پالاؤ اُن درجن بھر ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے تائیوان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا ہے، جو کہ چین کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستون ’ون چائنہ‘ پالیسی کے خلاف ہے کیونکہ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے۔
پالاؤ کی اہم بندرگاہپالاؤ کے صاف شفاف پانیوں سے نمکین سی خوشبو آتی ہے اور کورور نامی اس کے کاروباری مرکز میں پرسکون صبح میں کسی بھی کشتی کے انجن کی دور سے آتی آواز سنی جا سکتی ہے۔
چند برسوں قبل تک یہ کشتیاں چین سے آنے والے سیاحوں سے بھری ہوتی تھیں جو لائم سٹون سے بنی غاریں اور پالاؤ میں لاگون علاقے کو دیکھنے آتے تھے۔ ہوٹل بھرے ہوتے تھے، ریستورانوں میں چل پہل ہوتی تھی اور ماہی گیر بامشکل ہی سمندری خوراک کی طلب پوری کر پاتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
اس علاقے کا عروج اور زوال کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے۔
سنہ 2015 سے 2017 کے دوران یہاں آنے والے سیاحوں میں سے تقریباً نصف چینی شہری ہوتے تھے۔ پھر 2017 میں چین نے ٹور آپریٹرز کو پالاؤ کے سیاحتی پیکج فروخت نہ کرنے کی ہدایت جاری کیں۔
سیاحت اس جزیرے کی آمدن کا اہم ترین ذریعے تھا، لیکن اُسے بند کر دیا گیا۔
کورور کے علاقے میں غوطے خوری کے کاروبار کے مالک نے بتایا کہ ’میں نے سیاحوں کی تعداد میں یکدم اضافے کے سبب نئی کشتیاں خریدیں لیکن سیاحت کا مرکز بننے کے بعد اب حال یہ ہے کہ کشتیاں کنارے پر کھڑی ہیں اور ان کی خریداری پر لگائے گئی رقم واپس ملنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔‘
پالاؤ کے حکام کا الزام ہے کہ یہ پیغام بہت واضح ہے کہ چین نے سیاحت کو ایک مہم کے طور پر استعمال کیا تاکہ پالاؤ جزیرہ تائیوان کو تسلیم نہ کرے اور اس معاملے پر چین کے مؤقف کی حمایت کرے۔

بی بی سی نے اس سلسلے میں چین کی وزرات خارجہ سے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن تاحال کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
تاہم ماضی میں چین سیاحت کو سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کرنے کی تردید کرتا رہا ہے۔
پالاؤ اُن درجن بھر ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے تائیوان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا ہے، جو کہ چین کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستون ’ون چائنہ‘ پالیسی کے خلاف ہے کیونکہ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے۔
لیکن یہ صرف سفارتی جنگ نہیں ہے۔
پالاؤ کا جغرافیائی محل وقوع اُسے دنیا کی بڑی ریاستوں کے مابیناثر و رسوخ کی رسہ کشی کا ایک اہم میدان بناتی ہے۔
یہ نام نہاد ’جزیروں کی دوسری چین (زنجیر)‘ کے درمیان واقع ہے جسے امریکہ مغربی بحرالکاہل میں چین کی جارحیت کو روکنے کے لیے ایک اہم پوسٹ سمجھتا ہے۔
پالاؤ اور امریکہ کے مابین تاریخی تعلق1994 میں ملنے والی آزادی سے پہلے کا ہے کیونکہ آزادی سے قبل پالاؤ امریکہ کی ملکیت تھا۔
کومیپکٹ آف فری ایسوی ایشن نامی معاہدے کے تحت پالاؤ واشنگٹنکو امداد کے بدلے خصوصی فوجی رسائی دیتا ہے، جبکہ پالاؤ کے شہری امریکہ میں آزادانہ طور پر رہنے اور کام کرنے کے اہل ہیں۔
اسی معاہدے کے تحت امریکہاب جزیرہ نما پالاؤ میں اپنے فوجی قدموں کو مضبوط کر رہا ہے۔
پولاؤ کے صدر، سورنجیل وہپس جونیئرچین، تائیوان اور امریکہ کے مابین جیو پولیٹکل کشمکش نے 20 ہزار نفوس پر مشتمل اسی چھوٹی سے قوم کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔
پولاؤ کے صدر، سورنجیل وہپس جونیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چاہے ہم کچھ بھی کر لیں اپنی لوکیشن کے سبب پولاؤ کسی نہ کسی عسکری سرگرمی کا مرکز رہے گا۔‘
بحرالکاہل کا انعام
تائیوان کی نیشنل ڈونگ ہو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر چینگ چینگ لی نے پالاؤ اور تائیوان کے تعلقات پر کافی ریسرچ کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پالاؤ کا تعلق تائیوان سے بہت گہرا ہے اور جب سنہ 1994 میں پالاؤ آزاد ہوا تو سب سے پہلے تائیوان نے ہی اس سے سفارتی تعلق قائم کیا۔
