کریملن کا کہنا ہے کہ روس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس کی دو بڑی تیل کی کمپنیوں پر عائد پابندیوں سے فرق نہیں پڑ رہا۔ روسی تیل کی تجارت تمام تر پابندیوں کے باوجود جاری رہنے کی وجہ ایک ایسا خفیہ بیڑہ ہے جو زومبی یا گوسٹ بھوت ٹینکرز پر مشتمل ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں بیرل کی ترسیل کر رہا ہے۔
روسی تیل کی تجارت تمام تر پابندیوں کے باوجود جاری رہنے کی وجہ ایک ایسا خفیہ بیڑہ ہے جو زومبی یا گوسٹ بھوت ٹینکرز پر مشتمل ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں بیرل کی ترسیل کر رہا ہےکریملن کا کہنا ہے کہ روس کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اِس کی دو بڑی تیل کی کمپنیوں پر عائد کردہ پابندیوں سے فرق نہیں پڑ رہا۔
تمام تر پابندیوں کے باوجود روسی تیل کی تجارت جاری رہنے کی وجہ ایک ایسا خفیہ بیڑہ ہے جو زومبی یا گھوسٹٹینکرز پر مشتمل ہے اور فی الوقت دنیا بھر میں لاکھوں بیرل تیل کی ترسیل کر رہا ہے۔
ایران کے رہنماؤں سے لے کر، وینیزویلا کے فوجی جنرلوں سمیت مفاد پرست مغربی کاروباری شخصیات اور ادارے بھی اُن خریداروں میں شامل ہیں، جنھیں ماحول کو درپیش خطرات اور کئی ماہ تک سمندر میں پھنس کر رہ جانے والے ٹینکروں کے عملے کی حفاظت اور آزادی سے زیادہ صرف منافع کی پرواہ ہوتی ہے۔
یوکرین پر سنہ 2022 میں ہونے والے حملے کے بعد سے اِس خفیہ روسی بیڑے کی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں جن سے پوتن حکومت فائدہ اٹھاتے ہوئے ناصرف روسی تیل ملک سے باہر بھیج رہی ہے بلکہ اپنی جنگ کے لیے سرمایہ بھی حاصل کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس خفیہ بیڑے کی مدد سے روسی حکومت یورپ میں نیٹو ممالک کے خلاف جاسوسی اور سبوتاژ کارروائیاں بھی کر رہی ہے، جس میں زیرسمندر کیبلز اور پائپ لائنز کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ روس امریکہ اور سعودی عرب سمیت دنیا میں تیل برآمد کرنے والے تین بڑے ممالک میں شامل ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کے مطابق 2024 میں روس مجموعی طور پر دس فیصد عالمی پیداوار کا ذمہ دار تھا۔
یوکرین جنگ سے پہلے روس کی تمام سمندری برآمدات مغربی ٹینکروں کے ذریعے ہوتی تھیں جن میں اکثریت یونانی ٹینکروں کی تھی۔ ان کا مرکز سوئٹزرلینڈ میں ہوتا تھا جبکہ انشورنس لندن سے حاصل کی جاتی تھی۔
سویڈن کے ساحل کے قریب نیٹو کے بالٹک سینٹری مشن کے تحت بحری جہاز ایچ ایس ڈبلیو ایم ایس کارلسکرونا ایک مال بردار جہاز کی نگرانی کر رہا ہےایس اینڈ پی گلوبل کے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اب 90 فیصد تک عالمی سمندری تجارتی سامان کی انشورنس کرنے والی کمپنیوں سے روسی تیل لے کر جانے والے پانچ میں سے چار ٹینکروں کے پاس انشورنس نہیں ہوتی۔
اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ مغربی پابندیوں کی خلاف وروزی کرتے ہوئے یہ خفیہ بیڑہ روسی تیل کا 80 فیصد تک بیرون ملک پہنچا رہا ہے۔
