شام کی علوی برادری اور موٹرسائیکل سوار نقاب پوش قاتلوں کا خوف: ’وہ صرف اِس لیے مارے جا رہے ہیں کیونکہ وہ علوی ہیں‘

نقاب پوش قاتل رات کے اوقات میں آتے ہیں، اپنا کام کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں۔حالیہ مہینوں کے دوران اس انداز میں سرانجام دی گئی وارداتیں ملک شام کے بعض علاقوں کے رہائشیوں کے لیے انتہائی پریشان کُن ہیں۔ آئے روز ہونے والے ان فرقہ وارنہ حملوں کے سبب ملک میں برسراقتدار جماعتوں اور گروہوں کے درمیان موجود نازک سا اتحاد داؤ پر لگا ہوا ہے۔
عدنان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو صرف اس لیے مارا جا رہا ہے کیونکہ وہ علوی ہیں
BBC/Goktay Koraltan
عدنان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو صرف اس لیے مارا جا رہا ہے کیونکہ وہ علوی ہیں

نقاب پوش قاتل رات کے اوقات میں آتے ہیں، اپنا کام کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں۔

حالیہ مہینوں کے دوران اس انداز میں سرانجام دی گئی وارداتیں ملک شام کے بعض علاقوں کے رہائشیوں کے لیے انتہائی پریشان کُن ہیں۔ آئے روز ہونے والے ان فرقہ وارنہ حملوں کے سبب ملک میں برسراقتدار جماعتوں اور گروہوں کے درمیان موجود نازک سا اتحاد داؤ پر لگا ہوا ہے۔

شام میں ایک ہی پیٹرن پر ہونے والے ان حالیہ فرقہ وارانہ حملوں کا اہم نشانہ علوی برادری کے لوگ ہوتے ہیں۔ شام کے سابق صدر بشار الاسد کا تعلق بھی علوی فرقے سے ہے۔

اگرچہ علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو عموماً حملوں میں نشانہ بنایا جاتا ہے مگر ایک حالیہ واقعے میں میسحی افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وسیام اور شفیق منصور آپس میں کزن تھے اور اُن دونوں کی عمر 39 برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ دونوں کافی اور سگریٹ پیتے ہوئے گپیں لگا رہے تھے جب اچانک انھیں گولیاں مار دی گئیں۔

یہ واقعہ شام کے صوبہ حمص کیوادی النصر کے آناز گاؤں میں پیش آیا تھا۔ اس علاقے میں مسحیی آبادی کی اکثریت ہے اور مقامی افراد کا الزام ہے کہ مسلح حملہ آور قریب میں موجود سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے گاؤں کی جانب سے آیا تھا۔

وسیام کے جنازے کے قریب بیٹھے اُن کے والد جارج نے حکام سے التجا کی ہے کہ اس علاقے میں مسیحی غیر محفوظ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم سے بندوقیں لے لی گئی لیکن ہمارے مخالف سُنی دیہات میں سب مسلح ہیں۔ انھیں مذہب، محبت اور امن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ آج وسیام گیا ہے اور کل کوئی اور جائے گا۔‘

اس علاقے میں موجود اکثر افراد اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ شام میں حکومت بدلنے سے قبل یہ افراد بشار الاسد کی حمایت کرتے تھے اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ انھیں اب نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

وسیام اور شفیق کو موٹرسائیکل پر سوار نقاب پوش حملہ آور نے ہلاک کیا تھا
BBC/Goktay Koraltan
وسیام اور شفیق کو موٹرسائیکل پر سوار نقاب پوش حملہ آور نے ہلاک کیا تھا

مگر کیا یہ انتقام ہے یا فرقہ ورانہ ہلاکتیں؟

ہم حتمیٰ طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن اب وسیام کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اُن کی اہلیہ تابوت پر جُھکی اُنھیں الودع کہہ رہی تھیں۔ جنازے میں شریک افراد نے جائے وقوعہ سے گزرتے ہوئے نعرے بازی کی اور کہا کہ ’مسیحیوں کا خون قیمتی ہے۔‘

عقیدے کی بنیاد پر یہ کیمونٹی ایک دوسرے کے ساتھ ہے اور انھیں خطرہ ہے کہ سابق صدر الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت انھیں تحفظ نہیں دے گی۔

