سکھ ویمن ایڈ نامی گروپ کی سربراہ سخویندر کور کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کی ہیلپ لائن پر اب پہلے سے کہیں زیادہ خوفزدہ خواتین کی کالز موصول ہو رہی ہیں۔
رویتا پنو والسال میں اپنا بیوٹی سیلون چلا رہی ہیںمیک اپ آرٹسٹ رویتا پنو نے برطانیہ کے علاقے والسال میں اپنا بیوٹی سیلون قائم کرنے کے لیے برسوں محنت کی ہے۔ وولور ہیمپٹن میں پیدا ہونے والی رویتا نہ صرف ایک کامیاب کاروباری خاتون ہیں بلکہ ایک ماں بھی ہیں۔
لیکن وہ ویسٹ مڈلینڈز کی بہت سی ایشیائی خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اب وہ آنکھیں نیچے کر کے سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ ان کا ڈر اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ان کی بیٹی گھر سے باہر قدم نکالتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف گذشتہ دو مہینے کے عرصے میں ان کے علاقے میں نسلی نفرت کی بنیاد پر ریپ کے دو واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
نو ستمبر کی صبح اولڈبری کے تھامے روڈ پر 20 سال کی ایک نوجوان سکھ خاتون کا ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 25 اکتوبر کو والسال کے علاقے پارک ہالمیں ایک اور 20 سالہ نوجوان سکھ خاتون کا ریپ ہوا تھا۔ پولیس نے اس مقدمے میں ایک 32 سالہ شخص جان ایشلے کو ملزم نامزد کیا ہے۔
ان دونوں واقعات میں ملزمان ان خواتین کے لیے اجنبی تھے۔
27 اکتوبر کو وولور ہیمپٹن میں ایک اور خاتون پر الیکٹرک سٹن گن سے حملہ کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ جنسی تشدد نہیں بلکہ نسل پرستانہ حملہ تھا۔
سخویندر کور سکھ ویمن ایڈ نامی گروپ کی سربراہ ہیںسکھ ویمن ایڈ نامی گروپ کی سربراہ سخویندر کور کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کی ہیلپ لائن پر اب پہلے سے کہیں زیادہ خوفزدہ خواتین کی کالز موصول ہو رہی ہیں۔
ان کے مطابق والسال میں ایک اکیلی ماں اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہے۔
’خاتون کو اپنی بیٹیوں کی فکر تھی، جن کے سکول کا راستہ والسال حملے والی جگہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ چنانچہ خاتون نے تنظیم سے مدد طلب کی۔‘
سکھویندر کور کا کہنا ہے کہ ’خوف کا احساس اب حقیقی ہے، یہ ٹی وی پر پھیلایا جانے والا دائیں بازو کا بیانیہ نہیں ہے۔ یہ کوئی سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی چیز نہیں ہے۔ یہ سب اب ہماری سڑکوں پر ہو رہا ہے۔‘
ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے کہا ہے کہ علاقے کو ’ہماری کمیونیٹیز اور خاص طور پر لڑکیوں‘ کے لیے محفوظ بنانا ان کی ترجیح ہے۔
پولیس نے مزید کہا کہ انھوں نے ’خواتین کی رضاکارانہ تنظیموں، کمیونٹی کی ممتاز خواتین، کمیونٹی سیفٹی سٹیک ہولڈرز، آزاد مشاورتی گروپس اور مقامی سیاست دانوں سے خواتین کی حفاظت پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘
گذشتہ ہفتے والسال حملے کے بعد چیف سپرنٹنڈنٹ فل ڈولبی نے کہا تھا کہ پولیس فورس کمیونٹیز میں اس حملے کے بعد پائی جانے والی ’تشویش اور خوف‘ کو سمجھتی ہے۔
رویتا پنو کا کہنا ہے کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک جذباتی وقت ہےبی بی سی نے اس معاملے پر برمنگھم اور بلیک کنٹری میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی ایشیائی خواتین سے بات کی ہے۔
کچھ کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اس علاقے میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھیں لیکن اب وہ اپنے گھر چھوڑنے یا گھر میں اکیلے رہنے سے ڈرتی ہیں۔
