ایک خاتون نے جنسی تشدد کے مرتکب مجرم کرسٹوفر ہارکنز سے ٹنڈر پر ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ اس شخص کے ساتھ صرف بیس منٹ گزارنے کے بعد وہ موت کی دھمکیوں اور اذیت ناک ہراسانی کا شکار ہوئیں۔
نادیہ نے خطرات کو بھانپتے ہوئے کرسٹوفر سے اپنی پہلی ملاقات بیچ ہی میں چھوڑ دی تھیایک خاتون نے جنسی تشدد کا مجرم قرار دیے گئے کرسٹوفر ہارکنز سے ’ٹنڈر‘ پر ہونے والی اپنی پہلی ملاقات کے سات سال بعد دعویٰ کیا ہے کہ اِس شخص کے ساتھ صرف 20 منٹ گزارنے کے بعد انھیں موت کی دھمکیاں دی گئیں اور وہ اذیت ناک ہراسانی کا شکار ہوئیں۔
انھوں نے کہا کہ اس ملاقات اور اس کے بعد کے واقعات نے اُن کی ذہنی صحت کو برسوں تک برباد کیے رکھا۔
34 سالہ نادیہ کی یہ مختصر ملاقات سنہ 2018 میں ہوئی تھی اور اب سات سال بعد اس سے متعلق بات کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بدسلوکی اُس وقت شروع ہوئی جب کرسٹوفر کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ پر ہونے والی اُن کی ملاقات کے دوران کچھ ’ریڈ فلیگ‘ دیکھ کر انھوں نے اپارٹمنٹ سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا۔
نادیہ اُن چھ خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس شخص کے ساتھ اپنے ہولناک اور عجیب و غریب تجربات بی بی سی کے ایک پروگرام ’ڈسکلوژر پوڈکاسٹ: میچڈ ود اے پریڈیٹر‘ میں بیان کیے ہیں۔
بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ نادیہ کے ساتھ ہوئی اس ملاقات سے چھ سال قبل یعنی سنہ 2012 میں 11 خواتین نے ہارکنز کے خلاف سکاٹ لینڈ پولیس کو رپورٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اُس وقت کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔
جسمانی حملوں، فراڈ، دھمکیوں اور ہراسانی کے الزامات کے باوجود پولیس نے سنہ 2019 کے اواخر تک اس شخص کے خلاف کوئی تفتیش نہیں کی۔
سکاٹ لینڈ پولیس کا موقف ہے کہ اس شخص سے متعلق ابتدائی شکایات ’زیادہ تر اُس شخص کی مالی حالت سے متعلق تھیں‘ اور ہر کیس کو الگ الگ نمٹا دیا گیا تھا مگر اب انھیں امید ہے کہ ’ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔‘
کرسٹوفر ہارکنز نے تقریباً ایک دہائی تک سکاٹ لینڈ اور لندن میں آن لائن رہتے ہوئے خواتین کو نشانہ بنایا اور آخرکار سنہ 2024 میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔
نادیہ کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس شخص کو بہت پہلے گرفتار کر لینا چاہیے تھا۔
ریڈ فلیگ
کرسٹوفر ہارکنز کو 12 سال قید کی سزا ہوئی ہےنادیہ اُن کئی متاثرہ خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے سکاٹ لینڈ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے معافی مانگے جنھوں نے برسوں پہلے اس شخص کے خلاف شکایت کرنے کی کوشش کی تھی۔
نادیہ اب 34 برس کی ہیں اور ہارکنز ابھی 38 سال کے ہیں۔ دونوں سات برس پہلے ڈیٹنگ ایپ ٹِنڈر پر ایک دوسرے سے ملے تھے۔
انھوں نے چند ہفتوں تک ایک دوسرے کو پیغامات بھیجے اور پھر گلاسگو میں ڈنر پر ملنے کا فیصلہ کیا۔
