عالمی مالیاتی و سیاسی جریدے دی اکانومسٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے کردار پر خصوصی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے نہ صرف عمران خان کی ذاتی زندگی بلکہ ان کے سیاسی انداز حکمرانی پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بشریٰ بی بی کی سیاسی شمولیت تیزی سے بحث کا موضوع بنی اور مخالفین نے ان پر حکومتی فیصلوں میں حد سے زیادہ مداخلت کا الزام لگایا۔ سابق کابینہ کے ایک رکن کے مطابق بشریٰ بی بی نے وزیراعظم ہاؤس پر بھی اثر و رسوخ رکھا۔
سینئر صحافی اوون بینیٹ جونز کی رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی اہم تقرریوں اور روزمرہ سرکاری فیصلوں میں اثرانداز ہوتی تھیں جس سے عمران خان کے فیصلہ سازی کے عمل پر روحانی مشاورت کا رنگ غالب ہوتا گیا۔ نتیجتاً عمران خان اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے۔
رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گھر میں مبینہ عجیب و غریب رسومات شروع ہوئیں، جن میں عمران خان کے سر کے گرد کچا گوشت گھمانا، روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان میں پھینکوانا اور کبھی کبھار زندہ سیاہ بکرے منگوانا شامل ہیں۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بعض اوقات بشریٰ بی بی کے احکامات پر تصاویر کے ذریعے چہرہ شناسی بھی کروائی جاتی تھی اور حتیٰ کہ ایک بار فلائٹ چار گھنٹے تک رکی کیونکہ بشریٰ بی بی کے مطابق پرواز کا وقت موزوں نہیں تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حساس ادارے بھی بشریٰ بی بی کی دلچسپی کا فائدہ اٹھاتے تھے اور بعض معلومات بشریٰ بی بی تک پہنچائی جاتی تھیں جو وہ عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل شدہ قرار دیتیں اور جب پیش گوئیاں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا ان پر اعتماد مزید پختہ ہو جاتا۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی کی شخصیت اور ان کا کردار عمران خان کی سیاسی زندگی اور فیصلوں میں گہرا اثر رکھتا تھا، جس کے اثرات آج بھی پاکستانی سیاست میں بحث کا موضوع ہیں۔