ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی عالمی طاقت کی جانب سے سرکاری سطح پر کسی دوسرے ملک کے کسی ایک اخبار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو لیکن گذشتہ روز ایک پاکستانی اخبار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
دنیا بھر میں جب بھی کہیں دو ملکوں کے درمیان کوئی تنازع شروع ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے اتحادی ممالک بھی اس وقت خاصے متحرک نظر آتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کے عوام بھی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔
لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی عالمی طاقت کی جانب سے سرکاری سطح پر کسی دوسرے ملک کے اخبار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو لیکن گذشتہ روز ایک پاکستانی اخبار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
جمعرات کی شام پاکستان میں روسی سفارتخانے نے ایک پاکستانی اخبار کے حوالے سے ایک ایسا بیان جاری کیا، جو اس اخبار کے لیے نہیں بلکہ بہت سے دیگر لوگوں کے لیے بھی باعث حیرت تھا۔
روسی سفارتخانے نے پاکستانی اخبار ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کے حوالے سے اپنے بیان میں اس پر مغربیپروپیگنڈے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے مضامین کو ’روس مخالف اور جانبدار‘ قرار دیا۔
روسی سفارتخانے نے اخبار کی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’امریکی رنگ میں رنگی ہوئی ٹیم عالمی خبروں کے انتخاب کی ذمہ دار ہے اور ہمیشہ اُن مصنفین کو ترجیح دیتی ہے جو روس مخالف نظریات رکھتے ہیں اور روسی خارجہ پالیسی اور صدر ولادیمیر پوتن کے ناقد ہیں۔‘
’فرنٹیئر پوسٹ‘ کی جانب سے ’اظہارِ رائے کی آزادی روسوفوبیا نہیں‘ کے عنوان سے روسی سفارتخانے کے اس بیان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
کچھ گھنٹے قبل شائع ہونے والے اخبار کے اداریے میں کہا گیا کہ ’صحافت کا مقصد سفارتخانوں کو خوش کرنا یا سرکاری بیانیوں کو دہرانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد عوام کو آگاہ رکھنا، اقتدار سے سوال کرنا اور اُن طاقتوں کو چیلنج کرنا ہے جو سچائی پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہیں۔‘
’فرنٹیئر پوسٹ‘ نے اس حوالے سے مزید کیا کہا، یہ اخبار کب اور کیسے وجود میں آیا، اس حوالے سے تفصیلات بعد میں لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ روسی سفارتخانے کے بیان میں مزید کیا کہا گیا۔
’اس اشاعت کو بمشکل ہی پاکستانی کہہ سکتے ہیں‘: روس کا بیان
گذشتہ روز سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پاکستان میں روسی سفارتخانے کے اکاؤنٹ سے اردو اور انگریزی زبان میں ایک لمبا پیغام شائع کیا گیا۔
اس پیغام میں کہا گیا کہ ’ہم نے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے روس مخالف مضامین کے سلسلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نوٹس لیا۔ سب سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس اشاعت کو بمشکل ہی ’پاکستانی‘ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی بین الاقوامی خبروں کی سروس کا مرکز واشنگٹن میں قائم ہے۔ یہی امریکی رنگ میں رنگی ٹیم عالمی خبروں کے انتخاب کی ذمہ دار ہے اور ہمیشہ اُن مصنفین کو ترجیح دیتی ہے جو روس مخالف نظریات رکھتے ہیں اور روسی خارجہ پالیسی اور صدر ولادیمیر پوتن کے ناقد ہیں۔‘
پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’حالیہ دنوں میں اخبار کے بین الاقوامی حصے میں کوئی ایک بھی مضمون ایسا شائع نہیں ہوا جو روس یا اس کی قیادت کو مثبت یا حتیٰ کہ غیرجانبدار انداز میں پیش کرے۔ ہم اظہارِ رائے کی آزادی اور اداریے کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ وہ مختلف آرا رکھنے والے مصنفین کے مضامین شائع کرنے کا اختیار رکھتا ہے تاہم مغربی پروپیگنڈے سے لبریز اور متبادل مؤقف سے محروم یہ مسلسل روس مخالف مہم اس خیال کو جنم دیتی ہے کہ شاید اداریے کی پالیسی آزادیِ اظہار پر نہیں بلکہ روس مخالف قوتوں کے سیاسی ایجنڈے پر مبنی ہے۔‘