نادیہ کو پہلا ریڈ فلیگ (خطرے کا اشارہ) اُس وقت ملا، جب وہ ہارکنز کو اُن کے اپارٹمنٹ سے لینے گئیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے دروازہ کھولا تو وہ ٹریک پینٹ اور بغیر آستین کی قمیص پہنے ہوئے تھے اور اس موقع پر انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ بہت تھکے ہوئے ہیں اس لیے اپارٹمنٹ پر ہی رُکا جا سکتا ہے۔
ہارکنز نے نادیہ کو تجویز دی کہ وہ اپارٹمنٹ میں ہی رُک جائیں اور یہیں کھانا منگوا لیں۔
نادیہ کہتی ہیں کہ ’یہیں سے چیزیں عجیب ہونے لگیں۔‘
’میں اندر گئی۔ اپارٹمنٹ بالکل خالی تھا۔ کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ صرف ایک ٹیلی ویژن تھا جو کچھ ڈبوں کے اوپر رکھا ہوا تھا۔‘
ہارکنز نے نادیہ کو ووڈکا (شراب) پینے کی پیشکش کی اور جب نادیہ نے انکار کیا اور اپنے لیے ڈائٹ کوک کا انتخاب کیا، تو ماحول اچانک بدل گیا۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ جیسے اندر ہی اندر طیش میں آ گیا تھا۔‘
’اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، تم خود کو کیا سمجھتی ہو؟ تم خود اپنے لیے ڈرنکس کیوں انڈیل رہی ہو؟ میں تھوڑی گھبرا گئی اور گلاس کے کنارے تک کوک بھر دی۔ جب میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اپنی جنونی آنکھوں کے ساتھ گھور رہا تھا۔‘
’وہ بولا کہ تم کتنی عجیب ہو، میری چیزوں کا خیال نہیں تمہیں۔ تم تو جوکر ہو۔‘
’مجھے یاد ہے میں نے سوچا کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھو میں جا رہی ہوں، جس پر وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گالیاں دینے لگا۔‘
’میں ڈر گئی۔ سوچا وہ میرا پیچھا کرے گا۔ میں گاڑی میں جا کر بیٹھی، دروازے بند کیے اور بس۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے سمجھا کہ یہ معاملہ ختم ہو گیا لیکن تباہی تو اس کے بعد شروع ہوئی۔‘
’آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس شخص کے ساتھ گزارے صرف بیس منٹ نے میری زندگی پر کیا اثرات ڈالے۔‘
ملاقات کے بعد نادیہ کو دھمکی بھرے پیغامات ملنے لگےہراسانی
نادیہ کے انکار نے ہارکنز کو جیسے پاگل کر دیا۔ جیسے ہی نادیہ اپارٹمنٹ سے نکلیں، ہارکنز نے فون اور پیغامات کے ذریعے ہراسانی شروع کر دی۔
پہلا پیغام تھا کہ ’تمہیں ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ ڈیٹ چھوڑ کر جانے کی؟‘
چند گھنٹوں میں صورتحال بگڑ گئی۔ نادیہ کے مطابق، ہارکنز نے دھمکی دی کہ وہ ان کو اور ان کے والد کو مار دے گا۔
ہارکنز نے بار بار نادیہ کی ظاہری شکل کے بارے میں بھی باتیں کہیں، جو نادیہ کے لیے نہایت توہین آمیز تھیں۔
اس سب نے نادیہ کے اعتماد اور خود داری کو چکنا چور کر دیا، جو وہ بڑی مشکل سے ایک مشکل دور کے بعد دوبارہ حاصل کر رہی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھے پیغامات آتے رہے کہ تم موٹی گائے ہو، تم ایک دھوکہ باز ہو، سور کی طرح لگتی ہو، بہت میک اپ کرتی ہو۔ یہ ساری رات چلتا رہا۔ میں اتنا روئی کہ سر میں درد ہو گیا۔ صبح چھ بجے تک وہ مجھے بُرا بھلا کہتا رہا تھا۔‘
’میں نے آئینے میں خود کو دیکھا اور شرمندگی محسوس کی۔ وہ جانتا تھا کہ میں نے وزن کم کیا ہے اور جم جا رہی ہوں۔ جب مجھے لگا تھا میں اپنی بہترین حالت میں ہوں، اس نے سب کچھ مجھ سے چھین لیا۔‘
