فیصل آباد میں بیٹے کے ہاتھوں باپ کا مبینہ قتل: پولیس کو آٹھ سال بعد گھر میں دفن ہڈیاں کیسے ملیں؟

پاکستان کے شہر فیصل آباد کے تھانہ سٹی جڑانوالہ میں پولیس اہلکاروں کو اس وقت حیرت ہوئی جب شراب فروشی کے شبے میں تھانے میں طلب کیے گئے ایک شخص نے دورانِ تفتیش اپنے باپ کے قتل کا اعتراف کیا۔
قتل
Getty Images

پاکستان کے شہر فیصل آباد کے تھانہ سٹی جڑانوالہ میں پولیس اہلکاروں کو اس وقت حیرت ہوئی جب شراب فروشی کے شبے میں تھانے طلب کیے گئے ایک شخص نے دورانِ تفتیش اپنے باپ کے قتل کا اعتراف کیا۔

جس شخص کے قتل کا اعتراف کیا جا رہا تھا وہ نہ تو پولیس کے ریکارڈ میں لاپتہ تھا اور نہ ہی اس کی گمشدگی کی کوئی درخواست وصول ہوئی تھی۔

ابتدائی طور پر پولیس کو شبہ ہوا کہ والد کے قتل کا اعتراف کرنے والا شخص شاید کسی دباؤ میں یا اپنی جان چھڑوانے کے لیے ایسی بات کر رہا ہے مگر پولیس کو علاقہ مکینوں سے پوچھ گچھ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے والد آٹھ سال سے اپنے گھر نہیں آئے۔

جب پولیس نے ملزم سے پوچھا کہ والد کی لاش کہاں ہے تو انھیں جواب ملا کہ ’ہم نے تو لاش کو گھر میں ہی گڑھا کھود کر دفنا دیا تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اس بیان کے بعد 26 نومبر کو زیرِ حراست شخص کے گھر کی کھدائی شروع کی گئی اور دو روز بعد یعنی 28 نومبر کی شام گھر کے نیچے سے کچھ ہڈیوں پر مشتمل ایک لاش کی باقیات برآمد ہوئیں۔

پولیس کے مطابق یہ ہڈیاں پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال جڑانوالہ بھجوائی گئی ہیں اور لاہور میں قائم پنجاب فرانزک لیب سے ڈی این اے کے معائنے کے بعد یہ معلوم ہوسکے گا کہ آیا یہ ہڈیاں زیرِ حراست ملزم کے والد کی ہیں۔

شراب فروشی کا الزام جو قتل کے مقدمے میں بدل گیا

تھانہ سٹی جڑانوالہ کے ایس ایچ او انسپکٹر یوسف شہزاد سپرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ جو کہاوت بنی ہوئی ہے کہ قتل کبھی چھپ نہیں سکتا اور ایک نہ ایک دن سامنے آ کر رہتا ہے، وہ کہاوت اس کیس میں پورا اترتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کو تو اس شخص کے بارے میں کوئی ایسا شبہ نہیں تھا کہ اس نے اپنے باپ کا قتل کیا ہو لیکن اس کے گھر میں کچھ دنوں سے اس کی ایک بہن نے ایسا کہنا شروع کر رکھا تھا کہ ’تم نے میرے باپ کو مارا، میں پولیس میں تمہاری رپورٹ کروں گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس خاتون نے ’پولیس میں رپورٹ تو نہ کی لیکن ملزم علاقے کے ایک شہری کی طرف سے شراب فروشی کی شکایت پر تھانے بلایا گیا۔‘

’جب اس سے تفتیش شروع کی گئی اس وقت اس کے ذہن میں اپنی بہن کی یہی بات چل رہی تھی۔‘

تفتیشی آفیسر انسپکٹر یوسف شہزاد سپرا نے بتایا کہ انھوں نے روایتی تفتیش کرنے کے انداز میں زیرِ حراست شخص سے کہا تھا کہ ’ہمیں تمارے بارے میں سب پتا ہے کہ شراب فروشی کے علاوہ تمہارے اور کیا جرائم ہیں۔ ہمیں سب علم ہو گیا ہے۔ اب تم بچ نہیں سکتے۔‘

یوسف شہزاد سپرا کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک نفسیاتی حربہ ہوتا ہے جو زیرِ حراست شخص پر آزمایا جاتا ہے۔‘

’چونکہ ان کے گھر میں پہلے سے ان کی ایک بہن ان دنوں یہ مسلسل کہہ رہی تھی کہ میں نے پولیس کو سب بتا دینا ہے کہ تم باپ کے قاتل ہو، تو ایسے میں اس کے دماغ میں آ گیا کہ اس کی بہن نے ہی پولیس کو مخبری کر دی ہے اور یہ نہ ہو اب یہ (پولیس اہلکار) اس کے ساتھ مار پیٹ والا حربہ استعمال کریں جس پر اس نے خود سب بتا دیا۔‘

