شنگھائی ایئرپورٹ پر چینی امیگریشن حکام کی جانب سے ایک انڈین شہری کو روکنے کے معاملے پر انڈیا اور چین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
شنگھائی ایئرپورٹ پر چین کے امیگریشن حکام کی جانب سے ایک انڈین شہری کو روکنے کے معاملے پر انڈیا اور چین کے درمیان باضابطہ طور پر سخت جملوں اور بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔
منگل کو چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اِن خبروں کی تردید کی جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ چینی امیگریشن حکام نے انڈین ریاست اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون پریما وانگجوم تھونگڈوک کو شنگھائی ہوائی اڈے پر زیر حراست رکھا اور انھیں ہراساں کیا۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا ہے کہ ’متعلقہ کیس کے حوالے سے ہمیں موصول ہونے والی معلومات کے مطابق چین کے امیگریشن حکام نے قوانین اور ضوابط کے مطابق (خاتون سے متعلق) اپنی تحقیقات کیں۔ قانون پر منصفانہ انداز میں عمل کیا گیا اور خاتون کے جائز حقوق کا مکمل تحفظ کیا گیا۔ نہ تو انھیں حراست میں لیا گیا اور نہ ہی ہراساں کیا گیا۔‘
چین کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ چینی فضائی کمپنی نے اُس خاتون کو آرام کرنے کے لیے جگہ اور کھانا وغیرہ بھی فراہم کیا تھا۔ جبکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چین نے ’اروناچل پردیش پر انڈیا کے ناجائز قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔‘
وزارت خارجہ کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’زنگنان‘ چین کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ چین انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ قرار دیتا ہے اور اسے ’زنگنان‘ کے نام سے پکارتا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اروناچل پردیش انڈیا کا حصہ ہے اور ’چین کا (اس ضمن میں) انکار حقیقت نہیں بدل سکتا۔‘
انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والی پریما وانگجوم شنگھائی ایئرپورٹ سے جاپان جا رہی تھیں جب ان کے بقول انھیں امیگریشن حکام کی جانب سے روکا گیا تھا۔
پریما کو شنگھائی ایئرپورٹ پر کیوں روکا گیا؟
پریما انڈین شہری ہیں جو فی الحال برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے انڈین خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا کہ وہ تقریباً 14 برس سے برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن انھوں نے اپنی انڈین شہریت برقرار رکھی ہوئی ہے۔
خاتون کے مطابق 21 نومبر کو یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ لندن سے جاپان جا رہی تھیں اور اس سفر کے دوران انھیں شنگھائی ہوائی اڈے پر جاپان کے لیے جہاز بدلنا تھا۔
پریما نے دعویٰ کیا کہ جب وہ امیگریشن کی قطار میں کھڑی ہوئیں تو حکام نے انھیں لائن سے نکال کر ایک الگ جگہ بٹھا دیا کیونکہ اُن کے انڈین پاسپورٹ پر جائے پیدائش کا مقام اروناچل پردیش لکھا ہوا ہے۔
اُن کے مطابق چینی حکام نے ان سے کہا کہ ارونا چل پردیش ’انڈیا کا نہیں، چین کا حصہ ہے‘ اور اس لیے ان کا پاسپورٹ جائز نہیں اور وہ چاہیں تو چین کا پاسپورٹ لے سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ لندن سے 12 گھنٹے کے سفر کے بعد شنگھائی پہنچی تھیں مگر پھر شنگھائی میں مزید ’تین گھنٹے کا سٹاپ اُن کے لیے عذاب بن گیا تھا۔‘ اُن کا الزام ہے کہ حکام نے انھیں جاپان کی پرواز پر سوار ہونے کی اجازت نہیں دی اور انھیں 18 گھنٹے تک بغیر کچھ کھائے پیے ہراساں کرتے رہے۔
منگل کو چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین نے اروناچل پردیش پر ’انڈیا کے ناجائز قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا‘پریما نے مزید دعویٰ کیا کہ چینی امیگریشن حکام نے انھیں وہاں سے جاپان جانے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد انھوں نے لندن میں اپنے ایک دوست کی مدد سے انڈین سفارتخانے سے رابطہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انڈین سفارتخانے کے اہلکاروں نے بھی ایئرپورٹ پر اُن سے ملاقات بھی کی۔
پریما کے بقول انھیں امیگریشن حکام نے شنگھائی سے واپس لندن اسی چینی ایئر لائن سے بھیج دیا جس سے وہ شنگھائی پہنچی تھیں۔
