لیویز اہلکار 140 سال قبل تشکیل پانے والی فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے حکومت بلوچستان کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی اکثر سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو مسترد کیا ہے اور وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ محکمہ داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق لیویز والے علاقوں میں جرائم کی شرح پولیس کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے میں کم ہے۔
’جب کم وسائل اور نفری کے ساتھ ایک وسیع و عریض علاقے میں لیویز فورس کی کارکردگی پولیس سے بہتر ہے تو اسے پولیس میں ضم کرنے کا کیا جواز ہے؟‘
یہ سوال لیویز فورس بلوچستان کے رسالدار میجر ظریف خان سمیت فورس کے ہر اہلکار کی زبان پر ہے۔ یہ اہلکار 140 سال قبل تشکیل پانے والی فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے حکومت بلوچستان کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
بلوچستان کی اکثر سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو مسترد کیا ہے اور وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ محکمہ داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق لیویز والے علاقوں میں جرائم کی شرح پولیس کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے میں کم ہے۔
انھیں خدشہ ہے کہ یہ فیصلہ بڑھتی ہوئی شورش کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
جبکہ اس فیصلے کے حامیوں کی رائے ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے ایک ہی معیار کی فورس ہونی چاہیے کیونکہ جتنی زیادہ بکھری ہوئی فورسز ہوں گی، ان سے کنفیوژن اور مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
لیویز فورس کی پولیس میں انضمام کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں لیویز کے لیے چاہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ یہ فیصلہ پاپولر نہیں تاہم بہتری کے لیے یہ ناگزیر ہے۔
لیویز فورس کیا ہے اور اس کی تشکیل کب ہوئی؟
قیام پاکستان سے قبل بلوچستان دو حصوں ریاست قلات اور برٹش بلوچستان پر مشتمل تھا۔ برٹش بلوچستان میں وہ علاقے شامل تھے جو کہ براہ راست انگریزوں کی عملداری میں تھے جبکہ مورخین کے مطابق دیگر علاقوں میں ان کی براہ راست عملداری نہیں تھی۔
برٹش بلوچستان میں سب سے پہلے سر رابرٹ سنڈیمن نے 1887 میں لیویز فورس کو قائم کیا جو کہ دیہی علاقوں میں پولیسنگ کا کام کرتی تھی۔ ایک قبائلی معاشرہ ہونے کی وجہ سے لیویز فورس کے اہلکاروں کی تشکیل مختلف قبائل سے ہوتی تھی۔ جبکہ شہری علاقے پولیس کے زیر انتظام تھے۔
قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اے اور بی ایریاز کے نام سے پولیسنگ کے اس الگ الگ نظام کو برقرار رکھا گیا بلکہ بلوچستان کے قبائلی نظام کی وجہ سے لیویز فورس کی نفری میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا گیا۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور سے قبل لیویز فورس کا زیر انتظام علاقہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا 90 فیصد سے زیادہ تھا۔ تاہم بعد میں پولیس کے علاقے میں اضافہ کیا جاتا رہا جس کے باعث رواں سال کابینہ کے انضمام کے فیصلے سے قبل 85 فیصد علاقہ لیویز فورسز کے کنٹرول میں تھا۔
ان علاقوں کے لیے لیویز فورس کی تعداد 28 ہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ پولیس کی نفری 42 ہزار سے زائد ہے۔
محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان کے اعداد و شمارکے مطابق مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں اس وسیع و عریض علاقے کے انتظام کے لیے لیویز فورس پر 24 ارب 83 کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں 15 فیصد علاقے میں پولیس پر 43 ارب 80 کروڑ روپے کے اخراجات آئے۔
چیف آف ساراوان اور سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کم نفری اور کم وسائل کے باوجود پولیس کے علاقوں کے مقابلے میں لیویز فورس کے علاقوں میں جرائم کی شرح بہت کم رہی ہے۔‘
لیویز فورس کی جرائم کی تفتیش اور پراسیکیوشن میں جو نقائص تھے چیف جسٹس کی حیثیت سے یہ امیرالملک مینگل کے علم میں تھے۔ جب ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پرویز مشرف کے دور میں گورنر بنے تو لیویز فورس کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اس میں انھوں نے اصلاحات کیں جبکہ اس کی تفتیش اور پراسیکوشن ونگز قائم کر کے اس کی صلاحیت میں اضافہ کیا گیا۔
