تحریر: ڈاکٹر اسامہ شفیق ۔۔ مانچسٹر، برطانیہ
ہمارے چند ایک دوستوں کو شکوہ ہے کہ ہماری پوسٹ کراچی میں قانون کے نفاذ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قانون کا نفاذ یورپ میں بھی اس وقت ہوتا ہے جب اس کے تمام لوازم پورے ہوں۔
میرے گھر کے قریب ایک سڑک ہے اس پر بس لین کیمرہ لگا ہوا ہے اگر آپ اس لین میں گئے تو چالان آپ کے گھر پر آئے گا۔ گزشتہ کئی روز سے اس سڑک پر نئی تہہ چڑھائی جارہی ہے وہ کام تو ایک دن میں مکمل ہوگیا لیکن کیونکہ اب لین مارکنگ نہیں ہوئی تو لگے ہوئے کیمرہ کے باوجود بھی آپ کا چالان نہیں آئے گا جب تک اس پر دوبارہ لین مارکنگ نہ ہوجائے۔
برطانیہ میں تین سال قبل معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے دکانوں سے چوری میں اضافہ ہوا۔ وہ سامان جو کھانے پینے کا تھا، چور سامنے یا چپکے سے اٹھا کر لے جارہے تھے۔ اسٹور والوں نے شکوہ کیا۔ حکومت نے پولیس کو اس پر اقدام کا کہا تو پولیس کمشنر نے کہا ہم ان لوگوں پر جو بھوک کی وجہ سے کھانا اٹھا رہے ہیں قانونی کارروائی کے مجاز نہیں کیونکہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کو کھانا فراہم کرے اگر ریاست اس میں ناکام ہے تو ہم ان کے خلاف مجرمانہ کیس نہیں بناسکتے۔
تیسرا کیس۔ برطانیہ میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے تھے۔ سابق حکومت میں بھارتی نژاد وزیر داخلہ سوئیلا براو مین نے پولیس کو حکم دیا کہ ان مظاہروں کو روک دیں۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف سر مارک راؤلی نے وزیر داخلہ کو کہا ہم نہیں روک سکتے، قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظاہرہ ہوا۔ وزیر قانون نے ایک اخبار میں پولیس کے خلاف کالم لکھ دیا۔ اس کے خلاف شور شرابا ہوا۔ اور ہوا کیا؟ پولیس چیف نہیں بلکہ وزیر داخلہ کو برطرف کردیا گیا۔
یہ ہے مغرب میں قانون کی حکمرانی۔ لاکھ برائیوں کے باوجود اگر صحافت میں دم ہوتا تو شاید یہ سوال ضرور ہوتا کہ کراچی ان 17 سال میں کیسے موہن جو دڑو بن گیا؟
کیوں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کراچی یونیورسٹی میں زیر تعمیر صرف ایک پراجیکٹ جو کہ ان کی اپنی شہید قائد کے نام پر تھا، کنونشن سینٹر دس سال میں نہ بن سکا؟
یہ صرف ایک مثال ہے۔ صحافت کی پہنچ تواس سے بھی زیادہ ہے۔
کراچی کی وہ کون سی عظیم سڑک یا بقول 109 سڑکوں کے میئر کہ جہاں لین مارکنگ مکمل ہے؟
ہماری بدقسمتی ہے کہ صحافت اب سوال نہیں اٹھاتی بلکہ تعلقات بناتی ہے۔
یہ ایک دوستانہ شکوہ ہے۔ اور یہی کراچی کا المیہ ہے۔