کیو سکول آف اکنامکس کے سینیئر اکانومسٹ بنجمن ہلگنسٹاک کا کہنا ہے کہ روس نے خفیہ بیڑہ بنایا ہے جو اسے پابندیوں سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا ہے کہ اِس بیڑے میں شامل جہاز پرانے ہیں اور ان کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے یہ پرانے جہاز تیل لیک ہونے کے خلاف مناسب انشورنس بھی شاید نہیں رکھتے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ روسی تیل کی تین چوتھائی برآمدات بالٹک اور بلیک سمندر پر واقع بندرگاہوں سے نکلتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ جہاز روزانہ کئی بار یورپی سمندر سے گزرتے ہیں۔
ایس اینڈ پی گلوبل کا تخمینہ ہے کہ سمندر میں موجود ہر پانچ ٹینکر میں سے ایک روسی خفیہ بیڑے سے تعلق رکھتا ہےایس اینڈ پی گلوبل کا تخمینہ ہے کہ سمندر میں موجود ہر پانچ ٹینکروں میں سے ایک روسی خفیہ بیڑے سے تعلق رکھتا ہے جو گمنام طریقے سے تیل کی سمگلنگ کرتے ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد یعنی نصف روسی تیل اور تیل کی مصنوعات لے جاتے ہیں، جبکہ بیس فیصد ایرانی تیل اور دس فیصد وینیزویلا کا تیل لے جاتے ہیں۔ بقیہ بیس فیصد کسی ایک ملک کے لیے نہیں کام کرتے بلکہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے ممالک سے تیل لے کر جاتے ہیں۔
ان میں سے سب سے بڑا حصہ، جو روس سمیت ایران اور وینیزویلا کے لیے کام کرتا ہے، انڈیا اور چین کا رُخ کرتا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک بھی ہیں اور سمندر کے راستے تیل درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں بھی شامل ہیں۔ روسی تیل خریدنے والوں میں ترکی، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
یہ خفیہ بیڑہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے کیا کرتا ہے؟
یہ جہاز اپنا آٹومیٹک شناختی نظام بند کر دیتے ہیں جو ان کی پوزیشن، رفتار، سمت، نام اور جہاز کی قسم جیسی معلومات ٹرانسمٹ کرتا ہےان اقدامات میں سے ایک یہ ہے کہ بین الاقوامی سمندر میں ایک جہاز سے دوسرے جہاز پر تیل منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں بندرگاہ کے حکام کی نظر نہیں ہوتی اور اکثر ایسا خراب موسمی حالات میں کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کیا سامان منتقل کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ جہاز اپنا آٹومیٹک شناختی نظام بند کر دیتے ہیں جو ان کی پوزیشن، رفتار، سمت، نام اور جہاز کی قسم جیسی معلومات ٹرانسمٹ یعنی فراہم کرتا ہے۔ اکثر یہ جہاز اپنا مقام اس بھونڈے انداز سے بدلتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے یہ جہاز سمندر میں نہیں بلکہ خشکی پر سفر کر رہا ہے۔
کچھ جہاز گوسٹ شپ بن کر اپنا ڈیٹا چھپا لیتے ہیں اور رجسٹریشن فلیگ بدل لیتے ہیں یا پھر کسی فلیگ کے بغیر ہی سفر کرتے ہیں۔ کچھ جہاز ایک ہی ماہ میں کئی بار نام بدل لیتے ہیں۔
کچھ جہاز زومبی شپ بن جاتے ہیں اور منفرد بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن رجسٹریشن نمبر براڈ کاسٹ کر دیتے ہیں جو عام طور پر ایسے جہازوں کو دیا جاتا ہے جن کو ختم کر دیا جانا مقصود ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مردہ شخص کی شناخت کو اپنا لیا جائے۔
غلط شناخت اپنانے والے جہازوں کی تعداد رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 65 فیصد تک تجاوز کر گئی تھی۔ یہ اعداد و شمار میری ٹائم کمپنی ونڈورڈ کی جانب سے جاری کیے گئے جن کا اندازہ ہے کہ اس خفیہ بیڑے میں 1300 بحری جہاز یا کشتیاں شامل ہیں۔