پولیس افسر نے بتایا کہ ’ان لوگوں نے کچھ سال پہلے گھر کی مرمت کروائی تھی اور گھر کے اندرونی حصے کو ملبہ ڈال کر اونچا کرلیا تھا جس وجہ سے جب اسے پولیس ٹیم کی موجودگی میں گھر لے جایا گیا، تو اسے کچھ اندازہ بھی نہ ہو پا رہا تھا کہ باپ کی لاش کو کہاں دفن کیا گیا۔‘

پولیس نے کرین منگوائی اور 26 نومبر کو گھر کے ایک کمرے کی کھدائی شروع کی لیکن لاش وہاں سے نہ ملی۔ کھدائی کے دوران اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ کہیں دیواریں اور چھت ہی نہ نیچے آ گرے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مکان کے مختلف حصوں کی کھدائی تین روز تک مسلسل کی جاتی رہی اور بالآخر 28 نومبر کی شام کامیابی مل گئی۔ مکان کے ایک حصے سے کافی گہرائی میں جا کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا جسے کرائم سین انویسٹیگیشن کی ایک ٹیم نے اپنے قبضے میں لے لیا اور زیرِ حراست ملزم کی گرفتاری ڈال دی گئی۔‘

پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ ’جب تک مقتول کی باقیات نہ ملتیں ہم کیسے یقین کر لیتے کہ اس نے باپ کو قتل کیا ہے اور لاش گھر میں ہی دفن کردی ہے تاہم باقیات ملنے سے اس کے ابتدائی بیان یا پولیس حراست میں اعتراف جرم کی تصدیق ہوگئی تھی۔‘

پولیس نے ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے۔

عدالت میں پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ملزم سے اس قتل کے بارے تفتیش کرنی ہے اور وقوعہ کے شریک ملزمان کے بارے چھان بین بھی کی جانی ہے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ اب تک آلہ قتل برآمد نہیں کیا گیا۔

بہن کی مدعیت میں مقدمہ درج اور والدہ ’چشم دید گواہ‘

تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی مدعی مقتول کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کے قتل کا الزام بھائی، بہن اور بہنوئی پر عائد کیا ہے۔

مقدمے کے متن میں دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان اکثر والد کو تشدد کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد گھر واپس آ گئی تھیں اور والد کے بارے میں دریافت کرنے پر انھیں بتایا گیا کہ وہ ’بغیر بتائے گھر سے کہیں چلے گئے ہیں۔‘

مگر وہ کہتی ہیں کہ والدہ نے انھیں بتا دیا تھا کہ کچھ سال قبل تینوں ملزمان نے والد کو ’تشدد کر کے قتل کر دیا تھا اور لاش کو گھر کے رہائشی کمرے میں گڑھا کھود کر دفنا دیا تھا۔‘

اس مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 کے علاوہ 201 بھی لگائی گئی ہے جو کسی جرم کو چھپانے سے متعلق ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں مقدمے میں مدعی کی والدہ چشم دید گواہ ہیں۔

پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر دو کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔’کیس کی جامع تحقیقات کی جائیں گی تاکہ اگر کوئی اور ملزم بھی شریک ہوا تو اسے بھی حراست میں لیا جا سکے۔‘

’پولیس حراست میں اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘

علامتی تصویر
Getty Images

خیال رہے کہ فوجداری قوانین کے ماہر سید خالد جاوید ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پولیس حراست میں اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اگر یہ اعترافی بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دیا گیا ہو تو اس کو قانونی طور پر درست مانا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس اکثر مار پیٹ کر کے یا نفسیاتی طور پر دباؤ ڈال کر زیرِ حراست ملزمان سے اقرار جرم تو کروا لیتی ہے لیکن عدالت میں اسے مستند نہیں مانا جاتا۔‘

سید خالد جاوید ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’کسی اندھے قتل کے کیس میں پولیس کو گواہوں کے بیانات اور فرانزک لیب کی رپورٹوں سے استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے اور اگر گواہان بھی منحرف ہو جائیں تو کیس کمزور پڑ جاتا ہے۔‘

ماہر قانون کے مطابق ’اگر اس کیس میں ہڈیوں کے ڈی این اے کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مرنے والا شخص واقعی ملزم کا والد ہے تو گھر میں رہنے والے تمام افراد ’قانون کی نظر میں ملزم قرار پائیں گے، چاہے وہ قتل کے جرم میں شریک نہیں بھی تھے مگر انھوں نے جرم کو چھپایا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US