھے بھی ایک آنکھ ہوتی ہے، شہباز شریف برادر لیڈروں کے نام بھول کر پلٹے صدر ٹرمپ کو مسیحا ثابت کرنے والے مردوں کی طرف، اس دفعہ تان لمبی لگائی، سات نہیں آٹھ جنگیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیاں انڈیا پاکستان میں بچائیں، لاکھوں زندگیاں مشرقِ وسطیٰ میں۔
پتہ نہیں آپ نے کیسے داد دی میرے اندر سے کراچی والا بول پڑا کہ ابے بس کر رُلائے گا کیا۔
لیکن سچا فنکار اپنی فنکاری سے خود کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ اس لیے شہباز شریف رُکے نہیں اور ایک اونچا لیکن باریک سُر لگایا۔ انڈیا پاکستان کی جنگ، دو نیوکلیئر پاور اگر صدر ٹرمپ نہ رکواتے تو شاید کوئی بھی نہ بچتا۔ ہر امریکی اپنے آپ کو تھوڑا بہت سُپر ہیرو سمجھتا ہے اور صدر ٹرمپ نے تو پوری دُنیا کو تباہی سے بچا لیا۔
بڑے دربار میں قصیدہ پڑھنا ایک پرانی روایت ہے، اختتام اس کا دعائیہ ہوتا ہے۔ غالب اپنے بادشاہ سے وظیفہ بڑھوانے کی کوشش میں فرما گئے تھے۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
شہباز شریف غالب کو بھی مات دے گئے اور صدر ٹرمپ کی فار ایور تا ابد رہنمائی کی دعا کر گئے۔
اُس کے بعد جب ٹرمپ نے کہا کہ مُجھے اتنی اُمید نہیں تھی اور اب کہنے کو کیا رہ گیا ہے، گھر چلتے ہیں تو مُجھے خدشہ ہوا کہ وہ شہباز شریف کو بھی ساتھ اپنے گھر لے کر جا رہے ہیں تاکہ اُن کی باتیں خاتونِ اوّل کو بھی سُنوا سکیں۔
لیکن شہباز شریف کو لوٹ کر گھر آنا تھا، سو آ گئے کیونکہ صدر ٹرمپ کے فیورٹ فیلڈ مارشل تو گھر ہی بیٹھے تھے۔