پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج: ’کہانی چچا، خالہ کی بیٹی سے شادی کے گرد کیوں گھومتی رہتی ہے؟‘

ایک طرف جہاں کچھ پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی ترویج کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف ’بریانی‘ میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

’دادا سائیں اور ان کی بیوی چچازاد تھے، ان کے ماں باپ کزنز تھے۔ ہمارے ماں باپ اسی حویلی میں ساتھ پلے بڑھے، انھوں نے رشتے جوڑے، ان کے بچے بھی ہوئے۔‘

یہ مکالمہ پاکستانی ڈرامے ’بریانی‘ کا ہے جو اس وقت اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہو رہا ہے۔ یہ جملہ گُل مہر (ثروت گیلانی) نے اپنے فرسٹ کزن اور شوہر میر میران (خوشحال خان) سے کہا کیونکہ نکاح کے چار سال بعد بھی یہ دونوں اس نئے رشتے کو قبول نہیں کر پا رہے۔

کزن میرج کے معاملے کو اٹھانے والا یہ ڈرامہ عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن ایکس سمیت سوشل میڈیا پر اس ڈرامے سے متعلق ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

اگرچہ بعض اکاؤنٹس نے ڈرامے کو سراہا مگر کئی صارفین نے کزن میرجز کا دفاع کیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’کزن بہن بھائی تو نہیں ہوتے۔‘

بریانی وہ واحد پاکستانی ڈرامہ نہیں جس میں کزن میرج پر بات ہوئی ہے۔ بعض ڈراموں میں سے اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی ترویج دی جاتی ہے۔

شادی
BBC
اگر پاکستانی ڈراموں کے مواد پر نظر ڈالیں تو ماضی کے کئی کامیاب اور مقبول ڈرامے کزن میرج پر ہی مبنی تھے

ڈراموں میں کزن میرج دکھانے کا رجحان کیوں جاری؟

اگر پاکستانی ڈراموں کے مواد پر نظر ڈالیں تو ماضی کے کئی کامیاب اور مقبول ڈرامے کزن میرج پر ہی مبنی تھے۔ ان ڈراموں میں کزنز کے درمیان رومانس بھی دکھایا گیا۔

ڈرامہ ’چپکے چپکے‘ کا یہ مکالمہ تو بہت مقبول ہوا تھا کہ ’پہلے جس منھ سے کہتی تھی بھیّا بھیّا، اب اسی منھ سے کہو گی سیّاں سیّاں۔‘

حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامے ’قرضِ جاں‘ میں ایک مکالمہ ہے، جس میں ’سکینہ سموں‘ نامی کردار کہتا ہے کہ ’گھر میں لڑکی ہے تو باہر کیوں جائیں، گھر کی لڑکی گھر کا خون، ان دونوں کی شادی فوراً کر دو۔‘

چپکے چپکے کے علاوہ بھی متعدد شہرہ آفاق ڈرامے جیسے ’بن روئے‘، ’صدقے تمہارے‘ اور سپر سٹار ماہرہ خان کے ڈرامے ’ہم کہاں کہ سچے تھے‘ میں بھی کزن میرج کہانی کا ایک پہلو تھا۔ اسی طرح ’سنو چندا‘، ’تیرے بن‘ اور ’چوہدری اینڈ سنز‘ میں بھی سماج کے اس رجحان کا ذکر موجود تھا۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈرامے ’مائی ری‘ میں کم عمر کزنز کی شادی کو دکھایا گیا اور اس کے بُرے اثرات بتائے گئے۔ لیکن بہر حال موضوع کزن میرج کے خلاف نہیں تھا، کم عمر کی شادی کے خلاف تھا۔

مگر ظاہر ہے کہ یہ ڈرامے اپنے طور پر پاکستانی سماج کی عکاسی کر رہے تھے۔ مگر یہ رومانوی فریب اور طبی حقائق کا سنگین ٹکراؤ بھی ہے۔

پاکستان میں قریبی یا خونی رشتے داروں میں شادی کا رواج خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ پاپولیشن کونسل کی رواں برس شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ ملک میں شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں تقریباً دو تہائی پاکستانی کزن میرجز کرتے ہیں۔

اس سے پہلے گیلپ کے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 15 سے 29 سال تک کی پاکستانی خواتین میں سے تقریباً نصف کی شادی ان کے فرسٹ کزن سے ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ جائزہ 2017-18 کا ہے لیکن جب اس کا موازنہ 1991 کے ایک جائزے سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ تب سے اب تک اس میں کوئی فرق آیا ہی نہیں۔

