سرکاری کالج پر مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا لگانے پر پرنسل کو وارننگ: ’کِس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟‘

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر گجرات میں سرکاری کالج کی عمارت پر پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ وزیرِ اعلیٰپنجاب مریم نواز کی تصویر والا پرچم لگانے پر کالج کے پرنسپل کو وارننگ جاری کرتے ہوئے آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر گجرات میں سرکاری کالج کی عمارت پر پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ وزیرِ اعلیٰپنجاب مریم نواز کی تصویر والا پرچم لگانے پر کالج کے پرنسپل کو وارننگ جاری کرتے ہوئے آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز گجرات شعیب بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ کالج پرنسپل نے جواب طلبی کے بعد اپنا تحریری موقف ارسال کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب میں مریم نواز شریف کے اقدامات سے بہت متاثر ہیں اور اسی لیے کالج کی عمارت پر مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا نصب کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو مریم نواز کی تشہیری مہم چلانے پر تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے راشن کی پیکٹ ہوں، یا ارزاں قیمت پر دیے گئے آٹے کے تھیلے یا دیگر منصوبے، اپوزیشن جماعتیں اور عوامی حلقے اِن پر مریم نواز کی تصاویر چسپاں کرنے پر تنقید کرتے آئے ہیں۔

اس تنقید پر پنجاب حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ تشہیری مہم کا واحد مقصد حکومتی منصوبوں اور حکومت کی کارکردگی کو عوام تک پہنچانا ہے۔

اسی نوعیت کا واقعہ گذشتہ دنوں ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں میں پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج فار بوائز کی چھت پر پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ تاہم اب کالج کے پرنسپل نے کہا ہے کہ یہ جھنڈا نصب کرنا ان کا ذاتی حیثیت میں لیا گیا فیصلہ تھا۔

’طلبا نے درخواست کی تھی کہ مریم نواز کے اقدامات کا اعتراف کروں‘

تصویر
BBC

کالج کی چھت پر پرچم کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد محکمہ تعلیم کی جانب سے کالج کے پرنسپل کو اس کی وضاحت کرنے کی تحریری ہدایت کی گئی تھی۔

کالج پرنسپل نے اپنی میں کہا ہے کہ اُنھوں نے محض حوصلہ افزائی کے ارادے اور بغیر کسی سیاسی تشہیر کے یہ کام کیا ہے۔

اپنی وضاحت میں انھوں نے لکھا کہ ’یہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی تعلیم کے شعبے میں کارکردگی کا اعتراف تھا، جن میں لیپ ٹاپ سکیم، سکالر شپ پروگرام، طالبات کے لیے سکوٹی (موٹر سائیکل) اور کالجز کو بسیں فراہم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔‘

پرنسپل نے اپنے تحریری جواب میں اپنے محکمے کو بتایا کہ ’کالج کے طلبا وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے اِن اقدامات سے بہت متاثر تھے اور اُنھوں نےمجھسے درخواست کی تھی کہ میں ان کی کوششوں کو تسلیم کروں اور انھیں خراجِ تحسین پیش کروں۔‘

پرنسپل کا کہنا تھا کہ ’میرا مقصد صرف اور صرفطلبا کے مثبت جذبات کی حوصلہ افزائی اور احساس کو فروغ دینا تھا، تاہم مجھے دلی طور پر افسوس ہے کہ یہ عمل (محکمہ تعلیم کو) پیشگی اطلاع یا منظوری کے بغیر کیا گیا۔‘

پرنسپل نے اس معاملے پر معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ محکمہ تعلیم کے نوٹس کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی تصویر والا جھنڈا فوری طور پر اتار دیا گیا ہے۔

گجرات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز شعیب بٹ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ محکمہ تعلیم نے کالج پرنسپل کو ان کے (موقف) جواب کے بعد وارننگ لیٹر دے دیا ہے اور مستقبل میں ایسے کسی کام سے محتاط رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

’پنجاب میں اب بس یہی کمال باقی رہ گیا تھا‘

سوشل میڈیا پر اس واقعے سے متعلق وائرل کلپ میں شہری گلہ کرتا ہے کہ ’پاکستان کے پرچم کی حالت نازک جبکہ مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا اچھی کوالٹی کا ہے۔‘

اسلام آباد میں یونیورسٹی میں بطور استاد کام کرنے والے طاہر ملک نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’یہ جھنڈا بادشاہت اور خوشامدانہ کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ افسوس تو کالج کے پرنسپل پر بھی ہے جنھوں نے خوشامد کو ترقی کا زینہ قرار دیا۔‘

طاہر نعیم ملک کی اس پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ’کس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟‘

اس کے جواب میں صارف عاطف علی نے خیبر پختونخوا کے نئے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ایک تصویر شیئر کی جس میں اُن کے دفتر میں تحریک انصاف کے جھنڈا اور عمران خان کی تصویر آویزاں ہے۔

اس اقدام پر تنقید کرنے والوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شائستہ عالم بھی شامل ہیں۔

اپنی ایکس پوسٹ پر شائستہ عالم کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ مریم نواز کی تصویر والا پرچم لہرا دیا گیا۔ پنجاب میں اب بس یہی ’کمال‘ باقی رہ گیا تھا۔ قومی پرچم کو بھی سیاسی تشہیر کا ذریعہ بنا دیا گیا۔‘

مبشر حیات نامی صارف نے لکھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہرمریم نواز ذاتی تشہیر پسند کرتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنھیں یہ اقدام پسند نہیں آیا ہو گا۔‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پنجاب حکومت کو مریم نواز کی ذاتی تشہیر کے معاملے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس سے قبل رواں برس جنوری میں بھی پاکستان کے تقریبا تمام اہم اور بڑے اردو اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی 'خبریں' قارئین کی توجہ کا محور بن گئی تھیں۔

اُس وقت بنا زبر، زیر اور پیش کے فرق سے ایک ہی انداز میں پنجاب حکومت کی ایک سالہ 'کارکردگی' اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اعلان کردہ صوبائی منصوبوں کے خبر نما اشتہارات اخبارات میں شائع کیے گئے تھے۔

مختلف اخبارات کے صفحہ اول پر لیڈ سٹوری ہو یا سپر لیڈ، سرخی اور شہہ سرخی اوپر سے نیچے تک وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے صوبے میں اعلان کردہ حکومتی اقدامات اور منصوبوں کے متعلق تفصیلات تقریباً ایک ہی انداز میں شائع کی گئیں تھیں جس نے قارئین کو چونکنے پر مجبور کیا۔

وزہر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے 'صوبائی حکومت کی کارکردگی کے اشتہارات کو خبر کی صورت میں پیش کرنے اور اس پرعوامی حلقوں کی جانب سے ہونے والی تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اس اشتہار کو 'قارئین تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ ایک سیاسی جماعت جس نے کارکردگی کے بغیر یہ سب کیا تھا، وہ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔'

اسی طرح سیلاب زدگان کی مدد کے دوران بھی بعض حلقوں کی جانب سے پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے لگائے جانے والے کیمپس کے باہر مریم نواز کی تصاویر لگانے پر زور دیا جا رہا ہے اور جن کیمپس میں یہ تصاویر نہیں ہیں، انھیں اُکھاڑا جا رہا ہے۔ تاہم پنجاب حکومت نے اُس وقت ان الزامات کی تردید کی تھی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کالج گجرات شعیب بٹ کی جانب سے کالج پرنسپل کو بھیجے گئے وارننگ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ یہ پرچم بغیر کسی اطلاع یا متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر لہرایا گیا تھا۔ لہذا یہ عمل بد انتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US