ضیاالحق کا خواب پورا ہونے میں 46 سال لگے

جو خواب جنرل ضیا الحق نے 46 برس قبل ایک برطانوی چینل کے انٹرویو میں بیان کیا تھا آج ہم اس کی ترتیب وار تعبیر قسط وار دیکھ رہے ہیں۔
ضیا الحق
Getty Images
ضیاالحق نے غیر جماعتی مجلسِ شوریٰ سے فوج کو باقاعدہ آئینی کردار دلوانے کی کوشش کی

12 جولائی 1979 کو برطانوی چینل تھیمز ٹی وی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کا انٹرویو نشر کیا۔تب تک انھیں اقتدار سنبھالے دو برس ہو چکے تھے۔

آپ فرماتے ہیں ’آئین میں فوج کا کوئی ایسا آئینی کردار ہونا چاہیے کہ چوتھے مارشل لا کی نوبت نہ آئے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں اس تصور کو مسلط کرنا چاہتا ہوں۔ ہم قانونی نقطہِ نظر سے اس کی اچھے سے چھان پھٹک کر کے ہی سیاستدانوں کے سامنے تجویز رکھیں گے۔ اگر اکثریت اتفاق نہیں کرتی تو ایسا نہیں ہو گا۔‘

سوال: مگر 1973 کے آئین میں ترمیم کے لیے تو دو تہائی اکثریت درکار ہے؟

ضیاالحق: مجھے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سپریم کورٹ نے نظریہ ِ ضرورت کے تحت آئین میں ترمیم کا اختیار دے رکھا ہے۔

سوال: آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں، کیا آئین غیر اسلامی ہے؟

ضیاالحق: اگر آپ تنقیدی گہرائی سے دیکھیں تو خود آئین سازی کا عمل بھی اسلامی نہیں البتہ مسلح افواج کا کردار غیراسلامی نہیں ہو سکتا کیونکہ فوج تو ملک و قوم کی سلامتی کی ضامن ہے۔ ایسا نہیں کہ جرنیل قومی اسمبلی میں بیٹھیں۔ آئیڈیا یہ ہے کہ اہم معاملات پر فوجی قیادت سے مشاورت کے بعد صدر جو فیصلہ کرے اس پر عمل ہو اور ایسا میں آئندہہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

سوال: کیا اس تصور (فوج کا آئینی کردار) کی اسلامی نظریہِ جمہوریت سے کوئی مطابقت ہے؟

ضیاالحق: ہمارا موجودہ نظام بھی خالص اسلامی نہیں۔ یہ ایک طرح کی کھچڑی ہے اور یہ اسی طرح رہے گا۔

ضیاالحق نے بعد ازاں غیر جماعتی مجلسِ شوری سے فوج کو باقاعدہ آئینی کردار دلوانےکی کوشش کی۔ مجلسِ شوریٰ نے مارشل لا اٹھانے کی قیمت کے طور پر آٹھویں آئینی ترمیم کی شکل میں ضیاالحق کو بطور ایک طاقتور صدر 58 ٹو بی کے تحت حکومت اور اسمبلی برطرف کرنے کے صوابدیدی اختیارات تو تھما دیے مگر قومی سلامتی کونسل کا آئیڈیا تسلیم نہیں کیا۔ 58 ٹو بی سے مسلح صدر کو ویسے بھی اس آئیڈیے کے مسترد ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔

1988 میں جماعتی پارلیمانی نظام بحال ہونے کے بعد اگلے صدور اور وزرائے اعظم کے درمیان 58 ٹو بی کی اختیاراتی چھینا جھپٹی جاری رہی۔

اکتوبر 1996 میں سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت نے نیول کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے فوج اور سویلین نمائندوں پر مشتمل نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دی تو دو تہائی اکثریت سے مسلح نواز شریف سرکار نے اتنا غوغا کیا کہ سپہ سالار کو استعفیٰ دینا پڑ گیا مگر اپنی نوعیت کے اس بےمثال واقعے سے فوج کے ذہن میں سیاستدانوں کے تئیں ایک اور گرہ پڑ گئی۔

جہانگیر کرامت کی جگہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا گویا شریف حکومت نے کنوئیں سے بچنے کے چکر میں خود کو کھائی کے کنارے کھڑا کر لیا۔

پرویز مشرف نے بھی بطور ایک طاقتور سپہ سالار و صدر ’نیم ضیائی نظام‘ کے تحت سرکار چلائی تاہم ان کے بعد آنے والے سویلین صدر نے رضاکارانہ طور پر ایوانِ صدر کی طاقت ایوانِ وزیرِاعظمکو منتقل کر دی اور آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت پہلی بار صوبوں کو وفاق سے زائد وسائل (ساڑھے 57 فیصد) منتقل کر کے صوبوں کو کم ازکم مالیاتی طور پر طاقت ور محسوس کروا دیا۔