حملے میں بچنے والے شحض کے ہاتھ میں گولی لگی تھی جو ٹخنے کی ہڈی توڑتی ہوئی باہر نکلی۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر 36 سالہ شخص نے بتایا کہ جب بشار الاسد کی حکومت گئی اُس وقت وہ لبنان میں تھے اور شام میں نئی حکومت بننے کے بعد بہت سی اُمیدیں لیے واپس اپنے ملک شام آئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم سب اپنے ملک واپس آئے اور نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے تھے لیکن ہم سے سکیورٹی اور شام کے مستقبل سے متعلق جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ میرا قریبی دوست مارا گیا ہے، مجھے اب شام چھوڑنا ہے۔ یہاں بہت سے شدت پسند گروہ ہیں۔ پتہ نہیں شام کہاں جا رہا ہے۔‘

وسیام کی اہلیہ اپنے شوہر کے تابوت سے لپٹی ہوئی ہیں
BBC/Goktay Koraltan
وسیام کی اہلیہ اپنے شوہر کے تابوت سے لپٹی ہوئی ہیں

یہاں سے قریب ہی حمص شہر میں حالات یہ ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اغوا اور ہلاکتوں کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔

علوی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان ہلاکتوں پر حکومت کا جوابی ردعمل انتہائی واجبی سا ہے۔

شہر میں تباہی کے نشانات واضح ہیں اور پرہجوم سڑکوں کے اطراف میں ملبے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ جنگ میں بچ جانے والے علوی پریشان ہیں کہ کیا وہ زندہ رہ پائیں گے۔

بشار الاسد کے دور میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد، جو شعیہ اسلام کی شاخ ہے، کو کچھ فوائد ضرور حاصل تھے لیکن اب اس کمیونٹی کے لیے حالات خراب ہیں۔ 46 سالہ شعبان آل ازالدین کے مطابق شام میں رہنا اب سزائے موت جیسا ہے۔

ایک علوی دکاندار پر ستمبر میں اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنی دکان بند کر رہے تھے۔ اس حملے میں انھیں تین گولیاں ماری گئیں۔ مسلح نقاب پوش حملہ آور موٹر سائیکل پر آیا تھا۔

ہم اُن کے بھائی سے اس مقام پر ملے جہاں یہ خاندان سنہ 1970 سے رہائش پذیر تھا۔ عدنان کالے کپٹروں میں ملبوس اور غم سے نڈھال تھے اور اُن سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

عدنان نے کہا کہ ’لوگ اس لیے مارے جا رہے ہیں کیونکہ وہ علوی ہیں۔ میرا بھائی ہر دلعزیز تھا۔اُس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، ہمسائے شام کو اُس کی دکان پر اکٹھا ہوتے تھے۔‘

The city of Homs
BBC/Goktay Koraltan
صوبہ حمص میں اغوا اور قتل کے واقعات میں آضافہ ہوا ہے

انھوں نے بتایا کہ شعبان کی دکان کے باہر ایک چیک پوسٹ تھی جسے حال ہی میں ختم کر دیا گیا تھا اور جیسے ہی چیک پوسٹ ختم ہوئی اُسے مار دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ چیک پوسٹ کیوں ختم کی گئی تھی؟

عدنان نے بتایا کے جس دن اُن کے بھائی کو قتل کیا گیا اُس دن علوی مسلک سے تعلق رکھنے والے دو دیگر افراد کوبھی مارا گیا اور یہ تمام ہلاکتیں ایک مقصد کے تحت کی گئیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت جو ہو رہا ہے اُس کا مقصد ’لوگوں کو جبری طور پر دوسرے ملک منتقل کرنا ہے۔ یہ شروعات ہیں، یہ لوگ جان بوجھ کر حالات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سینکڑوں سالوں سے یہاں رہنے کے باوجود یہ لوگ ہماری یہاں موجودگی کے مخالف ہیں۔‘

شام کی عبوری حکومت نے اکثریتی سنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام افراد کو تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ ملک کے وزیر انصاف نے کہا تھا کہ فرقے ورانہ حملوں میں ملوث افراد کا مقدمہ کھلے عام چلایا جائے گا۔

