لال قلعے دھماکے سے قبل ہونے والا کشمیر پولیس کا آپریشن اور تین ڈاکٹروں کی گرفتاری کا معمہ

10 نومبر کی شام دہلی کے لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب کار بم دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو ئے ہیں لیکن دھماکے سے قبل جموں و کشمیر پولیس نے ہریانہ اور اتر پردیش میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
تصویر
Getty Images

10 نومبر کی شام دہلی کے لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب کار بم دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے اور اس دھماکے سے قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے ہریانہ اور اُتر پردیش میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔

گرفتار ہونے والوں میں تین ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ ریاست ہریانہ کے ضلع فرید آباد کے پولس کمشنر ستیندر کمار گپتا نے کہا کہ ’یہ گرفتاریاں 15 دن کے مشترکہ آپریشن کا نتیجہ ہیں اور یہ آپریشن تاحال جاری ہے۔‘

تاہم پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ان گرفتاریوں کا دہلی کار بم دھماکے سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

دہلی بم دھماکے کی تحقیقات اب انڈیا کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کو سونپ دی گئی ہے۔

اگرچہ تفتیش کا عمل جاری ہے تاہم اس دھماکے سے قبل اور اس کے بعد بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کی کچھ کارروائیاں بھی جاری ہیں۔کشمیر پولیس کی ایک ٹیم نے فرید آباد سے گرفتار کیے گئے ایک ملزم سے متعلق ان افراد سے تفتیش کی ہے جو اُن کے ساتھ کام کرتے تھے۔

دریں اثنا اسی سلسلے میں سہارنپور اور لکھنؤ میں بھی تلاشی مہم جاری ہے۔

فرید آباد پولیس کے مطابق الفلاح یونیورسٹی اور فرید آباد کے کئی دیگر علاقوں میں لگ بھگ 800 پولیس اہلکار سرچ آپریشن میں مصروف ہیں اور رہائشیوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

دہلی دھماکے سے قبل یعنی 10 نومبر کو کشمیر پولیس نے اسی آپریشن کے دوران سات افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِن افراد کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیموں ’جیش محمد‘ اور ’انصار غزوۃ الہند‘ سے ہے۔

لیکن حراست میں لیے جانے والے ان ملزمان کے اہلخانہ اِن گرفتاریوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

اس افراد میں تین ڈاکٹر: یعنی ڈاکٹر عادل، ڈاکٹر مزمل شکیل اور ڈاکٹر شاہین سعید بھی شامل ہیں اور سکیورٹی ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ آیا گرفتار ڈاکٹروں کے درمیان کوئی نیٹ ورک لنک ہے یا نہیں۔

کار بم دھماکے میں ’مرکزی ملزم‘ قرار دیے جانے والے ڈاکٹر عمر نبی کے اہلخانہ پریشان

چند انڈین حکام اور ذرائع ابلاغ کے مطابق جنوبی کشمیر کے علاقے پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عمر نبی کو دہلی کے لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب ہونے والے کار بم دھماکے کا مرکزی ملزم قرار دیا جا رہا ہے۔

اُن کے اہلخانہ نے اس پیش رفت پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ڈاکٹر عمر بے قصور ہیں اور گذشتہ کئی ماہ سے اپنے کام میں مصروف تھے۔‘

تحقیقاتی اداروں کے افسران کے مطابق 34 سالہ ڈاکٹر نبی وہ شخص ہیں جو مبینہ طور پر ہنڈائی کمپینی کی وہ آئی 20 کار چلا رہے تھے جو لال قلعہ میٹرو سٹیشن کی پارکنگ کے قریب پھٹ گئی۔

آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

تاہم چند تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ بم دھماکے میں استعمال ہونے والی کار اور فرید آباد سے گرفتار ہونے والے افراد کے درمیان تعلق ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پولیس نے حال ہی میں فرید آباد میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم بعدازاں فریدآباد پولیس نے میڈیا میں گردش کرنے والی اس خبر کو گمراہ کُن قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ’سیکٹر 56 فرید آباد کے علاقے سے ملنے والا دھماکہ خیز مواد شادی پر چلانے والے پٹاخوں کا خام مال ہے، اور اس کا دہشت گردی کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔‘

سکیورٹی ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے بعد ڈاکٹر عمر نبی کو جیش محمد اور انصار غزوۃ الہند جیسی شدت پسند تنظیموں سے منسلک ایک بین الریاستی نیٹ ورک سے جوڑا جا رہا ہے، تاہم پولیس نے ابھی تک سرکاری طور پر کسی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ڈاکٹر عمر کی بھابھی مزملہ نے کہا کہ انھوں نے جمعہ کے روز اپنے دیور ڈاکٹر عمر نبی سے بات کی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اُن کے شوہر، ساس اور بہنوئی کو بھی اپنے ساتھ لے گئی اور بعد ازاں پولیس نے عمر نبی کے والد کو بھی حراست میں لے لیا۔

دہلی میں دھماکے کے بعد اترپردیش پولیس ہائی الرٹ پر
Getty Images
دہلی میں دھماکے کے بعد انڈیا میں پولیس ہائی الرٹ پر ہے