یہ بھی امید پیدا ہو چلی کہ اب شاید ہر سویلین حکومت نہ صرف آئینی مدت پوری کرے بلکہ ایک سے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی روایت بھی جڑ پکڑ لے مگر جنات حویلی کا قبضہ چھوڑنے پر کسی طور راضی نہ ہوئے۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کے مقدمے کی جراتِ رندانہ نے رہی سہی گیم بھی بگاڑ دی۔ اس کے بعد دھرنا، پی ٹی آئی، پاناما، 2018 کے ہائبرڈ انتخابات، عمران اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر۔

کرنا خدا کا یوں ہوا کہ دس سالہ پروجیکٹ عمران سے ساڑھے تین برس میں ہی دل اوبھ گیا چنانچہ حکومت کی برطرفی کے لیے انھی پرانے آزمودوں کو میدان میں لایا گیا جن سے نجات کے لیے عمران خان کو اتارا گیا تھا مگر سابقین کے برعکس عمران خان سخت اخروٹ نکلا چنانچہ اس کا مکھو ٹھپنے کے لیے ہر ممکن قانونی و بالائے قانون حربے حرکت میں آ گئے۔

اس دورانپھر سے لائے گئے گرگانِ باراں دیدہ کو یہ بات پہلے سے بہتر انداز میں سمجھا دی گئی کہ انتخابی جمہوریت کا تھیٹر چلے گا ضرور مگر تماشائیوں کی فرمائش پر نہیں بلکہ تھیٹر ڈائریکٹر کی مرضی سے۔ بادشاہ اور وزیر، مشیر کی بس اداکاری کرنی ہے اور ڈائیلاگز میں بہت زیادہ امپروائزیشن (بقراطیاں)بھی نہیں کرنی۔ خود کو دلیپ کمار نہیں سمجھنا۔ سب نے کہا جی سر، جی سر ہم سمجھ گئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان
BBC
27ویں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ سمیت ہر عدالت پر لاگو ہیں

مگر نئی ڈرائنگ میں خود سر عدلیہ کو لگام دیے بغیر رنگ نہیں بھرے جا سکتے تھے۔ 2006 کی عدلیہ آزادی تحریک نے جہاں پرویز مشرف کے پاؤں اکھاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا وہیں نئی عدلیہ کو اتنا مغرور اور بار کو اتنا متشدد بنا دیا کہ سب کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ عدلیہ اور بادشاہ گر اسٹیبلشمنٹ کا روایتی گٹھ جوڑ پہلی بار ٹوٹتا دکھائی دیا۔

یکے بعد دیگرے آنے والے چیف جسٹسوں نے کریز سے باہر نکل کے جاوید میاں داد بننے کی کوشش کی۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی تاریِخ میں پہلی بار عدلیہ مخالف سیاستداں-اسٹیبلشمنٹ الیون بن گئی۔

یہ تو ماننا پڑے گا کہ موجودہ بادشاہ گر اسٹیبلشمنٹ پہلے سے کہیں سیانی ہے۔ وہ سابقین کی طرح محض ڈنڈے اور دھمکی سے کام نہیں نکالتی بلکہ معیشت و سیاست پر ٹوٹل کنٹرولکے لیے ڈنڈے کے ساتھ ساتھ سٹرٹیجک صبر اور تدبیر سے بھی کام لے رہی ہے۔

پہلے اس نے عمران خان سے روایتی پولٹیکل کلاس کو پٹوانے کا کام لیا۔ پھر نو مئی کے ڈنڈے سے عمران خان کو پیٹا اور پھر روایتی پولٹیکل کلاس پر آٹھ فروری کے انتخابات کا احساندھر کے ووٹ کو عزت دو بھی انھی کے جوتوں تلے رگڑوا دیا۔

اب نو مئی کے ڈنڈے کی یوں ضرورت نہیں کہ اس کی جگہ دس مئی کی بنیان المرصوص فتحنے لے لی ہے۔ اس نعمتِ غیر مترقبہ کے سبب نہ صرف درپیش بیرونی مسائل بیرونی وسائل میں تبدیل ہو رہے ہیں بلکہ اندرونِ ملک سیاسی کلاس کو اپنی حیثیت کے بارے میں جو رہا سہا زعم یا غرہ تھا وہ بھی پانی ہو گیا۔

اسی لیے 26ویں کے بعد 27ویں ترمیم سے آئین کو مکھن کی ٹکیہ کی طرح آسانی سے کاٹ دیا گیا۔ جو ایجنڈا 26ویں میں پورا نہیں ہو پایا وہ پی ٹی آئی کی محفوظ نشستوں کی بندربانٹ کے ذریعے دو تہائی اکثریت بنوا کر مولانا فضل الرحمان کا مرہونِ منت ہوئے بغیر 27ویں ترمیم کی شکل میں مزید مکمل ہو گیا۔