لیویز فورس کے اہلکاروں نے نہ صرف ضلعی ہیڈکوارٹرز میں اپنے تھانوں کے سامنے دھرنا دیا بلکہ اس کے خلاف وردی میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالیںلیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی ناکام کوششیں
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے لیویز فورس کی پولیس میں انضمام کی باتیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئیں اور 2002 کے عام انتخابات کے بعد اس سلسلے میں عملی اقدامات کا آغاز ہوا۔
وفاقی حکام کے علاوہ پولیس کے آفیسرز کی دلیل یہ تھی کہ بلوچستان کو ایک قبائلی معاشرے سے ایک جدید معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ یہ فورس قبائلی سرداروں کے زیرِ اثر ہے۔
عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مخالفت کے باوجود سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی حکومت نے 2003 میں لیویز فورس کو خطیر رقم خرچ کر کے پولیس میں ضم کر دیا۔
تاہم جب 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں نواب اسلم خان رئیسانی کی مخلوط حکومت بنی تو لیویز فورس کو اپریل 2010 میں دوبارہ بحال کر دیا گیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق 2010 میں لیویز فورس کی بحالی کے بعد اس کے دوبارہ انضمام کے لیے دباؤ برقرار رہا’ہم نے نہ صرف لیویز فورس کو بحال کیا بلکہ جنرل مشرف کی تمام باقیات کو ختم کیا‘
سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا کہ انھیں الیکشن میں لوگوں نے لیویز فورس کی بحالی کا مینڈیٹ دیا، اس لیے اس فورس کو بحال کر دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے لیویز فورس کی بحالی کی سخت مخالفت کے باوجود ’ہم نے نہ صرف لیویز فورس کو بحال کیا بلکہ جنرل مشرف کی تمام باقیات کو ختم کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لیویز فورس کی تشکیل مختلف قبائل سے ہوتی ہے جنھیں اپنے علاقے میں ہر چیز کا پتا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے یہ پولیس کے مقابلے میں زیادہ موثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں جرائم کی شرح کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عوام دوست فورس ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے لوگوں میں اپنائیت بہت زیادہ ہے۔
وہ اس تاثر سے متفق نہیں کہ لیویز فورس سرداروں کے زیر اثر رہتی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس سب سے زیادہ زیر اثر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کا پنجاب اور سندھ میں غلط استعمال بھی سب سے زیادہ ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق 2010 میں لیویز فورس کی بحالی کے بعد اس کے دوبارہ انضمام کے لیے دباؤ برقرار رہا۔ تاہم جام کمال خان اور میر سرفراز بگٹی کے سوا باقی وزرائے اعلیٰ کے ادوار میں اس سلسلے میں بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اگرچہ جام کمال لیویز فورس کو مکمل طور پر ضم کرنے کے لیے تیار تھے تاہم مخلوط حکومت میں شامل اراکین کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے وہ صرف تین ساحلی اضلاع گوادر، لسبیلہ اور حب کے سوا باقی علاقوں میں لیویز فورس کو ضم نہیں کرا سکے۔
تاہم موجودہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت بننے کے بعد ایک مرتبہ پھر لیویز فورس کی انضمام کے لیے کوششیں شروع ہوئیں۔ ستمبر میں لیویز فورس ایکٹ کو منظور کر کے اکتوبر میں کابینہ نے آٹھ میں سے چھ ڈویژنز میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دی جس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کے خلاف لیویز فورس کے اہلکاروں نے نہ صرف ضلعی ہیڈکوارٹرز میں اپنے تھانوں کے سامنے دھرنا دیا بلکہ اس کے خلاف وردی میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالیں۔ یہ بلوچستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے طویل احتجاج رہا۔ بعض شہروں میں سیاسی جماعتوں نے بھی انضمام کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
پھر لیویز فورس میں خرابی کیا ہے؟
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی حکومت سے قبل بلوچستان قدرے پُرامن تھا لیکن 2000 کے بعد سے حالات ایسے خراب پیدا ہوئے جو تاحال قابو میں آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