ملاقات کے اگلے دن نادیہ نے پولیس کو اس بارے میں اطلاع دی۔ انھوں نے پولیس کو وہ فون کال بھی سُنائی جس میں ہارکنز کہہ رہا تھا کہ وہ اس کے والد کے گھر جائے گا اور انھیں باہر گھسیٹ کر مارے گا۔
نادیہ بتاتی ہیں کہ ’پولیس نے کہا وہ میرے اس کیس کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔انھوں نے کہا کہ کوئی براہِ راست خطرہ نہیں، اگر کچھ ہوا تو فوراً اطلاع دینا۔‘
’کسی نے میرا بیان تک نہیں لیا۔ وہ مدد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میں چیخ رہی تھی، کہہ رہی تھی کہ یہ قابلِ برداشت نہیں۔ تم نہیں جانتے وہ کیا کر سکتا ہے۔ وہ مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔‘
’اگر اس وقت پولیس نے کچھ کیا ہوتا، تو شاید کئی لڑکیاں اس کے ظلم و تشدد سے بچ سکتی تھیں۔‘
ہارکنز نے ملاقات ختم ہونے کے بعد بھی نادیہ کا پیچھا جاری رکھا۔ نادیہ نے ان کا نمبر بلاک کر دیا مگر ایک سال سے زیادہ عرصے تک وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے جاننے والوں سے رابطہ کرتا رہا۔
نادیہ کہتی ہیں کہ ’اس سب نے میری ذہنی حالت پر ایسا اثر ڈالا کہ اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو شاید میں اپنی جان لے لیتی۔‘
ہارکنز کے جرائم میں خواتین کو مالی دھوکہ دینا بھی شامل تھابار بار کیے گئے جرائم
ہارکنز اِس وقت جیل میں ہیں اور 12 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ انھیں 10 خواتین کے خلاف 19 جرائم میں مجرم قرار دیا گیا جن میں جسمانی اور جنسی تشدد بھی شامل ہے۔
ابتدا میں اُن پر نادیہ کے خلاف دھمکی آمیز اور ہراسانی پر مبنی رویّے اور ان کے خاندان کو دھمکانے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
بعد ازاں استغاثہ کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت ان الزامات پر ان کی ’بے قصور‘ ہونے کی درخواست قبول کر لی گئی لیکن ہارکنز نے دیگر جرائم کا اعتراف کیا جن میں خواتین سے 2 لاکھ 14 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 2 لاکھ 82 ہزار امریکی ڈالر) سے زائد رقم لوٹنا بھی شامل تھا۔ یہ رقم اُنھوں نے جعلی سیاحت کی سکیموں، جھوٹے سرمایہ کاری منصوبوں اور خواتین کی شناخت استعمال کر کے بینک قرضے حاصل کرنے کے ذریعے ہتھیائی تھی۔
آخر کار پولیس کی تفتیش اس وقت شروع ہوئی جب ایک عورت نے انتہائی مایوسی کے عالم میں میڈیا سے رجوع کیا تاکہ ہارکنز کو بے نقاب کرے اور دوسری عورتوں کو اس فریب سے بچا سکے۔
اس خاتون کی بھی پولیس نے کوئی مدد نہیں کی تھی، جب ہارکنز نے ایک فرضی چھٹی کے بہانے اس سے 3,247 پاؤنڈ (تقریباً 4,300 امریکی ڈالر) لوٹ لیے تھے۔
یہ کہانی اکتوبر 2019 میں منظرِ عام پر آئی۔ جلد ہی ہارکنز کے جرائم کا بڑا دائرہ سامنے آنے لگا اور پولیس نے باقاعدہ تفتیش شروع کر دی۔
نادیہ اور وہ دیگر لوگ جنھوں نے ماضی میں شکایات درج کروائیں تھیں، ان سے دوبارہ رابطہ کیا گيا اور اس بار ان سے باقاعدہ بیانات لیے گئے۔
ہارکنز پر مقدمہ سنہ 2024 میں چلا تھا۔ جب نادیہ نے ایک متاثرہ خاتون کا بیان پڑھا، تو انھیں ایک ہولناک احساس ہوا کیونکہ وہ واقعہ نادیہ کے ساتھ ملاقات کے صرف دو مہینے بعد پیش آیا تھا۔
نادیہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ لڑکی بچائی جا سکتی تھی۔ وہ اسے گرفتار کر سکتے تھے، تو وہ کبھی اس کے رابطے میں نہ آتی۔ یہ ناقابلِ برداشت اور نفرت انگیز ہے۔‘
