اسلام آباد میں کم عمر ڈرائیور کی مبینہ ٹکر سے سکوٹی پر سوار دو خواتین ہلاک: ’بہن کا فون اٹھانے والے پولیس اہلکارنے بتایا کہ وہ دم توڑ چکی ہیں‘

اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حراست میں لیے جانے والا نوعمر لڑکا ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کا بیٹا ہے۔

’ثمرین کا چھوٹا بھائی ارسلان کھنہ پُل پر انتظار کر رہا تھا اور جب انھیں آنے میں تاخیر ہوئی تو ثمرین کو کال کی گئی لیکن فون اٹھانے والی بہن نہیں بلکہ ایک پولیس اہلکار تھا، جس نے بتایا کہ ثمرین اور ان کی سہیلی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ دونوں دم توڑ چکی ہیں۔‘

یہ الفاظ ثمرین کے دوسرے بھائی رضوان تجمل کے ہیں جو اس حادثے سے متعلق مقدمے کے مدعی ہیں۔

پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ثمرین اور ان کی دوست تابندہ بتول ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو چکی ہیں اور غلط ڈرائیونگ کرنے پر ایک نوعمر لڑکے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

خیال رہے ملزم کی عمر 18 برس سے کم ہے اور اسی سبب بی بی سی ان کی شناخت ظاہر نہیں کر رہا۔

اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حراست میں لیے جانے والا نوعمر لڑکا ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کا بیٹا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ تھانہ سیکریٹریٹ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور مقامی عدالت نے اس کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ بھی دے دیا ہے۔

ہلاک ہونے والی لڑکیاں کون تھیں؟

ہلاک ہونے والی ایک لڑکی ثمرین حسین کے بھائی رضوان تجمل کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ثمرین پاکستان نیشنل کالج آف آرٹس (پی این سی اے) میں انٹیریئر ڈیزائننگ کا کورس کر رہی تھیں اور پیر کے روز اپنی سہیلی تابندہ بتول کے ہمراہ اپنی سکوٹی پر گھر جا رہی تھیں۔

تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 322، 279 اور 427 کے تحت درج ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو ایکسیڈنٹ کے بعد طبی امداد کے لیے ہسپتال منقتل کیا گیا تھا تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گئیں۔

مقدمے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مدعی کی معلومات کے مطابق ڈرائیور لاپرواہی سے گاڑی چلا رہا تھا، جس کے سبب یہ حادثہ رونما ہوا۔

Islamabad Police
Getty Images
(فائل فوٹو)

رضوان تجمل نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بہن ثمرین اپنی سہیلی تابندہ کے ہمراہ روزانہ کالج جاتی تھیں اور واپسی میں تابندہ انھیں کھنہ پُل پر ڈراپ کرتی تھیں، جہاں سے ان کا دوسرا بھائی ارسلان انھیں گھر لے آتا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملزم ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کا بیٹا ہے لیکن ثمرین کا خاندان اس مقدمے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گا اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔

پولیس کی تفتیش کہاں تک پہنچی؟

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جائے حادثہ پر موجود لوگوں نے پولیس کو بتایا کہ پاک سیکرٹیریٹ کے قریب شاہراہ دستور پر ملزم ’انتہائی غلط انداز‘ سے بڑی گاڑی چلا رہا تھا، جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔

تفتیشی اہلکار نے مزید کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور ملزم کی جانب سے تاحال ڈرائیونگ لائسنس پیش نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد ٹریفک پولیس کے سربراہ ایس ایس پی حمزہ ہمایوں نے بی بی سی اردو کو تصدیق کی ہے کہ اس حادثے سے متعلق ٹریفک پولیس نے جو رپورٹ بنائی، اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ملزم کم عمر تھا اور اس کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنا ہوا تھا۔

ایس ایس پی حمزہ ہمایوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حادثے میں ہلاک ہونے والی لڑکیوں کے پاس بھی ڈرائیونگ لائسنس موجود نہیں تھا۔

’قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا کتنا بااثر ہے یا کسی بااثر شخصت کا قریبی عزیز ہے۔‘

مقدمہ ثابت ہونے پر 18 برس سے کم عمر ملزم کو کیا سزا ہو سکتی ہے؟

اس واقعے سے متعلق درج ہونے والے مقدمے میں ملزم پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 بھی لگائی گئی ہے جو کم عمر بچے کے گاڑی چلانے سے متعلق ہے۔

تعزیرات پاکستان کی یہ دفعہ ناقابل ضمانت ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا 10 سال قید ہے۔

پاکستان میں کم عمر بچوں کے لیے جوینائل کورٹ بھی ہیں تاہم وہاں صرف ان ہی بچوں کو لے جایا جاتا ہے جن کی عمر 12 برس یا اس سے کم ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US