پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر ایک اضافی نوٹ لکھا ہے جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیوں کا سخت ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر ایک اضافی نوٹ لکھا ہے جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیوں کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
سات صفحات پر مشتمل اس اضافی نوٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے اپیل کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو درست قرار دیا، جس میں مجرم کو نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم انھوں نے یہ بھی لکھا کہ لڑکے اور لڑکی کا لیونگ ریلیشن شپ نہ صرف معاشرتی بگاڑ ہے بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے لکھا کہ لیونگ ریلیشن شپ کا تصورمعاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور آج کل کی نوجوان نسل کو اس واقعہ (نور مقدم قتل کا مقدمہ) سے سبق سیکھنا چاہیے۔
نور مقدم قتل کے مقدمے کے مدعی اور نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم کے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے اس اضافی نوٹ سے ان کے موکل کی دل آزاری ہوئی۔
یاد رہے 20 جولائی 2021 کو سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کو قتل کر دیا گیا تھا اور اسی روز پولیس نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کیا تھا جنھیں فروری 2022 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مجرم ظاہر جعفر کو قتل کے علاوہ ریپ میں بھی سزائے موت سنائی تھی تاہم جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپیل کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کی ریپ کے تحت دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جبکہ قتل کی دفعات کے تحت ظاہر جعفر کو دی گئی سزا کو برقرار رکھا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل ابھی زیر سماعت ہے۔
ظاہر جعفر کو فروری 2022 میں سزائے موت سنائی گئی تھیبی بی سی سے بات کرتے ہوئےوکیل شاہ خاور نے کہا کہ جب ٹرائل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک مجرم ظاہر جعفر کا 342 کے تحت دیا گیا بیان جھوٹ پر مبنی قرار دیا گیا تو پھر سپریم کورٹ کے معزز جج کو مجرم کے اس بیان کا حوالہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔
واضح رہے کہ مجرم ظاہر جعفر نے ٹرائل کورٹ میں 342 دیے گئے بیان میںکہا تھا کہ وہ نور مقدم کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں تھے۔
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ عدالت کسی بھی ملزم کا 342 کے تحت دیا گیا بیان یا تو درست مانتی ہے یا اسے بالکل غلط قرار دیتی ہے۔
شاہ خاور نے کہا کہ اگر عدالت کسی ملزم کے بیان کو درست تسلیم کر لے تو اس کو عدالت کی طرف سے ریلیف ملتا ہے اور اگر کسی بیان کو غلط یا جھوٹ قرار دے دے تو پھر اسے سزا سنائی جاتی ہے جس طرح نور مقدم کے مقدمے میں ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی گئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس اضافی نوٹ کے بارے میں چیف جسٹس کو لکھیں گے تو شاہ خاور کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ان کے اپنے موکل کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی ہو گا۔
’جج کا کام اخلاقی نوٹ لکھنا یا درس دینا نہیں‘
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج نے اپنے اضافی نوٹ میں لیونگ ریلیشن شپ کے بارے میں لکھا اور وہ سب مفروضوں پر مبنی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کسی بھی جج کا یہ کام نہیں کہ وہ محض مفروضوں کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرے۔
انھوں نے کہا کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان کسی بھی قسم کا تعلق یہ کہیں بھی ظاہر نہیں کرتا کہ دونوں لیونگ ریلیشن شپ میں رہ رہے ہیں۔
وہ گھر جہاں نور مقدم کو قتل کیا گیا تھافرزانہ باری کا کہنا تھا کہ اگر اعلی عدلیہ کے کسی جج کی سوچ بھی لڑکے اور لڑکی کے تعلقات کے حوالے سے معاشرے میں پائی جانے والی عام سوچ کی طرح ہی ہو تو پھر وہ کیسے عوام کی اصلاح کے حوالے سے اپنی سوچ مسلط کر سکتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی شمائلہ خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی عدالت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی متاثرہ شخص کے بارے میں اس طرح کی بات اپنے فیصلے یا اضافی نوٹ میں لکھے یا مقدمے کی سماعت کے دوران اس طرح کے ریمارکس دیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سکرٹ کا ذکر کرتے ہوئے خواتین کی بےحرمتی کرنے کی کوشش کی تھی تاہم خواتین کی طرف سے سخت ردعمل آنے کے بعد انھوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے۔
شمائلہ خان کا کہنا تھا کہ جج کا کام اخلاقی نوٹ لکھنا یا درس دینا نہیں بلکہ ان کا کام قانون پر بات کرنا ہے۔
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے اضافی نوٹ میں لیونگ ریلیشن شپ کی بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جج بھی مجرم ظاہر جعفر کے اس بیان کو درست مان رہے ہیں کہ نور مقدم مجرم کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں تھی تو پھر اس جرم کے تحت مجرم کو جو عمر قید کی سزا سنائی گئی، وہ غلط ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس صورت میں تو یہ مقدمہ ریپ کا نہیں بلکہ باہمی رضامندی کا بنتا ہے۔
بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کے اس اضافی نوٹ کو دیکھا جائے تو مجرم کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 376 کے تحت جو عمر قید کی سزا سنائی گئی، وہ قانون کے مطابق نہیں اور مجرم کے خلاف 496 اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا جو کہ ان کے بقول ایک قابل ضمانت جرم ہے۔