انڈیا کی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق انڈیا نے اس واقعے پر شنگھائی اور دلی میں چینی سفارخانے سے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ انڈیا نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ اروناچل پردیش انڈیا کا غیر متنازعہ علاقہ ہے۔
اروناچل پردیش کی حیثیت پر چین اور انڈیا کے بیانات
چین کی وزارت خارجہ نے پریما کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی حکام نے جو بھی اقدامات کیے تھے وہ قوانین اور ضوابط کے دائرے میں تھے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ’متعلقہ خاتون پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ انھیں حراست میں نہیں رکھا گیا۔ انھیں ہراساں نہیں کیا گیا جس کا انھوں نے الزام لگایا ہے۔
انڈیا کے شمال مشرق میں واقع اروناچل پردیش کو چین کی جانب سے ’جنوبی تبت‘ کہا جاتا ہے اور اسے ’زینگنان‘ کا نام دیا گیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں اروناچل پردیش پر چین کے دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’زینگنان چین کا علاقہ ہے۔ چین کبھی بھی نام نہاد ارونا چل پردیش پر انڈیا کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کرتا۔‘
دوسری جانب انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے چینی موقف پر سخت ردعمل دیا ہے۔
منگل کی شب جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اروناچل پردیش کی خاتون کے پاس انڈیا کا مستند پاسپورٹ تھا مگر انھیں بغیر کسی قانونی جواز کے حراست میں رکھا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اروناچل پردیش انڈیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔۔۔ چین کی طرف سے کسی بھی قسم کا انکار اس ناقابل تردید حقیقت کو بدل سکتا۔‘
’حراست کا معاملہ چین کے ساتھ سختی سے اٹھایا گیا ہے۔ چینی حکام ابھی تک اپنے ان اقدامات کی وضاحت نہیں کر سکے جو بین الاقوامی ہوائی سفر کے حوالے سے کئی کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔‘
رندھیر جیسوال نے مزید کہا کہ ’چینی حکام کے اقدامات ان کے اپنے ضوابط کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں جو تمام ممالک کے شہریوں کے لیے 24 گھنٹے تک ویزا فری ٹرانزٹ کی اجازت دیتے ہیں۔‘
ادھر اروناچل پردیش کے وزیراعلی پیما کھنڈو نے اس واقعے کو انڈین شہریوں کی توہین اور بین الاقوامی ضوابط کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع بہت پرانا ہے۔ انھیں حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان درجنوں بار مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن سرحدی تنازعات کا ابھی تک کوئی حل نہیں سکا ہے۔
مئی 2020 کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان وادی گلوان میں خونریز جھڑپ ہوئی تھی جس میں 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔
چین نے اس واقعے کے بعد اروناچل پردیش کے درجنوں قصبوں، گاؤں، پہاڑوں اور دریاؤں کے نام بدل کر انھیں چینی نام دے دیے ہیں۔
’انڈیا پورا کشمیر اور سندھ لینے کی بات کر رہا ہے اور چین اروناچل پردیش کو چھیننے کی دھمکی دے رہا ہے‘
اس معاملے پر انڈین سوشل میڈیا پر صارفین اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بہت سے انڈین صارفین نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ چین کے حالیہ بیان اور ایئرپورٹ پر پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں چین کے خلاف بیانات سے بڑھ کر ٹھوس اقدامات لے۔
صارف اشوک سوائن نے لکھا کہ ’جہاں وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کے وزرا پورے کشمیر اور سندھ کو انڈیا کا حصہ بنانے کی باتیں کر رہے ہیں، وہیں چین اروناچل پردیش کو انڈیا سے چھیننے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اور اس معاملے پر مودی اور اُن کے وزیر خارجہ خاموش ہیں۔‘
انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بیان کا کلپ شیئر کرتے ہوئے ’ایکس‘ پر لکھا کہ عوامی سطح پر دیے گئے اس چینی بیان کو ایسے ہی نہیں جانے دیا جانا چاہییے۔
ایک صارف نے لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ’چین نے انڈیا کو اروناچل پردیش، اتراکھنڈ اور لداخ وغیرہ پر سرحد کا تعین کرنے کی کبھی اجازت دی ہی نہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