دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو امید ہے کہ افغان طالبان اپنے ہاں موجود ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کارروائی کریں گے۔
ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرابی نے بتایا کہ افغان طالبان انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، تاہم طالبان کے وعدے اب تک زبانی دعوؤں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مالی اور جانی نقصان کے باوجود غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا مگر دہشت گردوں یا ان کے مددگاروں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہو سکتا۔
ترجمان نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پاکستان کے دشمن ہیں اور پاکستان کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان انتظامیہ پاکستان مخالف تنظیموں کی معاونت کر رہی ہے اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو جائز قرار دینے کے فتوے بھی دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی بھی حکومت سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا، تاہم کسی بھی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وانا اور اسلام آباد میں دہشت گرد حملوں میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی ذمہ داری طالبان حکومت پر عائد ہوتی ہے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے پاکستان تمام ممکنہ اقدامات کرے گا۔
ترجمان نے بھارت کے ایٹمی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے آخری بار 28 مئی 1998ء کو ایٹمی تجربہ کیا تھا، جبکہ بھارت کا ایٹمی سیفٹی ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ گزشتہ برس بھارتی نیوکلئیر ری ایکٹر سے چوری شدہ مواد بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا پایا گیا، جس کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات ضروری ہیں۔
تجارت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت یا ٹرانزٹ ٹریڈ وہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ انسانی جانوں کا تحفظ تجارت سے زیادہ اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان انتظامیہ کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے کشیدگی نہیں چاہتے مگر کچھ گروہ بیرونی مالی حمایت سے دونوں ممالک میں تنازع بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اس صورتحال میں اپنے عوام اور سرحدوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