یہ پہلا موقع نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راجلگانے کی بات کی گئی ہو۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد سے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے دور میں بھی بارہا صوبے میں گورنر راج لگانے کی قیاس آرائیاں سامنے آتی رہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راجلگانے کی بات کی گئی ہوپاکستان میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر صوبہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ابتدائی طور پر دو ماہ کے لیے گورنر راج ہو گا جس میں بعد میں توسیع ہو سکتی ہے۔‘
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ صوبے میں دہشت گردی، سکیورٹی اور گورننس کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ’معاملات گورنر راج کی طرف جا رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے حلف اٹھانے کے بعد اور اس کے بعد اڈیالہ میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقاتوں کی کوشش میں ناکامی کے بعد ایسے بیانات دیے ہیں جن سے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کے اشارے ملے۔ انھوں نے آج یعنی 2 دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے۔
خیال رہے یہ پہلا موقع نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راجلگانے کی بات کی گئی ہو۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد سے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے دور میں بھی بارہا صوبے میں گورنر راج کی قیاس آرائیاں سامنے آتی رہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کی حکومت کی جو توجیہات ہیں، وہ کافی نہیں اور بدترین سکیورٹی حالات میں بھی جمہوریت کو مضبوط کرنا ضروری ہے، فوجی آپریشن یا گورنر راج سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
وزیر مملکت برائے قانون نے کیا کہا؟
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ یہ اب صدر مملکت کا اختیار ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت یہ اقدام اٹھاتے ہیں یا نہیں۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی صورتحال سب کے سامنے ہے، صوبے میں ایسا انتظامی ڈھانچہ ہونا چاہیے جو کچھ فائدہ تو دے۔ انھوں نے کہا کہ ’کب تک صوبے کے شہریوں کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے۔‘
بیرسٹر عقیل ملک کا مزید کہنا تھا کہ ’گورنر راج شدید ضرورت کی صورت میں لگایا جاتا ہے، صوبے کے حالات اس کا تقاضا کر رہے ہیں۔‘
وزیر مملکت نے کہا کہ ماضی میں پنجاب میں بھی گورنر راج لگانے کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کی حکمران جماعت نے اس وقت اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام قرار دیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا حوالہ تاریخی حقیقت کے طور پر دے رہے ہیں کہ ایسا ہوا تھا۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے صوبے میں گورنر راج کے حوالے سے خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’گورنرراج لگانا چاہتے ہیں تو آج ہی لگا دیں۔‘
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شفیع جان نے کہا کہ ’گورنر راج جیسے ایڈوینچر کی کوشش پر ردعمل انھیں پتا چل جائے گا۔‘
وفاق کے ساتھ رابطے میں رہیں تو گورنر راج کا امکان نہیں: فیصل کریم کنڈی
اعظم نذیر تارڑ بھی پارلیمنٹ میں گورنر راج کے امکانات پر بات کر چکے ہیںخیبر پحتونخواکے گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ صوبے میں گورنر راج نافذ ہو گا یا نہیں اس کا انحصار صوبائی حکومت کے رویے پر ہے اگر سکیورٹی اور دیگر معاملات میں وفاق کے ساتھ رابطے میں رہیں گے تو گورنر راج کا امکان نہیں ہو گا۔
فیصل کریم کنڈی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں مسائل ضرور پائے جاتے ہیں جہاں سکیورٹی کے معاملات کے علاوہ صوبے کو درپیش مالی مشکلات یا این ایف سی میں صوبے کے حقوق پر بات کرنا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر وزیر اعلی خیبر پختونخوا ایک صوبے کے وزیر اعلی کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے اور وفاق کے ساتھ ملیں گے، ان کے ساتھ بات چیت کریں گے تو پھر گورنر راج کا امکان نہیں ہوگا لیکن اگر وزیر اعلی کم اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما یا ورکرکے طور پر رویہ اختیار کریں گے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے وزیر اعلی کو چاہیے کہ پارٹی کو الگ رکھیں اور حکومتی کردار بہتر طور پر نبھائیں۔