انھوں نے بتایا کہ تائیوان کے زرعی ماہرین کی ٹیم نے معاونت کے لیے مقامی افراد کے ساتھ مل کر کام کیا، میڈیکل ٹیم نے چھوٹے چھوٹے کلینک بنائے، مقامی کاروباری افراد کو فنڈ دیا اور طالبہ کو سکالرشپ پر تائیوان بلوایا۔
ایک کم آبادی والے ملک میں جہاں کمیونٹی پر مبنی سروس مرکزی کردار ادا کرتی ہے ، پالاؤ کے حکام تائیوان کو ہمیشہ ’قابل اعتماد پارٹنر‘ اور ’قابل اعتماد دوست‘ قرار دیتے ہیں۔
پالاؤ میں تائیوان کی سفیر جیسیکا لی نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی رہنماؤں نے انھیں یقین دلایا ہے کہ ’جب تک موت ہمیں جدا نہیں کرتی یہ تعلق چٹان کی طرح مضبوط ہے۔‘
ان تمام چیزوں کے باوجود بھی تائیوان کے پریشان ہونے کی کئی وجوہات موجود ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران چین نے تائیوان کے کئی سابق اتحادیوں کو اس سے الگ کر دیا ہے۔
صرف بحرالکاہل کے علاقے میں جزائر سلیمان، کریباتی اور نورو نے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے اورسنہ 2019 میں بیجنگ کے ساتھ ہو گئے۔
دوسری جانب چین جمہوری طرز حکومت کے حامل جزیرے تائیوان کو اپنا ایک صوبہ سمجھتا ہے۔ چین اپنے مقصد کے حصول کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، تائیوان کو کنٹرول کرنا صدر شی جن پنگ کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہےکیونکہ وہ نوآبادیاتی طاقت جسے کو چین کی 'ذلت کی صدی قرار دیتے ہیں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
تائیوان کی مالی معاونت سے بننے والی سرکاری عمارت امریکہ اور تائیوان دونوں ہی پالاؤ کے ممکنہ مؤقف پر تشویش کا شکار ہیں۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے سینیئر فیلو گریم سمتھ کا کہنا ہے کہ ’وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت وسائل خرچ کریں گےکہ ایسا نہ ہو۔‘
پالاؤ اور تائیوان دونوں میں حکام کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے پالاؤ کی سفارتی پوزیشن پر اثر انداز ہونے کے لیے کئی طرح کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
سنہ 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پالاؤ کے صدر نے عوامی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ چین نے اس مقصد (تائیوان کو تسلیم نہ کرنے) کے لیے پالاؤ کو دس لاکھ سیاح دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔
پھر 2024 میں چین کی وزارت خارجہ نے ایک حفاظتی انتباہ جاری کیا، جس میں چینی شہریوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پالاؤ کا سفر کرتے وقت ’احتیاط کریں۔‘
صدر وہپس جونیئر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگر چین سیاحت کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے تو یہ ایک غیر مستحکم صنعت بن جاتی ہے جس پر ہمیں انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر چین پالاؤ کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے تو وہ یہ قائم کر سکتا ہے لیکن وہ ہمیں یہ نہیں بتا سکتا کہ ہم تائیوان کے ساتھ تعلقات نہیں رکھ سکتے۔‘
تاہم چین سیاحت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے انکار کرتا ہے۔
حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار پیپلز ڈیلی میں گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک کالم میں کہا گیا تھا کہ انتباہ جاری کرنے کا مقصد بیرون ملک جانے والے شہریوں کا تحفظ ہے کیونکہ ’پالاؤ میں عوامی سکیورٹی سے متعلق کیسز میں آضافہ ہو رہا ہے‘۔
کالم میں کہا گیا تھا کہ پالاؤ کے صدر کے الزامات چین کو بدنام کرنے اور اس کے ملکی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ سے جب 2017 میں ٹور گروپس پر عائد پابندی کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو ترجمان نے کہا کہ انھوں نے ’اس صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔‘
لیکن 2024 میں پالاؤ کی جانب سے تائیوان کو مسلسل تسلیم کرنے کے جواب میں چین کی وزارتِ خارجہ نے پالاؤ پر زور دیا تھا کہ ’وہ درست فیصلے کریں جو ان کے اپنے... مفادات کے مطابق ہوں۔‘
