ٹی ٹی پی کے میڈیا چینلز پر خاموشی: تحریکِ لبیک پاکستان فورس سمیت پاکستان میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری کرنے والے نئے گروہ کون سے ہیں؟

خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں کم از کم تین نامعلوم یا کم پہچانے جانے والے گروہ سامنے آئے ہیں جو ان علاقوں میں حملوں کی ذمہ داری لے رہے ہیں جہاں پہلے عموماً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اتحاد المجاہدین پاکستان (آئی ایم پی) سرگرم تھے۔
ٹی ٹی پی
Getty Images

خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں کم از کم تین نامعلوم یا کم پہچانے جانے والے گروہ سامنے آئے ہیں جو ان علاقوں میں حملوں کی ذمہ داری لے رہے ہیں جہاں پہلے عموماً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اتحاد المجاہدین پاکستان (آئی ایم پی) سرگرم تھے۔

دوسری جانب، ٹی ٹی پی کے میڈیا چینلز پر غیر معمولی خاموشی نظر آ رہی ہے۔ اس کا روزانہ آنے والا نیوز لیٹر ’منزل‘ گذشتہ کئی دن سے حملوں کی تفصیلات شائع نہیں کر رہا اور ’آپریشن الخندق‘ کا پیغام بھی 27 اکتوبر سے بند ہے۔ تنظیم نے اس خاموشی کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔

تاہم 22 نومبر کو ٹی ٹی پی کے نیوز لیٹر ’منزل‘ نے بنوں میں ہونے والے ایک حملے کا ذکر کرتے ہوئے غیر معمولی مبہم زبان استعمال کی اور صرف یہ کہا کہ یہ حملہ ’طالبان‘ نے کیا تھا اور گروپ کے مطابق اس میں سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان ہوا۔

27 اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی نے کسی حملے کی ذمہ داری لینے کا اشارہ دیا۔

17 نومبر کو ٹی ٹی پی کے حامی ایک ٹیلی گرام چینل ضربِ مومن نے 31 اکتوبر کی تاریخ سے متعدد اپ ڈیٹس شیئر کیں جن میں نئے سامنے آنے والے گروہوں دفاعِ قدس، انصار الجہاد اور تحریکِ لبیک پاکستان فورس کی جانب سے حملوں کے دعوے اور پراپیگنڈا شامل تھا۔

اس کے علاوہ بھی کچھ نئے عسکری گروہ سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی امارت پروٹیکشن فورس نامی گروہ، جس کا چینل 29 اکتوبر کو بنایا گیا، شمالی و جنوبی وزیرستان، ٹانک، دیر، پشاور اور خیبر میں حملوں کے دعوے کر رہا ہے۔

یہ وہ علاقے ہیں جہاں پہلے عام طور پر ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔

ان نئے دعووں اور چینلز کے سامنے آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو بڑی تنظیمیں جیسے ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی اپنے حملوں کو نئے ناموں سے منسوب کر رہی ہیں، یا پھر ان کے اندر سے نئے دھڑے یا گروہ وجود میں آرہے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جب ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کی جانب سے حملوں کے دعوے کم ہو گئے ہیں۔

قدس کا دفاع

ٹی ٹی پی
Getty Images

’دفاعُ القدس‘ یا لشکرِ دفاع کے نام سے ایک گروہ نے 31 اکتوبر سے 20 نومبر کے درمیان پاکستانی فوج پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ گروہ کا الزام ہے کہ یہ حملے پاکستانی فوج کے اُس مبینہ کردار کے جواب میں ہیں جسے وہ ’اسرائیل کا ساتھ دینے والا اور فلسطینیوں کا قاتل‘ قرار دیتا ہے۔

یہ گروہ خود کو فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ایک سخت مؤقف رکھنے والی تنظیم کے طور پر پیش کرتا ہے اور حملوں کے دعوے ’ابو عبیدہ پاکستانی‘ نامی ترجمان کے ذریعے جاری کرتا ہے۔

اس گروہ کا موجودہ ٹیلی گرام چینل 30 اکتوبر سے فعال ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ تنظیم اسی تاریخ کو بنی تھی یا اس سے پہلے وجود میں آ چکی تھی۔

اگرچہ گروہ نے اپنے پیغامات میں فلسطین سے یکجہتی کو نمایاں طور پر استعمال کیا لیکن اس کے حملوں کے دعوے زیادہ تر انھی علاقوں میں سامنے آئے جہاں روایتی طور پر ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی سرگرم رہے ہیں۔

17 نومبر کو ٹی ٹی پی کے حامی ٹیلی گرام چینل ضربِ مومن نے رپورٹ کیا کہ 30 اکتوبر کو دفاعِ القدس نے دیر، خیبر اور لکی مروت میں مربوط حملے کیے۔ اس کے بعد 6 نومبر کو بنوں اور باجوڑ میں مزید کارروائیاں کی گئیں۔

9 نومبر کو ایک بڑا حملہ رپورٹ ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ دفاعِ القدس نے بنوں میں ایک فوجی قافلے کو نشانہ بنایا اور مبینہ طور پر 10 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے۔

11 سے 15 نومبر کے دوران ضربِ مومن نے بنوں میں مزید چار حملوں کے لیے بھی دفاعِ القدس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

16 نومبر کو دفاعِ القدس نے دعویٰ کیا کہ اس نے 12 سے 15 نومبر کے دوران خیبر کے علاقے تیراہ میں پاکستانی فوجی دستوں کو مقامی گھروں میں محصور کر دیا تھا۔