اس پیغام میں افغانستان کے حوالے سے بھی اخبار کی صحافت پر سوال اٹھایا گیا۔
روسی سفارتخانے نے لکھا کہ ’یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ وہی اخبار، جس نے افغانستان سے متعلق خبروں کے لیے ایک مکمل حصہ مختص کر رکھا ہے، 7 اکتوبر 2025 کو منعقدہ افغانستان کے بارے میں ماسکو فارمیٹ مشاورت جیسے اہم اجلاس کو مکمل طور پر نظرانداز کر گیا حالانکہ اسے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھرپور کوریج ملی۔ یہ طرزِ عمل اخبار کے مغرب زدہ ادارتی عملے کے روس مخالف رجحان کو مزید نمایاں کرتا ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ علاقائی امور پر پاکستان کے مؤقف کو اُجاگر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔‘
بیان کے مطابق ’جہاں تک اخبار میں شائع ہونے والے روس مخالف دلائل کا تعلق ہے، اداریہ کسی تخلیقی سوچ کا مظاہرہ نہیں کر رہا بلکہ مغربی پروپیگنڈے کے گھسے پٹے بیانیے جیسے ’کمزور معیشت، پابندیوں کے سامنے کمزوری اور مغربی ممالک کی فوجی برتری‘ کو دہرا رہا ہے۔‘
’واشنگٹن میں بیٹھے فرنٹیئر پوسٹ کے صحافی حقائق کو مسخ کر کے روس کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو گویا معاشی تباہی کے دہانے پر ہے اور یوں وہ نئی مغربی پابندیوں کے لیے جواز فراہم کر رہے ہیں، جو بالآخر ان ہی ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں جو یہ پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔‘
اس بیان کے اختتام پر روس میں معاشی ترقی اور عسکری کامیابیوں کے اعدادوشمار بھی پیش کیے گئے ہیں جبکہپاکستانی عوام سے اپیل کی گئی کہ ’وہ معلومات مختلف اور معتبر ذرائع سے حاصل کریں اور اُن اشاعتی اداروں پر انحصار نہ کریں جو غیر ملکی سرپرستوں کے مشکوک عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔‘
’اظہارِ رائے کی آزادی روسوفوبیا نہیں‘: دی فرنٹیئر پوسٹ کا جواب
روسی صدر پوتن اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ستمبر میں چین میں ملاقات کی تھیدی فرنٹیئر پوسٹ نے روسی سفارتخانے کے جواب میں ایک طویل بیان جاری کیا ہے۔
اخبار نے اپنے جواب میں کہا کہ ’روسی سفارتی حلقے جدید دور میں صحافت کے کردار کو سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ اس عدم برداشت کو بھی ظاہر کرتا ہے جو خود مختار اور آزادانہ رپورٹنگ کے خلاف ہے، خصوصاً وہ رپورٹنگ جو طاقتور حکومتوں، چاہے وہ ماسکو ہو، واشنگٹن ہو یا کوئی اور دارالحکومت کے مفادات کی خدمت نہ کرتی ہو۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ دی فرنٹیئر پوسٹ ایک پاکستانی اخبار ہے جو فخر کے ساتھ گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے واشنگٹن ڈی سی سے کام کر رہا ہے۔ اس سے ہمارے قارئین کو دنیا کے سب سے مؤثر سیاسی دارالحکومت سے براہِ راست، مستند اور موقع پر مبنی خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے منیجنگ ایڈیٹر جلیل آفریدی گزشتہ دس برس سے واشنگٹن میں دی فرنٹیئر پوسٹ کے واحد نمائندے ہیں جہاں وہ وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان کی صحافت نے ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق اور جنوبی و وسطی ایشیا میں علاقائی سلامتی کے اہم موضوعات کو اجاگر کیا اور اکثر وہ سوالات اٹھائے ہیں جن پر خاموشی اختیار کرنا دوسروں کو زیادہ آسان لگتا ہے۔‘
دی فرنٹیئر پوسٹ نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ اگر ہماری یہی آزادی اور خود مختاری ہمیں ’مغرب زدہ‘ بناتی ہے، تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