دوسری جانب فلیگ رجسٹریشن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بہت زیادہ فراڈ بڑھا ہے۔ اگرچہ ان میں ایسی کمپنیاں اور جہاز شامل ہیں جو قانونی ہیں تاہم رجسٹریشن جاری کرنے والے بہت سے ممالک کے لیے یہ ایک نیا کام ہے اور ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں کہ وہ تمام جاری ہونے والے فلیگ کی مانیٹرنگ کر سکیں۔
بنجمن ہلگنسٹاک کا کہنا ہے کہ جو ملک فلیگ جاری کرتا ہے اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تکنیکی قواعد و ضوابط کی تکمیل کو یقینی بنائے اور اس بات کو بھی کہ تیل کی لیکج کی انشورنس مناسب ہو۔
ہائبرڈ جنگ اور جاسوسی
کچھ جہاز گوسٹ شپ بن کر اپنا ڈیٹا چھپا لیتے ہیں اور رجسٹریشن فلیگ بدل لیتے ہیں یا پھر کسی فلیگ کے بغیر ہی سفر کرتے ہیںاکتوبر 2025 میں بنین کا فلیگ رکھنے والے ایک ٹینکر پر شک کیا جا رہا ہے کہ اس سے ایسے پراسرار ڈرون اڑے جن کی وجہ سے ڈنمارک میں ایئرپورٹس کو بند کرنا پڑا تھا۔ بوراکے نامی جہاز نے اپنا نام حال ہی میں پشپا سے بدلا تھا۔ اس سے قبل اس کا نام اوڈیسیئس، دی ورونا اور دی کوالا بھی رہ چکا تھا اور یہ سات مختلف فلیگ بدل چکا تھا۔
اس جہاز کو فرانس کے ساحل پر روک لیا گیا تھا اور ملک کے پبلک پراسیکیوٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ جہاز کے عملے نے تعاون کرنے سے انکار کیا تھا اور جہاز کی شہریت پر بھی وضاحت دینے میں ناکام رہے تھے۔
جب فرانسیسی بحریہ نے اس جہاز کو روکا تو علم ہوا کہ اس پر سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب ایک آئل ٹرمینل سے ساڑھے سات لاکھ تیل لادا گیا تھا جو انڈیا جا رہا تھا۔
نیٹو اتحادیوں سویڈن، ناروے اور جرمنی کی فضاوں میں بھی روسی ڈرون دیکھے جا چکے ہیں۔ چھ نومبر کو برسلز ایئرپورٹ کو بھی قریب اڑنے والے ڈرونز کی وجہ سے بند کرنا پڑا تھا۔ یہ ڈرون ایک فوجی اڈے کے قریب بھی دیکھے گئے تھے۔ روس نے یوکرین کے اتحادیوں کے خلاف ہائبرڈ جنگ کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
اس جہاز کے خلاف ہونے والی تفتیش کے بعد نیٹو ممالک نے ایک نیا مشن شروع کیا اور سیکریٹری جنرل مارک رٹ نے کہا کہ جہازوں کے کپتانوں کو سمجھنا ہو گا کہ ہمارے انفراسٹرکچر کو ممکنہ خطرات کے نتائج ہوں گے جس میں ان کو روکا اور حراست میں لینا شامل ہے۔
برطانیہ، ڈنمارک، سویڈن اور پولینڈ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف سمندروں میں جاری ہونے والے انشورنس کی دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، آئس لینڈ، لیٹویا، لتھوینیا، نیدرلینڈز اور ناروے نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ خفیہ روسی بیڑے کے خلاف کام کریں گے کیوں کہ ان کے سمندروں میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کیبلز اور انفراسٹرکچر متاثر ہوا۔
تاہم خفیہ بیڑے میں شامل جہازوں کو صرف بندرگاہ پر یا پھر کسی ملک کے اپنے پانیوں میں ہی روکا جا سکتا ہے جو ساحل سے بارہ ناٹیکل میل تک کا مختصر علاقہ ہوتا ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں ایسا کرنا مشکل ہے کیوںکہ مغربی دنیا نے سمندری سفر کی آزادی کی حمایت کی ہے۔ رائج اصول کے تحت کوئی ملک کسی بحری جہاز کو صرف اسی صورت میں روک سکتا ہے جب انھیں لگتا ہو کہ اس سے سلامتی کو خطرہ درپیش ہے۔