پالاؤ کے علاقے کرورو کے جزیروں کا فضائی منظراگرچہ چین نے دس لاکھ سیاحوں کی مبینہ پیشکش پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن دوسری جانب تمام حلقے صدر وہپس جونیئر کے اندازوں سے متفق نہیں ہے۔
بی بی سی کے ساتھ بات کرنے والے کئی مقامی افراد نے سیاحت کے بارے میں صدر کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
کرورو میں ہوٹل کے مالک پائی لی نے کہا کہ ’چین کے بارے میں صدر کا رویہ بہت سخت گیر ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کہنا درست ہے کہ چین سیاحت کو ہتھیار بنا رہا ہے بلکہ وہ اسے بھاؤ تاؤ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، بالکل ویسے جیسے لوگ شطرنج کھیلتے ہیں، ممالک ہر وقت یہی کرتے ہیں۔‘
چین سے آنے والے ٹور گروپس کی معطلی سے پالاؤ کو سخت معاشی دھچکہ لگا لیکن ماضی میں اچانکسیاحوں کی آمد بڑھنے سے ماحولیات کو بھی بہت نقصان ہوا تھا۔
پالاؤ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہ علاقہبڑے پیمانے پر سیاحت کے لیے تیار نہیں تھا۔
مقامی این جی او ایبیل سوسائٹی کی ڈائریکٹر این سنگیو نے بتایا کہ ’چینی سیاحت کے خاتمے کے بعد جب میں وہاں گیا تو کورل مر چکے تھے۔‘
’آپ اس چھوٹے سے کونے میں (سینکڑوں) لوگوں کو دیکھیں گے، جو سب کورلز پرکھڑے ہیں۔ یہ وہ قیمت تھی جو ہم نے ادا کی تھی کیونکہ ہمارے پاس وہ اصول و ضوابط نہیں تھے کہ ہم انوسائل کو احترام کے ساتھ استعمال کرتے۔‘
اس کشمکشں میں سیاحت ایک اایک چیز ضرور ہے لیکن بیجنگ بھی مقامی رہنماؤں کے ساتھ تعلقاتمضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پالاؤ کے حکام کا کہنا ہے کہ متعدد بار انھیں بیجنگ مدعو کیا گیا ہے۔
ایسے ہی ایک دورے پر پالاؤ کے ایک سابق گورنر کے مطابق انہوں نے چین کے حکام سے پوچھا کہ تائیوان آزاد کیوں نہیں ہو سکتا۔
جس پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہلکار نے غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ ’تائیوان چین کا حصہ ہے۔‘
پالاؤ اور چین کے درمیان تعلقات اور امریکہ
تائیوان کے ارد گرد چین کی بڑھتی ہوئی فضائی اور سمندری عسکری سرگرمیوں پر امریکہ کا کہنا ہے کہ چین تائیوان پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی افواج کو تیار کر رہا ہے۔
تائیوان کے خلاف چین کی ممکنہ جارحیت اور مغربی بحرالکاہل میں مجموعی طور پر فوجی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے امریکہ نے پالاؤ میں اپنے فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر تیز کر دی ہے۔
گذشتہ کئی برسوں کے دوران واشنگٹن علاقے میں موجود اپنی ہوائی پٹیوں کو اپ گریڈ کر رہا ہے اور بحرالکاہل کے علاقوں میں مانیٹرنگ بہتر کرنے کے لیے ریڈار سسٹم کو فعال کر رہا ہے۔ اس کی جانب سے پالاؤ میں بندرگاہ کو وسیع کرنے کا کام بھی جاری ہے تاکہ بحری بیٹرے لنگر انداز ہو سکیں۔
تاہم امریکہ کی طرف سے ایک خاص خطرے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، جس میں زمین کا حصول شامل ہے۔
بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ متعدد چینی کاروباری اداروں نے امریکی سائٹس کے قریب زمینوں کو لیز پر لیا ہے اور جائیدادیں بنائی ہیں۔ انھوں نے غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لے کر ساحل پر قائم ہوٹل اور ہوائی اڈے کے قریب بھی زمینیں لی ہیں۔
مثال کے طور پر پالاؤ کی جنوبی ریاست انگوار میں جہاں امریکہ نے 2017 میں ریسیور سائٹ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ سنہ 2019 اور 2020 میں چینی سرمایہ کاروں نے ریڈار کی تعمیر کے اعلان کے بعد یہاں 350,000 مربع میٹرسےزیادہ رقبےلیز پر لیا تھا۔
انگوار کے علاقے میں امریکی ریسور سائٹ کی تعمیرایک چینی سرمایہ کارزوہانگ سیہوگ کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں ایک ریزورٹ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ ریزورٹ کبھی بھی تعمیر نہیں ہوا اور چینی سرمایہ کار تاخیر کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کو قرار دیتے ہیں، لیکن واشنگٹن اس بات پر پریشان ہے۔