افغانستان سے متعلق رپورٹنگ کے حوالے سے اخبار نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’سفارت خانے کا یہ دعویٰ کہ دی فرنٹیئر پوسٹ نے افغانستان سے متعلق ’ماسکو فارمیٹ‘ اجلاس کو نظرانداز کیا، سراسر گمراہ کن اور منفی پروپیگنڈا ہے۔
دی فرنٹیئر پوسٹ نے اس حوالے سے اپنی خبر کا لنک بھی بیان میں شیئر کیا۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ ’جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں کی طرح ہم آئندہ بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور امریکہ، چین اور روس جیسی سپر پاورز کو یہ مشورہ دیتے رہیں گے کہ وہ سرحد کے دونوں جانب پختون آبادیوں کی زندگی بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
’ستم ظریفی یہ ہے کہ روسی سفارت خانے کا اندازِ بیان ہمیں امریکی محکمہ خارجہ کے کچھ اہلکاروں کے رویے کی یاد دلاتا ہے، جو ایسے ہی عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں جب صحافی ان سے غیر آرام دہ سوالات پوچھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دی فرنٹیئر پوسٹ کے منیجنگ ایڈیٹر جلیل آفریدی کا امریکی محکمہ خارجہ اور موجودہ حکومت کے خلاف کیس، جو اس وقت امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، تقریباً ان ہی نوعیت کے الزامات پر مبنی یعنی نقطہ نظر کی بنیاد پر امتیاز، منتخب قانون کا اطلاق، اور آزاد صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں۔ چاہے دباؤ واشنگٹن سے ہو یا ماسکو سے، دی فرنٹیئر پوسٹ اپنی آزادی پر قائم رہے گا۔‘
’ہم اپنے قارئین سے کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی، چاہے وہ روسی ہو، امریکی ہو یا پاکستانی، آپ کو یہ نہ بتائے کہ آپ کون سی حقیقت پڑھ سکتے ہیں اور کون سی نہیں۔ سچ تلاش کریں، ذرائع کا موازنہ کریں، اور اپنی رائے خود قائم کریں۔‘
اظہارِ رائے کی آزادی روسوفوبیا نہیں۔ یہی ہر آزاد معاشرے کی بنیاد ہے۔
آمریت کے کڑے دور میں وجود میں آنے والا اخبار
انگریزی روزنامہ ’دی فرنٹیئر پوسٹ‘ فوجی صدر ضیا الحق کی آمریت کے کڑے دور میں وجود میں آیاپاکستان میں انگریزی روزنامہ ’دی فرنٹیئر پوسٹ‘ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں ملک کے سب سے آزاد اور دلیر اخباروں میں شمار ہوتا تھا۔
یہ اخبار فوجی صدر ضیا الحق کی آمریت کے کڑے دور میں وجود میں آیا لیکن پھر بھی اپنی آزاد صحافت کے باعث اسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
فرنٹیئر پوسٹ کی پالیسی بہت بے باک ہوا کرتی تھی اور یہ اخبار کھل کر ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی حمایتی سیاست پر تنقید کرتا تھا۔ ملک کے تمام بڑے ترقی پسند صحافی اور کالم نگار اس میں لکھا کرتے تھے۔
فرنٹیئر پوسٹ میں کام کرنے والے بیشتر سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس اخبار نے ملک کے کئی سیاسی خاندانوں، رہنماؤں، خفیہ اداروں اور وزرا کے خلاف متعدد تحقیقاتی کہانیاں کیں اور انھیں نمایاں طور پر شائع کیا۔
ملک کے طاقتور اور مقتدر حلقے اس کے شدید مخالف ہو گئے اور اس صحافتی ادارے کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔
پہلے تو فرنٹیئر پوسٹ کے مالک رحمت شاہ آفریدی کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے چرس کی سمگلنگ کے ایک مقدمے میں ملوث کیا اور وہ کئی سال جیل میں رہے۔
رحمت شاہ آفریدی نے کئی مرتبہ کہا کہ ان کے اخبار کو بند کرنے کے لیے ان کے خلاف سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا۔
رحمت شاہ آفریدی کی گرفتاری کے ساتھ ہی اس اہم اخبار کا شیرازہ بکھرنے لگا لیکن ادارے کی حقیقی موت اس وقت ہوئی جب 2001 کے شروع میں فرنٹیئر پوسٹ میں ایک توہین آمیز خط شائع ہوا جس کی وجہ سے ان کے دفاتر پر مذہبی تنظیموں نے حملے کیے، پریس جلا دیا گیا، کئی دنوں تک اخبار کی اشاعت بند رہی اور اس کے کارکنوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے۔