پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس حملے میں اب تک تین ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی میں دو شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین حملہ آور کیڈٹ کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں ایک کیڈٹ کالج پر حملے کے بعد وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے بدھ کو امن جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق گذشتہ روز حملہ آوروں نے بارود سے بھری ایک گاڑی کیڈٹ کالج کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف دروازہ ٹوٹ گیا تھا بلکہ انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ایک بیان میں سہیل آفریدی نے وانا کیڈٹ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’معصوم طلبہ اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا انتہائی بزدلانہ اقدام ہے۔
’صوبے سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے کل امن جرگہ بھی منعقد کیا جا رہا ہے۔ امن جرگے میں تمام سیاسی، مذہبی اور قبائلی عمائدین شریک ہوں گے۔‘
ادھر پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس حملے میں اب تک تین ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی میں دو شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین حملہ آور کیڈٹ کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ’حملہ آوروں کے خلاف کارروائی جاری ہے، جس کے بعد علاقے کو کلیئر کیا جائے گا۔‘
ان کے مطابق اب تک کالج سے 350 افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے جبکہ اب بھی وہاں 300 کے قریب افراد موجود ہیں۔
حملے میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا میں حکام نے ابتدائی طور پر نو افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق بھی کی ہے۔ زخمی ہونے والوں کی عمریں دس سے 22 برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔
تاحال یہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ وانا میں کیڈٹ کالج پر حملے میں کون سا کالعدم گروہ ملوث ہے۔
’ہمارے مکان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی‘
پیشے کے اعتبار سے صحافی ظفر وزیر خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں اس آبادی میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے تھوڑی ہی دور وہ کیڈٹ کالج ہے جہاں گذشتہ روز مسلح شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا دھماکہ ہم نے کبھی نہیں سُنا، اس سے ہمارے مکان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں اور آس پاس کے علاقے میں بیشتر مکانات کی یہی حالت ہے۔‘
وانا کے رہائشی ظفر وزیر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ حملہ پیر کو شام کے وقت ہوا تھا اور اب تک کیڈٹ کالج کے اندر سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔‘
کیڈٹ کالج کہاں واقع ہے؟
حملے کا نشانہ بننے والا کیڈٹ کالج وانا بازار سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور زڑے نور کے گنجان آباد علاقے میں واقع ہے۔
ایک مقامی پولیس افسر نے بھی بی بی سی اردو کو تصدیق کی ہے کہ گذشتہ روز شام کے وقت نامعلوم افراد نے کیڈٹ کالج پر حملہ کیا تھا۔
مقامی پولیس افسر نے مزید کہا کہ نامعلوم افراد نے کالج کے گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی سے حملہ کیا اور اس کے بعد مسلح افراد کالج کے اندر داخل ہوئے ہیں۔
جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے صحافی دلاور وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کیڈٹ کالج کے قریب ایک گرلز اور ایک بوائز کالج بھی واقع ہے، جبکہ اس کے مغرب میں آرمی کالونی ہے جسی زیڑے نور کالونی بھی کہا جاتا ہے۔
اسی علاقے میں برطانوی دور میں بنایا گیا سکاؤٹس کیمپاور عام شہریوں کے مکانات بھی واقع ہیں ۔
دلاور وزیر کے مطابق اسی علاقے کے قریب ایک ہسپتال اور چند فرلانگ کے فاصلے پر پولیس لائن اور دیگر سرکاری ادارے ہیں، جہاں چیک پوسٹس پر اہلکار تعینات رہتے ہیں۔
وانا بنیادی طور پر وزیر قوم کا علاقہ ہے جبکہ اس کے ساتھ یہاں محسود قبیلے کے لوگ بھی آباد ہیں۔
دوسری جانب عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت کیڈٹ کالج کے اندر کُل 650 افراد موجود تھے، جن میں سے 525 کیڈٹس شامل تھے۔
عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 115 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے، جبکہ کیڈٹس کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے بہت احتیاط کے ساتھ آپریشن جاری ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں اس علاقے میں ٹریفک اور لوگ موجود ہوتے ہیں، لیکن آج خاموشی ہے اور سڑکیں سنسان ہیں۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’اس وقت علاقے میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے، لوگ اس پریشانی میں ہیں کہ کالج کے اندر موجود طلباء اساتذہ اور دیگر عملہ کس حال میں ہوں گے۔‘
’شدت پسند طلبہ اور اساتذہ سمیت تمام عملے کو یرغمال بنانا چاہتے تھے‘
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے منگل کےروز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ روز وانا میں خود کش حملے میں ایک گاڑی استعمال کی گئی تھی۔
وزیر داخلہ کے مطابق ’وہاں پر تین شہادتیں ہوئیں، ساڑھے پانچ سو طلبا اور 40 اساتذہ تھے، جنھیں ہماری فورسز نے بچایا۔‘
ان کے مطابق ان (شدت پسندوں) کا منصوبہ تھا کہ سب کو یرغمال بنایا جائے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’خود کش حملہ آور کی شناخت ہوچکی ہے اور وہ ایک افغان شہری ہے۔‘
حملہ آوروں کا حوالہ دیتے ہوئے محسن نقوی نے الزام عائد کیا کہ ’وہ رات کو بھی اپنے لوگوں کے ساتھ افغانستان میں رابطے میں رہے، اس میں افغانستان براہ راست ملوث ہے۔ افغانستان کو ہر صورت میں ان (شدت پسندوں) کو روکنا پڑے گا۔‘
افغان طالبان نے تاحال پاکستان کے الزامات پر کوئی بیان نہیں جاری کیا ہے۔