ان سے جب پوچھا کہ آپ کی باتوں سے ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ جیسے وفاقی حکومت گورنر راج کی باتیں کر کے خیبر پختونخوا حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ صوبائی حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں حکومت وفاق کے ساتھ مل کر صوبے کے حقوق کی بات کرے اور صوبے میں امن کےلیے کام کریں۔
انھوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ صوبہ کسی کے احکامات پر چلے بلکہ صوبے کے مفادات اور حقوق کی باتیں وفاق کے سامنے رکھی جائیں اور صوبے میں امن کے لیے کام کریں کیونکہ اس وقت صوب میں جنگ کی صورتحال ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ صوبے کو اس کے حقوق ملیں۔
فیصل کریم کنڈی سے جب پوچھا گیا کہ یہاں ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے درمیان فارمولا طے ہے جس میں کشمیر پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا مسلم لیگ نون کو دیا جائے گا تو انھوں نے کہا کہ ایسی صورتحال نہیں۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر میں حکومت ہمیں خیرات میں نہیں ملی، کشمیر میں ہمارے پاس اراکین تھے تو ہم نے حکومت بنائی، پنجاب میں پی ایم ایل این کے پاس اکثریت ہے ہم ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے عہدے کا اختیار پارٹی کے چیئرمین کے پاس ہے اور ’مجھے جیسے کہا جائے گا میں وہی کروں گا۔‘
انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے این ایف سی اجلاس میں شرکت کے فیصلے کو مثبت اقدام قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام توقع کرتے ہیں کہ ان کے وزیر اعلیٰ اپنی توانائیاں گورننس، عوامی خدمات کی فراہمی اور ان کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف کریں گے۔
گورنر کا کہنا تھا ک ’ہمارا آئینی ڈھانچہ صوبائی سطح پر موثر طرز حکمرانی میں طویل خلا کی اجازت نہیں دیتا۔‘
انھوں نے امید ظاہر کی کہ ’وفاقی فورم پر اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ، وزیر اعلیٰ اب صوبے کے روزمرہ کے امور اور فلاح و بہبود پر زیادہ مضبوط اور مستقل توجہ کا مظاہرہ کریں گے۔‘
’سکیورٹی حالات ٹھیک نہیں تو صوبے میں جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے‘
صحافی اور تجزیہ کار منیزے جہانگیر کا ماننا ہے کہ حکومت خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے لیے جو توجیہات پیش کر رہی ہے وہ کافی نہیں۔
بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اگر صوبے میں سکیورٹی حالات ٹھیک نہیں تو ایسے میں صوبے میں جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ آپ اسے کم کر دیں۔
منیزے کہتی ہیں کہ ’ماضی میں گورنر راج کے تجربات اچھے نہیں رہے اور شدت پسندی سے صوبے کے لوگوں نے لڑنا ہے، لہذا آپ کو انھیں اعتماد میں لینا ہو گا۔ فوجی آپریشن سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔‘
ان کے مطابق ’حال ہی میں جو فوجی آپریشن کیے گئے، ان کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلا اور آخر کار شدت پسندی سے لڑنے کے لیے مقامی انتظامیہ سے مذاکرات کر کے انھیں اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔‘
وہ پوچھتی ہیں کہ اگر عوام میں آپ کی جڑیں ہی نہ ہوں تو آپ شدت پسندی سے کیسے لڑیں گے؟
https://twitter.com/fkkundi/status/1995176514241933434?s=20
منیزے کا ماننا ہے کہ حکومت گورنر راج کی باتیں اس لیے کر رہی ہے کیونکہ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ حکومت اور اداروں سے تعاون کرنے پر آمادہ ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک دھمکی ہے کیونکہ قانون کے مطابق آپ 180 دن یا تقریباً چھ مہینے تک اسمبلی کو معطل کر سکتے ہیں اور اس کے بعد اسمبلی پھر سے بحال ہو جائے گی اور معاملات وہیں کے وہیں ہوں گے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق ’حکومت کو اب تک کوئی پختہ امیدوار نہیں ملا جو چھ مہینے کے لیے گورنر بننے اور اپنی کریڈیبلٹی داؤ پر لگانے پر راضی ہو۔‘
منیزے کہتی ہیں کہ پی پی پی گورنر راج کو غیر جمہوری عمل سمجھتی ہے تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا وہ گورنر راج قبول کرے گی؟
’اگر وہ اسے قبول کرتی ہے تو اس کی ساکھ مزید کمزور ہو گی کیونکہ اگر گورنر راج خیبرپختونخوا میں لگے گا تو پھر کہیں اور بھی لگ سکتا ہے۔‘
دیگر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے لیے خیبرپختونخوا میں گورنر راج کا نفاذ کرنا آسان نہیں ہو گا اور اس کی راہ میں آئینی پیچیدگیاں حائل ہیں۔