یہ ترامیم ممکن نہیں تھیں اگر بیزار جنتا کا آٹھ فروری کے بعد سیاست و عدالت سے اعتماد نہ اٹھتا۔ سیاست کے گرگانِ باراں دیدہ کو بھی سمجھ میں آ گیا کہ طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے لہٰذا بچت اور فائدہ اسی میں ہے کہ مزاحمت کا کیڑا دماغ سے نکال کر مرحمت کی آس پر شفٹ ہو جاؤ۔ دنیا دکھاوے کے لیے پارلیمان نامی ادارےکی چھت تلے تھوڑا بہت شور مچالو اور پھر جس تنخواہ کی پیشکش ہو قبول کر لو۔

گذشتہ ایک برس کی آئینی پیش قدمی کو اگر عسکری سائنس کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہضروری نہیں کہ دس کے دس اہداف ایک ساتھ حاصل ہو جائیں۔ ان میں سے جو بھی اہداف آسانی سے حاصل ہو رہے ہیں انہیں ہولڈ کرو، مستحکم کرو اور پھر باقی اہداف پر پوری توانائی مرکوز کرو۔

آپ کو یاد ہو گا کہ 27ویں ترمیم کا مسودہ پیش ہونے سے پہلے بلاول بھٹو کا ایک ٹویٹ آیا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 243 اور وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے ساتھ ساتھ صوبوں کے لیے مالیاتی وسائل فراہم کرنے والے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی اور تعلیم و آبادی کی وزارتوں کو مرکز کے حوالے کرنے کے نکات کا بھی بیان تھا۔

مگر پیپلز پارٹی چونکہ نظریاتی طور پر این ایف سی ایوارڈ سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھی لہٰذا دو تہائی اکثریت یقینی بنانے کے لیے این ایف سی ایوارڈکو 27ویں ترمیم کا حصہ نہیں بنایا گیا تاکہ پیپلز پارٹی اسے اپنی فتح کے طور پر ووٹروں کے سامنے پیش کر سکے۔

بلاول اور شہباز شریف
BBC
پیپلز پارٹی نظریاتی طور پر این ایف سی ایوارڈ سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھی

مزید خیر سگالی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جادو کے زور پر پیپلز پارٹی کی حکومت بنوا کے پیدا کر لی گئی۔چنانچہ پیپلز پارٹی نے خوشی خوشی آرٹیکل 243 میں فوجی قیادت کے حسبِ خواہش ترامیم بھی منظور کر لیں اورمیثاقِ جمہوریت کی فتح کے طور پر وفاقی آئینی عدالت کی مارکیٹنگ بھی کر لی ۔

اب فضا بنائی جا رہی ہے 28ویں ترمیم کی کیونکہ حتمی ایجنڈے کے کچھ نکات ابھی باقی ہیں۔ این ایف سی میں ردوبدل اور تعلیم و آبادی کی وزارتوں پر وفاقی کنٹرول کی آرزو کےساتھنئے انتظامی یونٹوں کی ضرورت کا ستار بھی بجنا شروع ہو گیا ہے۔

دھن وہی ہے، موت دکھا کے بخار قبول کروانے کی۔ یعنی اگر تم فی الحال صوبوں کی مزید انتظامی تقسیمنہیں چاہتےتو پھر این ایف سی میں وفاق کی حصہ داری بڑھانے کا کوئی راستہ نکالو۔

اگر یہ سیاسی طور پر مشکل ہے تو پھر قومی قرضوں کی ادائیگی اور ملکی دفاعمستحکم بنانے کے نام پر اپنے طے شدہ آئینی حصے میں سے سالانہ اتنی رقم نکالو جتنی این ایف سی ایوارڈمیں رد و بدل کی شکل میں مرکز کو درکار ہے۔ اس فارمولے سے این ایف سی ایوارڈ کی ظاہری صورت بھی برقرار رہے گی اور مرکز کی اضافی مالی ضرورت بھی کسی حد تک پوری ہوتی رہے گی۔

اگر تم نہ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی چاہتے ہو اور نہ ہی وفاق کو کسی اور طریقے سے مطلوبہ رقم دینا چاہتے ہو تو پھر ہمیں نہ کہنا اگر کسی روز کوئی شہری یا تنظیم یا ادارہ تمہاری اپنی ہی بنائی ہوئی وفاقی آئینی عدالت میں یہ درخواست دائر کر دے کہ قومی اقتصادی و دفاعی سلامتی و استحکامکی خاطر این ایف سی ایوارڈکے فارمولے پر نظرِ ثانی کا حکم جاری کیا جائے۔

واضح رہے کہ 27ویں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ سمیت ہر عدالت پر لاگو ہیں۔

اس بابت جوش میں آ کر کوئی بھی متنازع سیاسی کارڈنکالنے سے پہلے اولاد کے شاندار سیاسی مستقبل کی امنگ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ نئے پاکستان میں صرف دو عہدوں کو تاحیات آئینی و عدالتی استثنیٰ حاصل ہے، باقی سب فانی ہیں۔

جو خواب جنرل ضیا الحق نے 46 برس قبل تھیمز چینل کے انٹرویو میں بیان کیا تھا آج ہم اس کی ترتیب وار تعبیر قسط وار دیکھ رہے ہیں۔

زیرِ شمشیرِ ستم میر تڑپنا کیسا

سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US