ڈبلن کی ایک مسلمان خاتون شبنم انصاری بتاتی ہیں کہ ’میں حجاب پہنتی ہوں، اس لیے میںجانتی تھی کہ میں نسل پرستانہ تشدد کا نشانہ بن سکتی ہوں۔‘
ان کے مطابق ’لیکن اولڈبری اور والسال میں جو کچھ ہوا اس سے میرے خیال میں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے لیے صرف غیر سفید فام ہونا ہی کافی ہے۔‘
برمنگھم میں ایک 51 برس کی ٹیچر جیسی کلر کا کہنا ہے کہ وہ ریپ کے واقعے کے بعد اجنبیوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولنے سے ڈرتی ہیں۔
جنوبی برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 41 برس کی کونسل ورکر کویتا مسوالا نے کہا کہ ’برمنگھم میں پیدا ہونے والی اور پرورش پانے والی ایک ایشیائی خاتون کے طور پر ان واقعات کے بارے میں سن کر ان کا دل دہل جاتا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم 2025 میں ہیں اور ہمیں ابھی بھی اس بارے میں محتاط رہنا ہوگا کہ ہم کیسے نظر آتے ہیں اور جلد کا رنگ کیا ہے۔ اب مجھے چہل قدمی پر جانے سے پہلے دو بار سوچنا ہوگا۔‘
ماہومہ بھی برمنگھم میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
وہ والسال میں کھیل کے میدانوں میں جاتی رہی ہیں ’لیکن وہ نہیں جانتیں کہ اب وہ اپنے بچوں کو وہاں اپنے ساتھ لے جا سکیں گی یا نہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے پہلے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا۔‘
رویتا کہتی ہیں کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک جذباتی وقت ہے، دونوں حملوں نے ’کمیونٹی میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔‘
بیوٹی سیلون کی مالک رویتا کے انسٹاگرام پر دنیا بھر سے 30,000 فالوورز ہیں، جن میں سے زیادہ تر امریکہ، کینیڈا اور دبئی سے تعلق رکھنے والی سکھ خواتین ہیں۔
ان کے مطابق ’میرے مداحوں نے مجھے بیرون ملک سے فون کیا اور کہا کہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ یہاں برطانیہ میں اپنی بہنوں کی پریشانی اور تناؤ کو محسوس کرتی ہیں۔‘
رویتا کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنی بیٹیوں سے کہا ہے کہ وہ بسوں میں سفر نہ کریں، ہم تمھیں کام سے واپس آتے ہوئے گھر لے آئیں گے۔‘
محسومہ کا کہنا ہے کہ وہ والسال میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے سے ڈرتی ہیںتاہم وہ اپنے بچوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے سے محتاط رہتی ہیں اور توازن برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
انھیں لگتا ہے کہ ایسے واقعات کے سبب ایشیائی خاندان اپنے بچوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔
’بطور ماں کیا میں ابھی اپنی بیٹی کو باہر جاتا دیکھا چاہتی ہوں؟ بالکل نہیں۔‘
ان کے مطابق ’میں اپنی بیٹی کو روئی میں لپیٹ کر اپنے قریب رکھنا چاہوں گی۔ لیکن ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس جینے کے لیے زندگی ہے اور انھیں اس کے لائق ہونا چاہیے۔‘
دوسری جانب محسومہ کا کہنا ہے کہ وہ والسال میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے سے ڈرتی ہیں۔
جبکہ دوسری خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ سڑکوں یا اپنے گھروں میں محفوظ ہیں یا نہیں؟ کمیونٹی تنظیمیں ایسے الارم بٹن تقسیم کرنے پر بات کر رہی ہیں جو کسی بھی حملے کی صورت میں خطرے کی گھنٹی کے طور پر استعمال ہو سکیں۔
سخویندر کور کہتی ہیں کہ ’خواتین یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں اپنی زندگیوں اور ذاتی آزادیوں کو نئی شکل دینا ہوگی۔‘