"ڈمپل کپاڈیا میری رشتہ دار ہیں۔ ان کے والد، مرحوم چنّی بھائی کپاڈیا، میرے کزن تھے۔ 1984 میں وہ ایک شادی کے سلسلے میں کراچی آئے تھے۔ اُس موقع پر میں نے گانا بھی گایا، اور چنّی بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہیں ایک دن بالی وڈ لے کر جاؤں گا۔ بدقسمتی سے وہ اس سے پہلے دنیا سے چلے گئے، لیکن قسمت نے مجھے وہ راستہ پھر بھی دکھا دیا۔ بعد میں میں نے یہ میری ہے کہانی اور اسپائیڈر مین کے لیے بھی گانا ریکارڈ کیا۔"
پاکستانی پاپ میوزک کی تاریخ میں جس آواز نے نئی سانس بھری، جس نے دو نسلوں کے جذبات کو چھوا اور جس نے سرحدوں کے پار بھی دلوں میں جگہ بنائی، وہ ہے فیصل کپاڈیا۔ اسٹرنگز کے حصے کے طور پر تین دہائیاں موسیقی کو دینے کے بعد، آج وہ اپنی الگ شناخت کے ساتھ بھی ملک و بیرونِ ملک روشنیوں میں ہیں۔ لیکن حال ہی میں دبئی کے مشہور ریڈیو شو سٹی 1016 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فیصل نے نہ صرف اپنے فن بلکہ اپنی ذاتی زندگی کے ایک دلچسپ اور کم معلوم پہلو کا بھی انکشاف کیا۔
گفتگو کے دوران انفارمیشن صرف موسیقی تک محدود نہیں رہی۔ فیصل نے بتایا کہ وہ بالی وڈ کی مشہور اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کے رشتہ دار ہیں۔ ان کے مطابق ڈمپل کے والد مرحوم چنّی بھائی کپاڈیا ان کے کزن تھے، اور یہی رشتہ برسوں پہلے ایک منفرد ملاقات اور وعدے کی شکل میں سامنے آیا۔ 1984 میں کراچی کی ایک شادی، اسٹیج پر نوجوان فیصل کپاڈیا کی آواز، اور ایک ماںگا ہوا خواب—یہ وہ لمحہ تھا جب چنّی بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فیصل کو بالی وڈ پہنچائیں گے۔
وقت نے کروٹ بدلی، وعدہ کرنے والا دنیا سے رخصت ہوا، مگر خواب کی راہ نہیں رکی۔ تقدیر نے فیصل کا ہاتھ تھاما اور موسیقی انہیں وہاں لے گئی جہاں کبھی انہیں لے جانے کا خواب کسی اور نے دیکھا تھا۔ بالی وڈ میں ان کی آواز گونجی، *یہ میری ہے کہانی* جیسے مقبول گانے نے شہرت حاصل کی، اور پھر ہالی وڈ کی دنیا تک پہنچتے ہوئے وہ اسپائیڈر مین کے لیے بھی سر باندھ بیٹھے۔ یہ محض ایک فنکار کی کام یابی کی کہانی نہیں، بلکہ ایک خواب، ایک وعدہ اور وقت کی خاموش گواہی کا سفر ہے۔
آج فیصل کپاڈیا نہ صرف پاکستان کی موسیقی کا روشن حوالہ ہیں بلکہ اپنی نئی تخلیقات کے ساتھ ایک بار پھر سامعین کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہیں۔ چاہے وہ اسٹرنگز کا سنہری دور ہو یا کوک اسٹوڈیو کی جادوئی پرفارمنس، یا اب ان کا سولو میوزک—ہر قدم بتاتا ہے کہ اصل فنکار وہی ہے جو اپنے خوابوں کی دھن پر چلتا رہے اور منزلیں خود راستہ بنا کر سامنے رکھ دیں۔
یہ انٹرویو صرف ایک رشتے یا یاد کی بات نہیں تھی، بلکہ اس پیغام کی جھلک بھی تھی کہ کبھی کبھی تقدیر دیر لگاتی ہے لیکن جب دروازے کھلتے ہیں تو کہانییں بن جاتی ہیں۔ اور فیصل کپاڈیا کی یہ کہانی یقیناً وہی سفر ہے جسے بار بار سننے کا دل چاہتا ہے۔