حکومت کی تبدیلی کے وقت 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مسلح افراد نے صدر بشار الاسد کے مسلک سے وابستہ علوی افراد کو بڑے پیمانے پر قتل کیا تھا۔

رواں سال مارچ میں فرقہ ورانہ فسادات کی ایک اور لہر میں مزید 600 افراد مارے گئے۔ ان حملوں دروز کیمونٹی کے افراد کو قتل کیا گیا۔

فرقہ ورانہ فسادات میں اصل ہلاکتوں کی تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ایسے حملے خاموشی سے ہوتے ہیں اور اکثر خاندان اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور علاقے میں موجود انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ حمص میں جون سے اکتوبر کے دوران 40 علویوں کو قتل کیا گیا ہے۔ مرنے والوں میں طالبعلم، کسان، ٹیکسی ڈرائیور اور سکول ٹیچر وغیرہ شامل ہیں۔

A hand holds a phone showing of a photo of an older man with his arms round two younger men
BBC/Goktay Koraltan

سیئرین نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ علوی آبادی والے علاقوں میں قتل اور اغوا کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر حملے بدلہ لینے کے لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ علویوں کو سابقہ حکومت کا ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

شام میں علوی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد دس فیصد ہے لیکن الاسد دور میں انھیں فوج، حساس اداروں اور سکیورٹی اداروں میں اہم رول اور پوسٹیں دی گئی تھیں۔

تاہم علویوں کے پاس ماضی میں کوئی اہم رول تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر وہ اس وقت نشانے پر ہیں۔

صوبہ حمص کے ایک عام سے نظر آنے والے گھر کا ایک بیڈ روم اب ایک مزار بن گیا ہے۔ قرآن کا ایک نسخہ تکیے پر پڑا ہے۔ سکول کی کتابیں اور دوستوں کے خطوط میز پر پڑے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک ماں اپنی وفات پا جانے والی پیاری بیٹی کے قریب آتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کی روح اب بھی اس جگہ پر آتی ہے، اس کے دوستیہاں آتے ہیں۔ کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ اب مر چکی ہے۔‘

14 سالہ غناہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑی تھیں جب ایک موٹر سائیکل سوار مسلح شخص نے اُن پر فائرنگ کی اور انھوں نے اپنی ماں کی آغوش میں دم توڑ دیا۔

اُن کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’غناہ اُن کی پیاری بیٹی تھی، وہ پڑھائی میں اچھی تھی۔ باسکٹ بال کھیلتی تھی، وہ سفر کرنا اور قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔‘

14-year-old Ghina
BBC
غناہ اپنی بالکونی میں کھڑی تھیں جب انھیں موٹرسائیکل سوار نے گولی ماری

غناہ کی والدہ بہت خوفزدہ ہیں اُن کے چھوٹے بھائی خوف کی وجہ سے سکول نہیں جاتے ہیں۔

اُن کی والدہ نے بتایا کہ ’علوی خاندانوں نے علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا ہے اور وہ اپنے گھر فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے بہتر تو بشار الاسد کا دور تھا۔ لوگ آزادی سے گھومتے پھرتے تھے لیکن اب ہر جانب خوف ہے۔ ہمیں تو موٹر سائیکل کی آواز سے ڈر لگتا ہے۔‘

غناہ کی والدہ نے کہا کہ وہ قاتلوں کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ ’ہمارے ارد گرد نقصان پہنچانے والے لوگ موجود ہیں، انھوں نے بغاوت کا بیج بو دیا ہے۔‘

لیکن اُن کے خاندان کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس بارے میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا علوی ہونے کی وجہ سے آپ کو نشانہ بنایا گیا؟

بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انھوں نے کہاں ’ہاں‘۔

جس دن ہم غناہ کی والدہ سے ملے اُسی روز ایک اور علوی خاندان اپنے پیارے کو دفن کر رہا تھا۔ جب ہم اُن کے گھر پہنچے تو وہ بات نہیں کرنا چاہتے تھے اور بہت خوفزدہ تھے۔

غناہ کی ہلاکت پر اب تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US