پالاؤ میں امریکی سفیر نے اس معاملے پر جواب نہیں دیا لیکن اس سے قبل انھوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکی سفیر جوئیل ایرنڈریچ نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا تھا کہ ’چاروں طرف زمین کے مختلف قطعے اُن لوگوں نے لیز پر لیے ہیں جو چین کے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی اتفاق ہے بلکہ اس کا مقصد ہمارے پراجیکٹ کے قریب رہنا ہے۔‘
اس معاملے پر مقامی طور پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
پالاؤ کے قومی سلامتی کے مشیر جینیفر آنسن نے کہا ہے کہ ’تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری یا لیز کسی جائز کاروبار کے لیے نہیں ہیں لیکن اگر کوئی ایسا وقت آتا ہے کہ چین تائیوان میں داخل ہوتا ہے تو یہ فوجی مقامات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم چینی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پالاؤ میں سرمایہ کاری کرنے کی جائز وجوہات موجود تھی۔
سنہ 2019 میں ریاستی براڈکاسٹر فینکس نیوز نے بھرپور سیاحتی وسائل اور سہل قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے پالاؤ میں جائیداد خریدنے کے فوائد بیان کیے تھے۔
بی بی سی چینی سرمایہ کار زوانگ سے رابطہ نہیں کر سکا ہے جبکہ چین کی وزارت خارجہ نے زمین کی لیز سے متعلق معاملات پر بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔

سفارتی تعلقات نہ ہونے کے سبب منظم جرائم میں اضافہ
پالاؤ میں حکام کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 سے چینی باشندوں سے منسلک افراد کی جانب سے یہاں منظم جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صدر وہپس جونیئر نے سکیمنگ، جوئے کے اڈوں اور سائبر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مسلسل جنگ جاری ہے۔‘
کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ مجرموں نے چین اور پالاؤکے درمیان سفارتی تعلقات کی کمی کا بھی فائدہ اُٹھایا ہے۔
وان کوک کوئی، جنھیں ’بروکن ٹوتھ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ سنہ 2018 میں ایک غیر ملکی سرمایہ کار کے طور پر پالاؤ آئے اور یہ کرائم سنڈیکیٹ بعد میں پالاؤ سمیت مختلف ممالک میں رشوت لینے، بدعنوانی اور آن لائن جوئے میں ملوث ہوا۔
2025 میںامریکی محکمہ خزانہ نےپالاؤ میں چینی کمپنی پرنس گروپ سے روابط رکھنے پر متعدد افراد پر پابندیاں عائد کیں۔ اس گروپ پر الزام ہے کہ وہ سکیمنگ، منی لانڈرنگ، صنعتی پیمانے پر انسانی سمگلنگ میں ملوثہے۔
بی بی سی نے موقف جاننے کے لیے پرنس گروپ سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا لیکن اس سے قبلکمپنی نے اپنے بیان میں کسی بھی غیر قانونی سرگرمیمیں ملوث ہونے کی ’واضح طور پر‘ تردید کی ہے۔
ان گروپ کے بہت سے افراد کو پالاؤ نے ’ناپسندیدہ اجنبیوں کی فہرست‘ میں شامل کیا ہے۔
بڑی طاقتوں کا مہرہ
امریکہ کی فوجی منصوبوں میں توسیع، چینی سرمایہ کاری، اور خفیہ ایجنڈوں کی افواہیں یقینی طور پر وہ وجوہات ہیں جس نے پالاؤ میں بے چینی کے بڑھتے ہوئے احساس کو جنم دیا ہے۔
امریکہ کی ایک ریڈار سائٹ کے مخالف انگوار کے سابق گورنر نے کہا کہ ’اس انتظامیہ کا موقف چین کے لیے بہت سخت ہے لیکن میرے خیال میں یہ مضحکہ خیز ہے۔ ہمیں چین اور امریکہ سے تعلقات پر توجہ کم کرنے کے بجائے۔ ماحولیات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘
حالیہ مہینوں میں گردش کرنے والی ایک پٹیشن میں واشنگٹن سے جنگ کی صورت میں اپنے ہنگامی منصوبوں کی تفصیلات کے بارے میں پوچھا گیا تھا، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بے چینی کتنی گہری ہے۔ اس میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’پالاؤ کو لوگوں کو یقین دلائیں‘ کہ اگر تنازع شروع ہوتا ہے تو شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
پالاؤ کے ایک رہائشی نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان جغرافیائی سیاست کیسی ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ ہمارا جزیرہ ایسی جنگ سے تباہ ہو جائے گا جس کا ہم حصہ نہیں بننا چاہتے۔‘