ضربِ مومن نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی جو اس کے چینل اور ایکس پر وائرل تھی۔ اس میں اسلحہ بردار دفاعِ القدس جنگجو پشتو میں پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عام شہریوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

ویڈیو کے آخر میں بنوں کے ایک پولیس افسر کو سامنے لاکر گولیاں مار کر قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

انصار الجہاد

انصار الجہاد پاکستان میں قائم ایک نئی شدت پسند تنظیم ہے جو 2023 میں اس وقت سامنے آئی جب ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی کارروائیاں بڑھ رہی تھی۔

گروہ نے اپنی تشکیل کے وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستانی شدت پسندوں کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کرے گا بلکہ غیر ملکی جنگجوؤں کو بھیج کر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف جاری جنگ کو مضبوط کرے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی کی غیر معمولی خاموشی کے تناظر میں، اب ایسا لگتا ہے کہ انصار الجہاد جیسے گروہ طویل وقفے کے بعد دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں تاکہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔

ضربِ مومن ٹیلی گرام چینل کے مطابق 2 سے 15 نومبر کے درمیان خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں باجوڑ، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری انصار الجہاد نے قبول کی۔

گروہ کے ترجمان عبداللہ انصاری جو 2023 میں سامنے آئے تھے، حالیہ حملوں میں بھی انھیں ہی ترجمان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پرانا گروہ دوبارہ فعال ہو گیا۔

تحریکِ لبیک پاکستان فورس

ٹی ٹی پی
Getty Images

تحریکِ لبیک پاکستان فورس (ٹی ایل پی ایف) ایک نیا عسکری گروہ ہے جسے ابتدا میں پنجاب کی مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا عسکری ونگ سمجھا گیا تھا تاہم 20 نومبر کو سامنے آنے والی ویڈیو میں ٹی ایل پی ایف نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ٹی ایل پی سے کوئی باضابطہ تعلق نہیں۔

گروہ نے حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کی قیادت میں ہونے والے فلسطین کے حق میں مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے جواب میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے کی اپیل کی۔

یہ مظاہرے ملک بھر میں توجہ کا مرکز بنے لیکن ریاستی کارروائی کے بعد مختلف شدت پسند گروہوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ٹی ایل پی سے کہا کہ وہ پرامن احتجاج چھوڑ کر مسلح جدوجہد اختیار کرے اور یہ بھی کہا کہ یہ اسلامی مقاصد کے حصول اور ریاستِ پاکستان کے خلاف واحد راستہ ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ٹی ٹی پی کی پنجاب میں اپنی موجودگی بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ویڈیو میں خود کو ٹی ایل پی ایف کا حصہ بتانے والے مسلح افراد نے کہا کہ ان کا ٹی ایل پی سے کوئی باضابطہ تعلق نہیں لیکن زیادہ تر ارکان پہلے ٹی ایل پی کا حصہ رہے اور اب بھی اس تحریک کا احترام کرتے ہیں۔

ویڈیو میں محمد حسنین رضوی نامی شخص نے پاکستانی فوج پر الزام لگایا کہ مظاہروں کے دوران مارے گئے افراد کی لاشیں غائب کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹی ایل پی پرامن سیاسی جماعت ہے اور ٹی ایل پی ایف کا مقصد فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنا کر ان ہلاکتوں کا بدلہ لینا ہے۔

اسی دوران 17 نومبر کو ضربِ مومن نے حملوں کے جو دعوے شائع کیے انھیں بھی ٹی ایل پی ایف کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ یہ دعوے ایک ترجمان خالد حسین رضوی کے نام سے کیے گئے تاہم رضوی کی شناخت کے بارے میں کوئی قابلِ تصدیق معلومات سامنے نہیں آئیں۔

ضربِ مومن کے مطابق ٹی ایل پی ایف نے 31 اکتوبر سے 16 نومبر کے درمیان خیبر پختونخوا کے پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع میں حملوں کا دعویٰ کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اس گروہ کی خاصی سرگرمی دیکھی گئی۔

اپنے دعووں میں 5 نومبر کو گروہ نے الزام لگایا کہ اس نے پشاور میں ایک ’جاسوس‘ کو پکڑا اور اسے صرف اس وقت رہا کیا جب اس نے وعدہ کیا کہ وہ گروہ کے خلاف سرگرمیاں بند کر دے گا۔

11 نومبر کو ایک اور دعوے میں کہا گیا کہ گروہ نے پشاور میں فوجی اہلکاروں کو حراست میں لیا اور مقامی شہریوں کو خبردار کیا کہ ’جو بھی فوجی اہلکاروں کو کہیں لے جاتے، پناہ دیتے یا ان کی شناخت چھپاتے ہوئے پایا گیا، اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا۔‘

کیا پرانے گروہ مذاکرات کے دوران شناخت بدل رہے ہیں؟

یہ نئے دعوے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اتحاد المجاہدین پاکستان (آئی ایم پی) کی میڈیا سرگرمیاں کافی کم ہو گئی ہیں جس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔

ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی اور آئی ایم پی پاکستان افغانستان مذاکرات کے دوران اپنے حملوں یا دیگر کارروائیوں کو چھپانے کے لیے اپنی شناخت یا انداز بدل رہے ہیں، یا پھر چھوٹے دھڑے اور موقع پرست گروہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔

کچھ گروہ فلسطین کی حمایت کے پیغامات استعمال کر کے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم بی بی سی ان میں سے اکثریت کے دعوؤں کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US