دوسری جانب کشمیر پولیس کے مطابق سات نومبر کو ڈاکٹر عدیل احمد راٹھیر کو سہارنپورسے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے آدھار کارڈ پر کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا پتہ درج ہے۔ یہ گرفتاری سہارنپور کے ایک مشہور ہسپتال میں عمل میں لائی گئی تھی۔

ڈاکٹر عدیل پر شدت پسند تنظیم جیش محمد کی حمایت میں پوسٹر لگانے کا الزام ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ انھوں نے اننت ناگ میں جیش محمد کی حمایت میں پوسٹر لگائے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران سرینگر پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کی جس میں انھیں پوسٹر چسپاں کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور اسی فوٹیج کی بنیاد پر انھیں سہارنپور میں گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق ڈاکٹر عدیل تقریباً تین سال سے سہارنپور میں رہ رہے تھے۔ ماضی میں وہ اننت ناگ کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں سینیئر ریذیڈنٹ ڈاکٹر تھے۔

ڈاکٹر عدیل کی گرفتاری کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے ہسپتال سے اُن کے نام کی تختی ہٹا دی ہے۔

میڈیکیئر ہسپتال کے مینیجر منوج مشرا نے کہا کہ رواں برس مارچ میں انھیں ہسپتال میں تعینات کیا گیا تھا مگر اب ان کی گرفتاری کے بعد ہسپتال نے اُن کی خدمات ختم کر دی ہیں۔

سہارنپور کے ایس پی سٹی ویوم بِندل نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’یہ جموں و کشمیر پولیس کا معاملہ ہے، اور اتر پردیش پولیس نے اس معاملے میں صرف تعاون کیا ہے۔‘

پولیس اب اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ سہارنپور میں ڈاکٹر عدیل کس سے رابطے میں تھے۔

دھماکے کے بعد دہلی سے ملحق ریاستوں میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے ہیں
Getty Images
دھماکے کے بعد دہلی سے ملحق ریاستوں میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے ہیں

اس سے قبل پولیس نے ہریانہ کی الفلاح یونیورسٹی میں پڑھانے والے ڈاکٹر مزمل شکیل کو بھی گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر مزمل شکیل سے قابل اعتراض مواد برآمد ہوا ہے۔

ڈاکٹر مزمل کو 30 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ تفتیش سے معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے گھر میں دھماکہ خیز مواد چھپایا گیا تھا۔

فرید آباد کے پولیس کمشنر ستیندر گپتا نے دعویٰ کیا ہے ’مزمل الفلاح یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ان کے قبضے سے ایک کلاشنکوف رائفل، ایک پستول اور ایک ٹائمر برآمد ہوا ہے۔‘

ڈاکٹر مزمل کی والدہ نسیمہ نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’ہمیں اُن کی گرفتاری کے بارے میں دوسروں سے معلوم ہوا۔ ہم نے ان سے ملنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے ہمیں اجازت نہیں دی۔‘

مزمل کی گرفتاری کے بعد فرید آباد میں ایک خاتون ڈاکٹر شاہین سعید کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق مزمل کے پاس سے ملنے والی گاڑی ڈاکٹر شاہین سعید کے نام رجسٹرڈ ہے۔

پولیس نے منگل کو ڈاکٹر شاہین سعید کے لکھنؤ کے گھر پر چھان بین کی۔

اُن کے والد سعید احمد انصاری نے کہا ہے کہ ’میرے تین بچے ہیں۔ شاہین سعید دوسرے نمبر پر ہیں۔ انھوں نے الہ آباد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور ایم ڈی مکمل کیا ہے۔‘

سید احمد انصاری نے کہا کہ ’میں آپ کی باتوں پر یقین نہیں کر سکتا (غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں)۔ پولیس نے ابھی تک مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے۔‘

پولیس نے سہارنپور اور لکھنؤ میں شاہین سعید کے بھائی پرویز انصاری کے گھر کی بھی تلاشی لی ہے۔

پہلے گرفتاریاں، پھر دھماکہ

دہلی دھماکے کی تفتیش کا کام این آئی اے کے حوالے کیا گيا ہے
Getty Images
دہلی دھماکے کی تفتیش کا کام این آئی اے کے حوالے کیا گيا ہے

ان گرفتاریوں کے تناظر میں جموں و کشمیر پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک نیٹ ورک کے سراغ لگانے پر کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں مشترکہ آپریشن اتر پردیش اور ہریانہ پولیس کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔ کشمیر پولیس کے مطابق ’یہ کارروائیاں طویل مدتی نگرانی اور انٹیلیجنس کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ ماڈیول جموں و کشمیر سے باہر سرگرم تھا، دہشت گردی کی حمایت میں پروپیگنڈا کر رہا تھا، نوجوانوں کو اکسا رہا تھا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے رسد کو متحرک کر رہا تھا۔

کشمیر پولیس کا دعویٰ ہے کہ چھاپوں کے دوران کئی ڈیجیٹل ڈیوائسز، پوسٹرز اور الیکٹرانک ریکارڈ برآمد کیے گئے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان کالعدم تنظیموں کا نظریہ فروغ دے رہے تھے۔

اس معاملے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اضافی رپورٹنگ: ماجد جہانگیر، سرینگر سے


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US