بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیش آنے والا یہ واقعہ نہایت دردناک ہے، جس نے ایک بار پھر اسکولوں میں طلبہ کے ساتھ ہونے والے رویّوں پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ دسویں جماعت کے 16 سالہ طالب علم نے میٹرو اسٹیشن سے کود کر اپنی جان لے لی۔ بعد میں ملنے والے ایک خط نے اس سانحے کو مزید سنگین بنا دیا، کیونکہ لڑکے نے اپنی موت کا براہِ راست ذمہ دار اپنے اسکول کے اساتذہ اور انتظامیہ کو ٹھہرایا تھا۔
اپنے آخری پیغام میں لڑکے نے ماں سے معافی مانگتے ہوئے لکھا کہ وہ انہیں کئی بار دکھ دے چکا ہے اور اب ایک بار پھر دل توڑ رہا ہے۔ اس نے اپنے والد، والدہ اور بھائی سے بھی معذرت کی اور ساتھ ہی یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر اس کے جسم کے کچھ اعضا استعمال کے قابل ہوں تو انہیں عطیہ کر دیا جائے۔ خط میں اس نے واضح طور پر پرنسپل اور دو اساتذہ کے نام درج کرتے ہوئے درخواست کی کہ انہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے، تاکہ آئندہ کوئی دوسرا بچہ اسی اذیت میں مبتلا نہ ہو۔
پولیس کے مطابق لڑکا ہر روز کی طرح صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر اسکول کے لیے گھر سے نکلا۔ لیکن دوپہر میں اہلِ خانہ کو اطلاع ملی کہ وہ میٹرو اسٹیشن کے قریب شدید زخمی حالت میں پایا گیا ہے۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹرز نے اسے مردہ قرار دے دیا۔
لڑکے کے والد نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا ہے کہ تین اساتذہ اور اسکول کی پرنسپل طویل عرصے سے ان کے بیٹے کو ذہنی طور پر ہراساں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک استاد اسے مسلسل اسکول سے نکالنے کی دھمکی دے رہا تھا، دوسرے نے کبھی اسے دھکا دیا تھا، اور ایک موقع پر جب وہ کلاس میں پھسل کر گر گیا تو ایک ٹیچر نے سب کے سامنے اسے تضحیک کا نشانہ بنایا۔ والد کے مطابق جب بچہ روتا رہا تو بھی کسی نے اس کی دلجوئی نہیں کی، جبکہ پرنسپل موقع پر موجود ہونے کے باوجود لاتعلق رہیں۔
والد نے مزید بتایا کہ ان کا بیٹا پہلے بھی گھریلو افراد سے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کی شکایت کر چکا تھا۔ گھر والوں نے اسکول انتظامیہ کو آگاہ بھی کیا تھا مگر کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
نئی دہلی کا یہ سانحہ نہ صرف ایک خاندان کے لیے صدمہ ہے بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے ایک تکلیف دہ سوال بھی کہ جب مدرسے خود بچوں کی ذہنی صحت کے لیے خطرہ بن جائیں، تو پھر ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