خیبر پختونخوا اسمبلی نے محکمہ ثقافت، سیاحت، آثارِ قدیمہ اور عجائب گھر سے متعلق قائمہ کمیٹی کی اہم رپورٹ کی منظوری دے دی، لیکن اجلاس میں پانی، بجلی منافع، تیل کے حصے اور صوبائی حقوق پر اپوزیشن نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
گلیات سے پنجاب مری جانے والے روزانہ لاکھوں گیلن پانی کا معاملہ ایوان میں گونجتا رہا، جبکہ اپوزیشن نے خبردار کیا کہ اگر صوبائی حقوق پر عمل نہ ہوا تو گلیات میں احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔
منگل کے روز خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس اس وقت خاصا گرما گیا جب محکمہ ثقافت، سیاحت، آثارِ قدیمہ اور عجائب گھر سے متعلق قائمہ کمیٹی رپورٹ کمیٹی چیئرمین شرافت علی نے ایوان میں پیش کی۔ رپورٹ پیش ہوتے ہی اراکین نے صوبائی حقوق اور وسائل کے معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد کندی نے کہا کہ آئین، بجلی منافع، پانی کا حصہ اور تیل میں ہمارے صوبے کا حق واضح ہے، مگر صوبے کی اپنی حکومت ہی ہمارے مقدمے کو کمزور کررہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گلیات سے روزانہ پانچ لاکھ گیلن پانی پنجاب کے مری کو جارہا ہے لیکن صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ حکومت کلاس فور کی سیاست میں مصروف ہے۔ ہمارے حقوق کون لے کر دے گا؟ اگر کمیٹی رپورٹ پر عمل نہ ہوا تو گلیات میں صوبائی حکومت کے خلاف بیٹھ کر دمادم مست ہوگا اور حقوق کے لیے سخت احتجاج کریں گے۔
کمیٹی چیئرمین شرافت علی نے کہا کہ اپنے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ رپورٹ پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو باضابطہ طور پر سفارشات بھجوائی گئی ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جہاں مسائل ہیں وہاں نشاندہی بھی کی جائے گی، کیونکہ بعض معاملات سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں اور صوبے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
قائمہ کمیٹی کے رکن رجب علی عباسی نے گلیات کے پانی کے مالی معاملات اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ گلیات کا پانی پنجاب لے جایا جا رہا ہے مگر اس کا حصہ خیبر پختونخوا حکومت کو نہیں دیا جاتا۔ ان کے مطابق پانی کی مد میں 63 ارب روپے صوبے کے واجب الادا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گلیات کے اپنے مکین آج بھی گڑھوں سے پانی بھرنے پر مجبور ہیں، جبکہ جی ڈی اے اپنا پانی فراہم کرنے کے باوجود ساڑھے تین کروڑ روپے بجلی بل ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نتھیا گلی جیسا بین الاقوامی سیاحتی مقام ہے مگر یہاں تعلیم اور صحت کا کوئی نظام نہیں۔ وفاق اور پنجاب حکومت پر دباؤ ڈال کر پانی کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے اور 63 ارب روپے کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