اس شہر میں گورننس کا ترجمہ اپنی مدد آپ ہے۔ مجھے اس شخص کی شدت سے تلاش ہے جس نے کراچی کو امیدوں اور روشنی کا شہر قرار دیا۔

یہ چھ نومبر 2005 کا واقعہ ہے۔ ایک کار، جس میں ایک خاتون اور دو بچے سفر کر رہے تھے، کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر رات کے اندھیرے میں کھلے نالے میں جا گری کیونکہ سڑک پر کھدائی کے نتیجے میں جمع مٹی کے بڑے سے ڈھیر کے سبب ڈرائیور نالے کی چوڑائی کا درست اندازہ نہیں لگا پایا۔
ڈرائیور اور خاتون زخمی ہوئے مگر خاتون کی 13 سالہ بیٹی عکسِ بتول اور 10 سالہ بیٹا شایان ڈوبتی گاڑی سے بروقت نہ نکالے جا سکے اور ہلاک ہو گئے۔ خاتون کا نام شہلا رضا تھا جو بعد میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر رہیں اور اب پیپلز پارٹی کی ایم این اے ہیں۔
جب یہ حادثہ ہوا تو صوبے کے وزیرِ اعلی ارباب غلام رحیم اور مئیر کراچی ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال تھے جو اب وفاقی وزیر برائے ہیلتھ سروسز ہیں۔
محترمہ شہلا رضا نے اپنے بچوں کی موت کا ذمہ دار بلدیہ کراچی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ڈھائی کروڑ روپے ہرجانے کا دعوی دائر کیا۔
بلدیہ کراچی نے اپنے طور پر بھی انکوائری کروائی۔ مقدمہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی عدالت میں پیش ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ کسی کو معلوم ہو تو اس ناچیز کو بھی آگاہ کر دے۔
اپریل 2008 سے آج تک (17 برس) سندھ میں نگراں حکومتوں کے مختصر ادوار کے علاوہ پیپلز پارٹی کی حکومت مسلسل ہے۔ سوا دو برس سے کراچی کے مئیر کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کو چھوڑ کے سندھ کے دارلحکومت کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار جتنے بھی ادارے ہیں وہ صوبائی حکومت یا کراچی سٹی گورنمنٹ کے کنٹرول میں ہیں۔
موٹے موٹے اداروں میں بورڈ آف ریونیو، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ، پولیس، ٹریفک مینیجمنٹ، امورِ داخلہ، صحت اور تعلیم کے محکمے بھی شامل ہیں۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد ترقیاتی انفراسٹرکچر، مینجمنٹ اور گورننس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے پیسے کی بھی کمی نہیں۔

پھر بھی ایسا کیوں لگتا ہے کہ بالٹی دیکھنے میں تو بطاہر اچھی ہے مگر پیندے میں چھلنی لگی ہے۔ اس چھلنی سے وسائل کا جو دودھ مسلسل ٹپک رہا ہے اسے ہر طرح کے بلے پی پی کر موٹے تازے ہو رہے ہیں اور جنتا کی گود وضاحتوں، رپورٹوں، نعروں، الزامات اور دعووں سے بھری ہوئی ہے۔
اگر 17 برس پہلے تک کے سابق صوبائی اور شہری منتظمین کرپٹ، چوری کھانے والے مجنوں، متشدد، بدمعاش اور مسخرے تھے تو پھر آپ کے آنے سے گورننس میں کون سی ایسی کمی پوری ہو گئی جو نااہل سابقین کے بس سے باہر تھی۔ اختیارات کیا صرف اوپر ہی اوپر جمع کرنے کے لیے ہوتے ہیں یا ان کا استعمال اور پھیلاؤ بھی ہوتا ہے؟
کراچی کو پاکستان کا معاشی انجن کہنا اب زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا لگتا ہے۔ کرپشن، نااہلی اور گٹھ جوڑ کا سراغ لگانے کے لیے کسی افسر، عوامی نمائندے، نجی یا سرکاری سراغ رساں سے ملنا یا کانفیڈینشل فائلز دیکھنا ہرگز ضروری نہیں۔
آپ بس یہ کریں کہ ایرپورٹ سے گورنر ہاؤس تک یا چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے سے گزرنے والی چکنی سڑک کو چھوڑ کے کسی بھی چھوٹے بڑے راستے پر پیدل یا گاڑی میں نکل جائیں۔ ہر ایک گز ناپنے کے بعد آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ گورننس میں کرپشن کے کس قدر گڑھے اور ہچکولے ہیں۔
اس شہر کا حقیقی ڈیٹا کسی کے پاس نہیں۔ اوپر سے نیچے تک سب اندازوں اور آنکڑوںکی بیساکھیوں پر چل رہے ہیں۔ کتنی آبادی ہو گی کراچی کی؟ شاید ڈیڑھ کروڑ سے ساڑھے تین چار کروڑ ۔۔ کتنی کچی یا بے قاعدہ آبادیاں ہیں؟ غالباً 30 سے 50 فیصد، مین ہولز کتنے ہیں؟ شاید دو لاکھ یا پھر تین لاکھ۔۔
غیر لائسنس یافتہ ہلکے اور بھاری وہیکلز کی کیا تعداد ہو گی؟ بہت ہیں بھائی بہت زیادہ۔ اس شہر میں سیوریج اور پانی کی انڈر گراؤنڈ لائنوں کی ڈرائنگز کس محکمے کی الماری میں ہیں؟ شائد فلاں محکمے میں، شائد فلاں ایجنسی کے پاس، غالباً فلاں ادارے کے پاس۔۔۔
سارا نظام غیبی ماڈل پر چل رہا ہے۔ کل کس نے تازہ تازہ سڑک بنائی اور پرسوں کون سا محکمہ اسے کھود گیا۔ اگلے ہفتے بڑے بڑے پائپ لا کر وہاں کس نے رکھ دیے۔ اب انھیں ڈالے گا کون، اس کے بعد مٹی کون پر کرے گا؟ کونسی پوری پوری سڑک دو برس پہلے کھدیڑ دی گئی۔ اس کی جگہ نئی سڑک ڈلنے کی ڈیڈ لائن کیا ہے؟ اسے پتہ ہے، ارے نہیں اسے پتہ ہے، نہیں یار فلانا بتا سکتا ہے۔۔۔