روسی سیاستدانوں نے ملکی تیل لے کر جانے والے ٹینکروں کے خلاف کسی کارروائی کو روس پر حملہ قرار دیا ہے۔ جب اسٹونیا نے حالی برس مئی میں ایک آئل ٹینکر کو روکنے کی کوشش کی تو روس سے ایک لڑاکا طیارہ اڑا جس نے اس کے گرد چکر لگانے شروع کر دیے۔
لیکن اس خفیہ بیڑے کی وجہ سے عالمی سکیورٹی کے علاوہ بھی ایک خطرہ موجود ہے۔
ایک رضاکار آبنائے کرچ میں دو پچاس سال پرانے ٹینکروں سے پانچ ہزار ٹن تیل لیک ہونے کے بعد متاثر ہونے والے ایک پرندے کو صاف کر رہا ہےزیادہ تر کمپنیاں آئل ٹینکر کو پندرہ برس بعد تلف کر دیتی ہیں۔ پچیس سال بعد ان کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں۔لیکن خفیہ بیڑے میں شامل ٹینکروں کو سکریپنگ کے لیے قبول نہیں کیا جاتا۔ دسمبر 2024 میں روسی حکام کو اس وقت مشکل درپیش آئی جب دو پچاس سال پرانے ٹینکروں سے پانچ ہزار تیل لیک ہو گیا تھا۔
ایک سینیئر روسی سائنسدان نے اسے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا ماحولیاتی دھچکا قرار دیا تھا۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ وکٹر ڈینیلو نے ایک مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پہلی بار ہوا کہ ایندھن اتنی مقدار میں لیک ہوا ہے۔
دوسری جانب فنانشل ٹائمر کے مطابق دبئی میں موجود فرنٹ کمپنیاں، جن کے پیچھے روسی تیل کمپنیاں ہوتی ہے، ایسے جہاز خرید لیتی ہیں جن کی عمر ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے نئے ٹینکرز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ پھر نامعلوم یا نئی کمپنیوں کے درمیان انھیں بیچنے اور خریدنے کا عمل شروع ہوتا ہے جس کا مقصد ہوتا ہے کہ احتساب نہ ہو سکے۔ ایسے ٹینکر ناقص ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی نہیں کی جاتی جبکہ ان کے خراب یا بند ٹرانسپونڈرز کی وجہ سے دوسرے ٹینکرز یا جہازوں سے ٹکرانے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
تاہم یہ کاروبار خطروں سے بھرپور ہونے کے باوجود نہایت منافع بخش ہے۔ ایکسکلوسولی شپ بروکرز کے مطابق ایک پندرہ سال پرانا سویزمیکس ٹینکر چار کروڑ ڈالر میں ملتا ہے۔ ایس اینڈ پی کے مطابق بحیرہ اسود سے روسی تیل ایک ماہ میں انڈیا تک پہنچا کر ٹینکر کا مالک پچاس لاکھ ڈالر سے زیادہ کما سکتا ہے۔
ان جہازوں کے خفیہ مالکان منافع تو کماتے ہیں لیکن ممکنہ نقصانات دنیا کو اٹھانا پڑتے ہیں کیوں کہ انشورنس کی غیر موجودگی میں اگر کوئی حادثہ ہو یا تیل لیک ہو جائے تو کسی اور کو یہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
امکان ہے کہ جب کبھی بھی پابندیاں ختم ہوں گی، یہ خفیہ بیڑہ یوں ہی کام کرتا رہے گا اور شاید اس کا دائرہ کار اور وسیع ہو جائے۔ لائڈز لسٹ کے مطابق ایسا ہی ایک اور بیڑہ پہلے ہی سر اٹھا رہا ہے۔ انھوں نے چینی کنٹینر جہاز ہینگ ینگ نائن کی مثال دی جسے اکثر روس کے زیراثر یوکرین اور ترکی کے شہر استنبول کے درمیان دیکھا جا چکا ہے۔
اس آرٹیکل کے لیے اضافی رپورٹنگ بی بی سی ورلڈ سروس کی اولگا سواچک نے کی ہے۔