الگ الگ تفتیشں
ہماری تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہارکنز نے تقریباً 70 ہزار پاؤنڈ (92 ہزار امریکی ڈالر) کی مزید مبینہ جعل سازیاں بھی کی تھیں۔
بی بی سی کے مطابق اس کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد کم از کم 30 تھی۔
ہم نے جیل میں ہارکنز سے ان الزامات پر رابطہ کیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
چیف انسپیکٹر لنڈسے لیئرڈ نے ہارکنز کے خلاف پولیس تفتیش کی قیادت کی۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ابتدائی الزامات کی تفتیش کیوں نہ کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ہر کیس مختلف وقت پر رپورٹ کیا گیا، سب ایک ساتھ نہیں آئے بلکہ سکاٹ لینڈ پولیس کے مختلف حصوں میں رپورٹ ہوئے۔‘
’اس وقت پولیس کے پاس جسمانی یا جنسی تشدد کی کوئی رپورٹ موجود نہیں تھی۔ یہ زیادہ تر مالی معاملات تھے جنھیں الگ الگ دیکھتے ہوئے انھیں دیوانی نوعیت کی تحقیقات سمجھا گیا۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ پہلی شکایات کے بعد سے پولیس کے کام کے انداز میں بہت تبدیلی آئی۔‘
’ہارکنز برسوں تک جرم کرتے رہے اور پولیس غافل رہی‘عدالتی نتیجہ
کئی خواتین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پولیس تفتیش سے پہلے ہی جسمانی حملوں اور جنسی ہراسانی کی شکایت کی تھی۔
جب سکاٹ لینڈ پولیس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اُن متاثرین سے معافی مانگے گی جنھوں نے ہارکنز کی شکایت کی تھی مگر جنھیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، تو لیئرڈ نے کہا کہ ’یہ بہت مشکل سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب انھیں عدالت میں ایک بہتر نتیجہ ملا، جو اس تحقیق کا ثمر ہے جو بعد میں کی گئی۔‘
’ہم نے جو اقدامات اب کیے ہیں، ان کی بدولت امید ہے کہ ایسی صورتحال دوبارہ پیش نہیں آئے گی۔‘
ان بیانات پر ردِعمل دیتے ہوئے نادیہ نے کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ جب انھوں نے آخرکار کارروائی کا فیصلہ کیا تو بڑی محنت کی مگر انھیں یہ سب بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔‘
’وہ برسوں سے یہ سب کر رہا تھا۔ اسے روکا جا سکتا تھا۔ انھیں معافی مانگنی چاہیے۔ وہ اسے روک سکتے تھے۔‘
ہارکنز کے خلاف دس خواتین کی گواہیوں کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا۔
نادیہ کو اس فیصلے کی اطلاع ایک فون کال کے ذریعے دی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان خواتین نے وہ کر دکھایا جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
’اب وہ تمام لوگ جو مستقبل میں اس سے مل سکتے تھے، اس سے محفوظ ہیں۔ جو کچھ انھوں نے کیا، وہ واقعی غیر معمولی تھا۔‘
نادیہ اب اپنی زندگی اور اعتماد کو دوبارہ بحال کر چکی ہیں لیکن اس خوفناک تجربے نے ان پر گہرا نقش چھوڑا۔
وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ’میں اب بہت بہتر ہوں۔ میں بالکل مختلف شخص بن چکی ہوں، کہیں زیادہ پُراعتماد۔ اب مجھے اپنی بات کہنے کا خوف نہیں اور میں اب کبھی بھی کسی انتباہی علامت کو نظرانداز نہیں کروں گی۔‘