سپیڈ بریکرز کون بناتا ہے کون توڑتا ہے، کیا گلیوں میں بیریرز لگانے کی ہر خاص و عام کو اجازت ہے؟ زیرِِ تعمیر پلوں کا تحفظ اور ان کے سریے لوہے سیمنٹ کو نشے بازوں اور کباڑیوں سے بچانا کس ادارے یا کمپنی کی ذمہ داری ہے؟ پارکنگ فیس واقعی ختم ہو چکی ہے یا کوئی بھی مسٹنڈا کہیں بھی پارکنگ کا بورڈ لگا کے بھتہ وصول کر سکتا ہے۔ گویا اس شہرِ آشوب میں جو زرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔
اس شہر کے لوگ دعاؤں اور اپنی ذمہ داری پر رواں ہیں۔ باہر بچوں کو آئس کریم کھلانے تو لے جا رہے ہو لیکن اچانک کسی بھی جگہ ڈاکوؤں اور پولیس کی مڈھ بھیڑ میں کہیں کوئی بچہ کم نہ پڑ جائے۔
شاپنگ کیلئے چلے تو جاؤ مگر پہلے پتہ کر لو کہ کہیں جگمگاتے شاپنگ سینٹر کے سامنے اندھا مین ہول نہ کھلا ہو۔ کوئی بچہ انگلی چھڑا کے اس میں غائب ہو گیا تو سر پیٹنے کے سوا کیا کرو گے؟
موٹر سائیکل گھر سے نکال تو رہے ہو مگر آگے پیچھے دیکھ لینا کوئی بدمست واٹر ٹینکر یا بجری کا ڈمپر یا کچرے کا کھلا ٹرک تمہیں لاش نہ بنا دے۔ اس برس ساڑھے پانچ سو اس طرح مر چکے ہیں کہیں تم بھی ان اعداد میں شامل نہ ہو جاؤ۔
کسی کثیر منزلہ اپارٹمنٹ میں رہتے ہو تو آگ نہ لگنے کی دعا کرتے رہو۔ فائر بریگیڈ ایک آدھ گھنٹے میں آ تو جائے گا مگر اس کی گاڑیوں میں پانی بھی ہو ضروری نہیں۔ اگر پانی ہوا بھی تو یہ گارنٹی نہیں کہ اس کا پائپ کتنا اوپر تک پہنچ سکتا ہے۔
اور خبردار۔ رات کے وقت کسی بھی کھلے مین ہول میں گرنے سے پرہیز کریں کیونکہ ریسکیو 1122 کے پاس ایک تو ضروری آلات پورے نہیں اور اگر ہوں بھی تو اندھیرے میں کام کی صلاحیت نہیں اور اگر ہو بھی تو ڈرینیج سسٹم کا نقشہ کسی اور محکمے کے پاس ہے۔ کب وہ نقشہ ریسکیو والوں کے ہاتھ آئے اور کب لاش کی تلاش مکمل ہو۔
اس شہر میں گورننس کا ترجمہ اپنی مدد آپ ہے۔ مجھے اس شخص کی شدت سے تلاش ہے جس نے کراچی کو امیدوں اور روشنی کا شہر قرار دیا۔ یقیناً وہ ناہنجار1980 سے پہلے ہی کوچ کر چکا ہو گا۔