وفاق کے علاوہ سکیورٹی سے متعلق اداروں کے حکام اس کی وجہ پولیسنگ کے دوہری نظام کو قرار دیتے ہیں لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا بلوچ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی شورش ہے اور اگر اس کی وجہ سے یہاں صورتحال ٹھیک نہیں تو اس کی ذمہ داری لیویز فورس پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ان کے بقول یہ وفاق اور مقتدرہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔
ثنا اللہ بلوچ کے مطابق لیویز فورس کے اہلکاروں کا رویہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ اچھا اور دوستانہ ہے۔ ’شاید یہی وجہ ہے کہ اس کو پولیس میں ضم کیا جا رہا ہے، ورنہ اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔‘
قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے لیویز فورس کے رسالدار میجر ظریف خان کا کہنا تھا کہ ’پولیس بھی ہمارا ادارہ ہے۔ ہم اس کے خلاف نہیں لیکن ایک نظام 140 سال سے کامیابی سے چل رہا ہے تو پھر اس کو کسی اور ادارے میں ضم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کم وسائل اور کم نفری کے باوجود لیویز فورس جرائم کنٹرول کے حوالے سے بہتر ہے۔ ’آپ جا کر دیکھیں کہ 85 فیصد سے زائد لیویز فورس کے زیر انتظام علاقے میں اشتہاریوں کی تعداد کتنی ہے اور پولیس کے علاقوں میں کتنی ہے۔ ہمارے علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم اشتہاریوں کو پکڑ کر لاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے حوالات میں جو ملزمان ہوتے ہیں ان سے جا کر پوچھیں کہ ان کے ساتھ ہمارے سلوک کیسا ہے۔ پولیس کے تھانے میں جو سلوک ہوتا ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک قربانیوں کی بات ہے تو وہ پولیس سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔
ظریف خان کا کہنا تھا کہ لیویز کا کمانڈ سویلین انتظامیہ یعنی اسسٹنٹ کمشنر یا تحصیلدار کے پاس ہوتا ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کو صحت اور تعلیم سمیت متعدد دیگر معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے، اس لیے ان کے بقول بعض مسائل بھی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جس طرح پولیس کے ضلعی سربراہ کے طور پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز ہیں، اسی طرح لیویز کے ڈسٹرکٹ لیویز آفیسر ہوتے تو اس سے لیویز فورس یہاں کے قبائلی معاشرے میں زیادہ موثر فورس ثابت ہوتی۔
’لیویز کو ضم کرنے کی بجائے تربیت دیں‘
بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز دانشور رفیع اللہ کاکڑ کی رائے ہے کہ لیویز کو ضم کرنے کی بجائے اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال سے میڈیا اور دیگر چینلز کے ذریعے ایک منظم مہم چلائی گئی کہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی بنیادی وجہ صوبے میں اے اور بی ایریاز میں تقسیم ہے۔
ان کا کہنا تھا ’میں سمجھتا ہوں یہ غلط مفروضہ اس لیے ہے کہ لیویز کا بنیادی کام روزمرہ کے امن و امان اور جرائم کو کنٹرول کرنا ہے۔‘
’لیویز کی کارکردگی کو انسرجنسی (شورش) کی بنیاد پر نہیں پرکھنا چاہیے کیونکہ یہ فورس کاؤنٹر انسرجنسی فورس کے طور پر سرے سے بنی ہی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لیویز فورس میں جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے وہاں لیویز کی کمیونٹی کے اندر سے ایک طاقت ہے اور وہ کمیونٹی کو جانتی ہے۔ ’دنیا تو آج کل کمیونٹی پولیسنگ کی طرف جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لیویز فورس کمیونٹی پولیسنگ کی ایک قریب ترین شکل ہے۔ اس لیے اس کو کسی طرح ضم نہیں کرنا چاہیے۔‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ لیویز کو ضم کرنے سے شورش میں کمی یا اس کے خاتمے میں کوئی مدد ملے گی۔ بلکہ اس کے برعکس بنیادی شواہد تو یہ ہیں کہ شورش کا مومینٹم تو شہری مراکز کی طرف منتقل ہوا ہے اور شہروں میں تو ہر جگہ پولیس ہے۔‘
’انسرجنسی کو صرف ایک سکیورٹی سینٹرک اپروچ سے ڈیل کرنا خود ایک مسئلہ ہے اور اس کے جو ڈرائیورز ہیں ان پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ حکومت اس طرف سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی۔‘
ممتاز دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری کا خیال ہے کہ ضم کرنے کی بجائے ’لیویز کو تربیت دینی چاہیے کیونکہ یہ ہماری نفسیات اورمعاشرے کے مطابق ہے۔ اس کو علاقے کا پتا ہے، وہ بہت زیادہ کامیاب تھے۔‘
ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تسلیم کیا تھا کہ یہ کوئی عوامی سطح پر مقبول فیصلہ نہیںلیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تسلیم کیا تھا کہ یہ عوامی سطح پر مقبول فیصلہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کی چاہت لیویز کے ساتھ زیادہ ہے۔ ایک قبائلی آدمی ہونے کی حیثیت سے اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ لیکن دنیا میں اصلاحات کے ساتھ تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ثابت کرے گا کہ یہ درست فیصلہ ہے۔‘
ایک دوسرے موقع پر آئی جی پولیس کے دفتر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ لیویز فورس کے جو اہلکار پولیس میں ضم نہیں ہونا چاہتے ہیں تو وہ گولڈن ہینڈ شیک لے کر چلے جائیں۔ ان کی جگہ پر پولیس میں بھرتیاں کی جائیں گی۔
بلوچستان پولیس کے سابق انسپیکٹر جنرل ڈاکٹر شعیب سڈل نے لیویز فورس کے انضمام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ لیویز دراصل پولیسنگ کا ایک سستا نظام ہے جو دنیا میں پہلے سے موجود تھا۔
ان کا خیال ہے کہ اب دنیا میں پاکستان کے سوا کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں جہاں لیویز کا نظام ہو۔ ’دنیا میں امن و امان کے حوالے سے جو ممالک بھی آگے گئے وہاں انھوں نے پولیسنگ کا ایک ہی معیار اور نظام رکھا ہے۔‘
ڈاکٹر شعیب سڈل کی یہ رائے ہے کہ ’آپ جتنے زیادہ بکھرے ہوئے نظام رکھیں گے اتنی ہی کنفیوژن ہوگی اور اتنا ہی امن و امان خراب ہوگا۔‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انسرجنسی اس لیے ہے کہ نظام ایک جیسا نہیں ہے۔ ان کے بقول جہاں لیویز ہے وہاں انسرجنٹس کو عام طور پر فری ہینڈ ملتا ہے کیونکہ ان کو وہاں کوئی پوچھنے والا ہوتا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سرداری نظام بھی ہے۔ ’وہ بھی چاہتے ہیں کہ لیویز فورس ہی رہے۔ یہ سیاست صرف سرداروں تک محدود نہیں بلکہ یہ بیوروکریسی میں بھی ہے۔ ڈپٹی کمشنرز کہتے ہیں ایک فورس جو ہمیں ملی ہے وہ ختم نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دنیا نے لیویز والا نظام پہلے ہی چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں اس وقت جو چیلنجز ہیں ان میں دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے نظام نہیں بدلا ہو۔‘
تو جب پولیس کے اہلکار انسرجنسی کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تو اس فیصلے سے انھیں کیا مدد ملے گی، اس سوال پر ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ ’جب ایک جیسا نظام ہوگا اور اس کی نگرانی ٹھیک ہوگی تو یہ بالکل کامیاب ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انسرجنسی سے نمٹنے کے لیے فرنٹ لائن کے طور پر پولیس کو رکھنا چاہیے۔
’ایسا نہ ہو کہ کل پھر فیصلہ واپس ہو جائے‘
سابق ڈی آئی جی پولیس عبدالرزاق چیمہ طویل عرصے تک کوئٹہ شہر میں پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں لیویز زیادہ اچھی ہے تو پھر لیویز کو پورے بلوچستان میں رکھیں، ورنہ پولیس کو رکھِیں۔‘
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دیہی اورشہری پولیسنگ میں فرق ہے تاہم ’اس کے لیے فورسز الگ نہیں ہوتیں۔ بلکہ پولیس ایک ہوتی ہے۔۔۔ اس کی کمانڈ تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ جب کمانڈ تبدیل ہوتی ہے تو پھر بڑے مسائل آتے ہیں۔‘
عبدالرزاق چیمہ لیویز فورس کی خامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ لیویز اہلکار ایک ہی جگہ کام کرتے ہیں جبکہ پولیس میں پوسٹنگ اور ٹرانسفرز ہوتے ہیں۔ ’جب بندہ ٹرانسفر ہو تو اس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔‘
’لیویز کا کمانڈ ریونیو کے لوگوں کے پاس ہے اور ان کے ایس ایچ او کے اختیارات تحصیلدار کے پاس۔ ان کے پاس پولیسنگ کا تجربہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے لیویز فورس کی کمانڈ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔ جو دشمن ہے وہ بہت زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ اس کا کمانڈ بھی تقریباً ایک ہے۔‘
مگر ان کا اصرار ہے کہ لیویز کا انضمام اتفاق رائے سے ہونا چاہیے۔ ’ایسا نہ ہو کل کو پھر واپس کر لیں اور اس طرح فورس صحیح طریقے سے کام نہیں کر سکتی۔ اگر ایسا ہو گا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے ادارے مضبوط نہیں بن سکتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان ایسا علاقہ ہے جس کی آبادی بہت کم ہے۔ ’اگر ہم ایک نظام لاگو کر دیں اور اچھے طریقے سے پولیسنگ کریں تو پھر ایف سی کی طرح کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