پھر یہ اچانگ گورنز راج کی باز گشت کیوں سنائی دینے لگی؟
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اس مرحلے پر گورنر راج کی خبروں کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت خصوصاً نئے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کے عزائم اچھے نظر نہیں آ رہے اور پی ٹی آئی صوبائی حکومت کی مدد سے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور اسلام آباد میں تناؤ کی صورتحال طاری کرنے کی تیاری میں نظر آتی ہے۔‘
تاہم اس سب کے باوجود بھی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حکومت گورنر راج کی دھمکی پر عمل نہیں کرے گی۔
’البتہ پی ٹی آئی ضرور چاہے گی کہ ایسا ہو تاکہ ایک نیا بحران پیدا ہو۔ خیبر پختونخوا ایک حساس صوبہ ہے جہا٘ں حالات خراب ہو رہے ہیں اور اب تک اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر گورنر راج لگتا ہے تو پھر ذمہ داری وفاق پر آئے گی۔‘
گورنر راج کیوں لگتا ہے اور اسے لگانے کا اختیار کس کا ہے؟
یاد رہے کہ کسی بھی صوبے میں وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہوتے ہیں جو اس صوبے کے حکومتی اور انتظامی امور چلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گورنر صوبوں میں وفاق کے نمائندے کے طور پر موجود ہوتا ہے۔
عام حالات میں گورنر کا عہدہ محض علامتی ہوتا ہے جبکہ صوبے میں حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانا منتخب صوبائی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔
مگر جب گورنر راج لگتا ہے تو ایک محدود مدت کے لیے تمام تر اختیارات گورنر کے پاس آ جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کی اسمبلی بے اختیار ہو جاتی ہے۔
آئین پاکستان کے دسویں باب میں دو شقیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر صوبے میں ایمرجنسی یا گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں آرٹیکل 232 اور 234 شامل ہیں۔
اگر صدرِ پاکستان سمجھتے ہیں کہ پاکستان یا اس کے کسی حصے کو جنگ یا بیرونی خطرات لاحق ہیں، یا ایسی اندرونی شورش ہے جو صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں، تو وہ ایمرجنسی اور گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں۔
تاہم اندرونی خلفشار کے باعث لگنے والی ایمرجنسی کی صورت میں اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے اس کی متعلقہ صوبائی اسمبلی سے توثیق لازم ہے۔
اسی شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر صدر اپنے طور پر ہی گورنر راج لگانے کا فیصلہ کر لیں تو اس صورت میں انھیں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دس روز کے اندر اپنے فیصلے کی توثیق کروانا ہو گی۔
ایسی ایمرجنسی کی صورت میں اس صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا اختیار وفاق میں پارلیمان کے پاس منتقل ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا میں سکیورٹی صورتحال خراب ہے اور حالیہ مہینوں میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہواگورنر راج کی مدت اور توثیق کا عمل
وفاقی حکومت خود یا صوبائی گورنر کو اختیار دے سکتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے طور پر وہاں تمام امور سرانجام دے تاہم صوبے کی ہائی کورٹ کے اختیارات وفاقی حکومت یا گورنر کو منتقل نہیں ہوتے۔
اب آرٹیکل 234 کے تحت اگر صدر کو صوبائی گورنر یہ رپورٹ پیش کر دے کہ صوبے میں ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ جس میں صوبائی حکومت آئین کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت کام نہیں کر سکتی، تو وہ یہاں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ سکتے ہیں یا صوبے میں اپنے نمائندے گورنر کے حوالے کر سکتے ہیں۔
آئین کے مطابق اس صورت میں صوبائی اسمبلی کے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ ہائی کورٹ کے اختیارات نہیں لیے جا سکتے۔
گورنر راج کی مدت صرف دو ماہ ہو سکتی ہے اور اس کی توثیق بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے کروانا ہوتی ہے جبکہ گورنر راج میں مشترکہ اجلاس کے ذریعے ایک وقت میں صرف دو ماہ کی توسیع ہی کی جا سکتی ہے اوراس کی کل میعاد چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
اگر اس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو بھی جائے تو صوبے میں گورنر راج تین ماہ تک نافذ رہے گا جب تک کہ قومی اسمبلی کے انتخابات نہ ہو جائیں یا سینیٹ اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر لے۔