دوسری جانب بی بی سی پر ہی شائع ہونی والی ایک رپورٹ کے مطابق بریڈفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے 18 سال میں 13 ہزار نومولود بچوں کے طبی معائنے اور مشاہدے کے نتیجے میں جو رپورٹ مرتب کی ہے، اس کے مطابق کزنز کی شادی کے ماضی کے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔

سب سے واضح طریقہ جس سے ایسے والدین کے بچے کے لیے صحت کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، سسٹک فائبروسس یا سکل سیل کی بیماری جیسے ’ریسیسو‘ یا اضطرابی عارضے ہیں۔ یہ عوامل اب عالمی سطح پر کزن میرج پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیں۔

’ڈراموں میں کزن میرج کو کم سے کم دکھانا چاہیے‘

ایسے میں یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے کیسے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، نہ کہ اسے ایک عام دستور بنا کر پیش کیا جائے اور اس کے طبی خطرات کو نظر انداز کیا جائے۔

ہم نیٹ ورک کی صدر سلطانہ صدیقی سے جب اس بابت استفار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اس حق میں ہیں کہ ڈراموں میں یہ نہیں دکھانا چاہیے اور وہ اپنے لوگوں سے بھی یہی کہتی ہیں کہ ایسا نہ کریں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ ’یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس پر بات نہیں ہو رہی ہے۔ جب اس پر گفتگو ہو گی تب ہی اس کا تدارک ہوسکے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کزن میرج کے بارے میں شعور و آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ ’سب سے اہم، بات کرنا ہے۔ بات کی جائے گی اور جب میڈیا میں بات کی جائے گی تب ہی اس کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔

’اگرچہ یہ تب بھی شاید مکمل طور پر ختم نہ ہوسکے لیکن واضع کمی آنے کا امکان موجود ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ خود بہت سے ایسے گھرانوں کو جانتی ہیں جو کزن میرج کی وجہ سے کئی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔

شادی
Getty Images

ہدایتکار اور پروڈیوسر مہرین جبار سمجھتی ہیں کہ پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج کو کم سے کم دکھانا چاہیے کیونکہ یہ کسی طور بھی صحت مند رجحان نہیں۔

ڈراموں میں کزن میرج کی بھرمار دکھانے کی وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کزن میرج ایک حقیقت ہے۔ ’ایک تو جائیداد کو خاندان میں رکھنے کی خواہش اور دوسرا عموماً لڑکے لڑکیوں کا خاندان سے باہر ملنا جلنا کم کرنا اس کی وجوہات ہیں۔‘

انھوں نے امید ظاہر کی کہ اب اس میں کمی آئے گی کیونکہ اس معاملے پر بات ہونا شروع ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کزن کی جگہ پڑوسی بنا دیں کیونکہ کزن میرج طبی نکتہ نظر سے صحت مند رجحان نہیں ہے۔‘

مصنف فصیح باری خان، جو ’گھسی پٹی محبت‘ اور ’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ جیسے کامیاب ڈراموں کے مصنّف ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بات خود ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستانی ڈراموں کی کہانیاں ’چچا، پھوپھی، تایا، یا خالہ کی بیٹی سے شادی کے گرد ہی کیوں گھومتی رہتی ہیں۔‘

انھوں نے رائے دی کہ پاکستان میں لکھنا ایک شعوری عمل نہیں بلکہ تجارتی عمل ہے۔ ’جو ڈرامے کامیاب ہو جاتے ہیں تو ڈرامہ ساز اس جیسی ہی کہانیوں کو معمولی ردّ و بدل کے ساتھ دوبارہ بنا دیتے ہیں۔‘

معروف مصنفہ آمنہ مفتی نے ’الو برائے فروخت نہیں‘، اور ’دل ناامید تو نہیں‘ جیسے مقبول ڈرامے لکھے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

تاہم ان کا خیال ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج کی ’ترویج نہیں دی جا رہی بلکہ ہمارے سماج میں جو چل رہا ہے، وہی دکھا دیا جاتا ہے۔‘ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس مسئلے کے ’طبی نقصانات سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔‘

آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈراموں کا ٹارگٹ 15 سے 45 سال کی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جو گھر سنبھالتی ہیں اور بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ ٹی وی ڈرامہ ان کی تفریح بھی اور تعلیم و معلومات کا اہم ذریعہ بھی۔

’جو خواتین اس وقت ڈرامے لکھ رہی ہیں، جو اپنے اردگرد دیکھ رہی ہیں، اسی پر ڈرامہ لکھ رہی ہیں۔ گویا ایک بازگشت ہے جو مسلسل گونج رہی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US