کیا گورنر راج کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟
یہ آئین کا دسواں باب ہے اور اسی کی شق نمبر 236 کے تحت اس باب میں موجود کسی بھی آرٹیکل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم قانونی ماہر احمد بلال محبوب نے ماضی میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک لگنے والی تقریباً تمام ہی ایمرجنسیز اور گورنر راج کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ اس باب کے تحت تو ایسے کسی حکم نامے پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا تاہم کوئی بھی شخص عدالت میں رٹ دائر کر سکتا ہے کہ آئین میں موجود دیگر شقوں کی خلاف ورزی ہوئی یا اس کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے۔‘
پاکستان کے صوبوں میں گورنر راج کی تاریخ
پاکستانی پارلیمنٹ کی ایک تصویرپاکستان کے قیام کا یہدوسرا ہی ہفتہ تھا۔ تب صوبہ خیبرپختونخوا کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا جب مرکز نے22 اگست 1947 کو یہاں پہلی بار حکومت تبدیل کی۔
محمد الیاس لودھی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو صوبہ سرحد میں شکست ہوئی تھی اورکانگریس نے ڈاکٹر خان صاحب کی سربراہی میں یہاں حکومت بنائی تھی۔ ان کا اصل نام خان عبدالجبار خان تھا، جو خان عبدالغفار خان کے بڑے بھائی تھے۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے منسلک شہزاد قیصر کی تحقیق ہے کہ ’دوسری عالمی جنگ کے بعد لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، حتیٰ کہ 1946 میں کانگریس رہنما جواہر لعلنہرو کے دورۂ پشاور پر انھیں سیاہ جھنڈوں اور ’گو بیک‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا، جس سے واضح ہوا کہ کانگریس کا اثر بنیادی طور پرعبدالغفار خان کیخدائی خدمتگار تحریک کی وجہ سے تھا۔‘
مسلم لیگ نے کانگریس کی صوبائی حکومت کے خلاف سول نافرمانی شروع کی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا، جسے کانگریس نے مسترد کر دیا۔ بڑھتی کشیدگی پر صوبے میں امن و امان کے خدشات پیدا ہوئے اور گورنر سر اولف کیرو نے اپریل 1947 میں یا تو نئے انتخابات یا ریفرنڈم کی تجویز دی۔ بعد ازاں 3 جون 1947 کے منصوبے میں ریفرنڈم شامل کر لیا گیا۔
’خدائی خدمتگاروں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے پشتونستان کے مطالبے کی قرارداد منظور کی مگر قائداعظم نے عوام سے پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ 6 تا 17 جولائی 1947 کو ہونے والے ریفرنڈم میں پچاس فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ کے ساتھ 99 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں آئے۔ یوں صوبے نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔‘
قیصر کے مطابق ’تاہم صوبے میں اُس وقت کانگریسی وزارت قائم تھی جس کے بارے میں لیگی قیادت کو خدشہ تھا کہ وہ 14 اگست سے پہلے کوئی علیحدہ راستہ اختیار نہ کر لے۔ گورنر جنرل ماونٹ بیٹن کو وزارت برطرف کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انھوں نے پاکستان بننے سے پہلے اقدام سے گریز کیا۔‘
لودھی کے مطابق جولائی 1947کو صوبہ سرحد کے انڈیا یا پاکستان میں شمولیت پر ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد جو مسلم لیگ کے حق میں تھے یہ خیال کیا گیا کہ کانگریس اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔
’تاہم پاکستان بنا تو کانگریسی حکومت نے یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کی جس پر مرکزی حکومت نے ایک ہفتے بعد کانگریس حکومت ختم کر دی۔‘
قیصر لکھتے ہیں کہ ‘گورنر جنرل محمد علی جناحنے گورنر سر جارج کننگھم کو ہدایت دی اور 22 اگست 1947 کو ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت برطرف کر کے خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں نئی مسلم لیگی حکومت تشکیل دی، اگرچہ لیگی نشستیں اقلیت میں تھیں۔ اسمبلی کو مارچ 1948 تک نہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ حکومت چلتی رہے۔‘
’سنہ 1948 میں بجٹ سیشن کے موقع پر قیوم حکومت اکثریت کھو بیٹھنے کے خطرے سے دوچار ہوئی تاہم اپوزیشن کے بعض اراکین کی حمایت سے وہ بجٹ پاس کروانے میں کامیاب رہے اور یوں اسمبلی تحلیل کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔‘
14 اکتوبر 1955 کو موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں، ریاستوں اور وفاقی علاقوں (ماسوائے آزاد کشمیر اور گلگتبلتستان کے) کی انفرادی حیثیت ختم کر کے صرف ایک صوبہ ’مغربی پاکستان‘ قائم کیا گیا تھا جسے ’ون یونٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ صوبہ مشرقی بنگال یا موجودہ بنگلا دیش کو ’مشرقی پاکستان‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر خان صاحب اسی ون یونٹ کے پہلے وزیراعلیٰبنے۔
مرکزی حکومت کے صوبہ سرحد میںکانگریسی وزارت کی برطرفی اور نئی لیگی حکومت کے قیامکو گورنر راج میں شمار نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کی تاریخ میں مختلف ادوار میں اب تک 15 بار مرکز یا وفاق نے صوبوں میں ورنر راجلگایا، تین، تین بار پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا ، چار بار بلوچستان اور دو بار مشرقی بنگال میں۔
ایسا تب ہوا جب صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں اور انتظامی اختیار براہِ راست مرکز کے ماتحت آ گیا، جیسا کہ 1958–1972 اور 1977–1985 کے مارشل لا کے ادوار میں ہوا یا پھر جب مرکز نے کسی نہ کسی جواز کے تحت گورنر راج نافذ کیا۔
پنجاب
پنجاب میں پہلی بار گورنر راج 25 جنوری 1949 کو نافذ ہوا جب اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ افتخار ممدوٹ کو ہٹا دیا گیا اور اسمبلیاں تحلیل کی گئیں۔ اُس وقت سر فرانسس موڈی گورنر تھے۔ مارچ 1951 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور ممتاز دولتانہ وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے۔ یہ راجاپریل 1951 تک جاری رہا۔
دوسری مرتبہ پنجاب میں گورنر راج اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 12 اکتوبر 1999 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے وقت نافذ کیا گیا۔ پنجاب میں جب وزیرِاعلیٰ شہباز شریف کی حکومت سمٹی وہ تب تک دو سال اور 234 دن صوبے کی سربراہی کر چکے تھے۔ یہگورنر راج 23 نومبر 2002 کو ختم ہوا۔
اس دوران میں تین گورنروں ذوالفقار کھوسہ، لیفٹیننٹ جنرل صفدر اور لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول نے پنجاب کے انتظامی امور گورنر ہاؤس لاہور سے چلائے۔
پنجاب میں تیسری بار 25 فروری 2009 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے دو ماہ کے لیے صوبے میں گورنر راج نافذ کیا تھا۔ یہ گورنر راج 31 مارچ 2009 تک نافذ رہا۔
شہباز شریف کی بطور وزیرِاعلیٰ یہدوسری معطلی تھی۔ صدر زرداری نے صوبائی اسمبلی کو معطل نہیں کیا بلکہ صرف وزیرِاعلیٰ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کو عہدوں سے روکا گیا۔
صوبے کے انتظامی اختیارات تبگورنر سلمان تاثیر کو مل گئے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس حکم نامے کو کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بحال کر دی گئی۔
سندھ
صوبہ سندھ میں پہلا گورنر راج میاں امین الدین نے 29 دسمبر 1951 سے 22 مئی 1953 تک لگایا۔
دوسری بار صوبہ سندھ میں لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین خان نے 24 جون 1988 سے 31 اگست 1988 تک گورنر راج کانفاذ کیا۔
ان ادوار میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو ہٹایا گیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔
تیسری بار گورنر راج لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر نے 12 اکتوبر 1999 سے 17 دسمبر 2002 تک نافذ کیا۔ تبوزیراعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی کو 30 اکتوبر 1998 ہی کوبرطرف کر دیا گیا تھا۔
سرحد یا خیبرپختونخوا
صوبہسرحد(موجودہ خیبرپختونخوا ) میں بھی تین بار گورنر راج نافذ کیا گیا۔
یہ راجپہلی بار 16 فروری 1975 سے 3 مئی 1975 تک، دوسری بار25 فروری 1994 سے 24 اپریل 1994 تک اور تیسری بار 12 اکتوبر 1999 سے 30 نومبر 2002 تک نافذ العمل رہا۔
بلوچستان
صوبہ بلوچستان میں4 بار گورنر راج نافذ کیا گیا۔
پہلی بار 13 فروری 1973سے 27 اپریل 1973، دوسری بار 31 دسمبر 1974سے 7 دسمبر 1976 تکاور تیسری بار 12 اکتوبر 1999 سے یکم دسمبر 2002 تک رہا۔
صوبے میں چوتھا اور آخری گورنر راج وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت میں 14 جنوری 2013سے 24 مارچ 2013 تک نافذ العمل رہا۔ تب نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کو امن عامہ کی مخدوش صورتحال کی بنا پر برطرف کیا گیا۔
مشرقی بنگال
مشرقی بنگال، جو بعد میں مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش بنا، میں گورنر راج پہلی بار 29 مئی 1954 سے اگست 1955 تک اور دوسری بار22 جون 1958 سے 25 اگست 1958 تک نافذ العمل رہا۔