1989 میں دسمبر کی ایک سرد دوپہر تھی جب ایک نوجوان کشمیری خاتون ڈاکٹر کو اچانک اغوا کر لیا گیا۔ اس واردات نے انڈیا میں کھلبلی کیوں مچا دی تھی اور اس کے مبینہ ملزم کو 36 سال بعد گرفتار کرنے کے بعد رہا کیوں کر دیا گیا؟
انڈیا کے سابق وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی ڈاکٹر روبیہ سعید کے اغوا میں پولیس کو 1989 سے مطلوب شفاعت شنگلو نامی شخص کو پیر کے روز سینٹرل بیورو آف انوسٹگیشن یا سی بی آئی نے سرینگر سے گرفتار کر لیا۔ لیکن جب منگل کے روز انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ان کے خلاف ناکافی ثبوت کی بنا پر انھیں سی بی آئی کی تحویل میں دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
ایک بیان میں سی بی آئی نے بتایا تھا کہ شفاعت کو انسداد دہشت گردی سے متعلق جموں کی خصوصی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے عمر قید کی سزا کاٹ رہے لبریشن فرنٹ کے رہنما یٰسین ملک اور فرنٹ کے دوسرے عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر اغوا کی سازش کی تھی۔
انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق عدالت میں پیش ہونے پر جج نے ان پر عائد الزامات سے متعلق ثبوتوں کو ناکافی قرار دے کر انھیں سی بی آئی کی تحویل میں دینے سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ شفاعت ایک تاجر ہیں جنھیں سی بی آئی نے لبریشن فرنٹ کے محبوس رہنما یٰسین ملک کا قریبی ساتھی اور روبیہ سید اغوا کی سازش میں ملوثقرار دیا ہے۔
وزیر داخلہ کو ایک انجان نمبر سے کال کیا گیا تھا کہ ان کی بیٹی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی تحویل میں ہےاغوا اور مذاکرات
1989 میں کشمیر کی مسلح شورش ابھی ابتدائی مرحلے میں ہی تھی۔ دسمبر کی ایک سرد دوپہر کو ڈاکٹر روبیہ سعید خواتین کے لیے مخصوص 'لل دید ہسپتال' سے شفٹ ختم کر کے شہر کے نواح میں اپنے گھر نوگام پہنچنے کے لیے بس کے انتظار میں تھی۔
اس دوران ایک تیز رفتار وین اُن کے سامنے رُکی اور انھیں پستول دکھا کر گاڑی میں بٹھا لیا گیا۔
ڈاکٹر روبیہ سعید اُس وقت کے انڈین وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ جب وزیر داخلہ کو ایک انجان نمبر سے کال کیا گیا کہ ان کی بیٹی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی تحویل میں ہے اور ان کی صحیح سلامت واپسی کے لیے انھیں فرنٹ کے پانچ کمانڈروں کو رہا کرنا ہوگا تو انڈین حکومت میں افراتفری مچ گئی۔
حکومت نے فرنٹ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی بنائی جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج ایم ایل بٹ، کشمیر کے معروف معالج ڈاکٹر عبدالاحد گورو، رکن اسمبلی میر مصطفیٰ اور ایک سماجی کارکن مرزا عبدالقیوم شامل تھے۔
فرنٹ نے عبدالحمید شیخ، نور محمد کلوال، جاوید زرگر، شیر خان اور الطاف احمد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
حمید شیخ فورسز کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہوئے تھے اور انھیں پولیس حراست میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
پانچ روز تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد حکومت نے پانچوں عسکریت پسندوں کو رہا گیا اور ایک گھنٹے کے بعد روبیہ سعید کو پرانے سرینگر کے ایک پُل پر رہا کیا گیا۔
اغوا کیس کی سماعت کے دوران دو سال قبل ڈاکٹر روبیہ سعید نے عدالت کو بتایا کہ یٰسین ملک نے ان کے اغوا میں کلیدی کردار ادا کیا تھاکشمیر میں پہلی بار قیدیوں کا تبادلہ
اُس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے عسکریت پسندوں کی رہائی کی مخالفت کی۔ انھوں نے ایک بیان دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’حکومت اگر آج فرنٹ کا مطالبہ تسلیم کرے گی تو یہ فیصلہ آنے والے دور میں ایک چیلنج بن سکتا ہے۔‘
اور ایسا ہی ہوا بھی۔ 1999 میں عسکریت پسندوں نے نیپال سے انڈین ایئر لائنز کا طیارہ آئی سی 814 اغوا کر کے افغانستان کے قندھار میں اُتارا اور مسافروں کو چھوڑنے کے بدلے کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر اور کشمیری عسکریت پسند مشتاق زرگر سمیت کئی عسکریت پسندوں کی جیلوں سے رہائی کا مطالبہ کیا۔
اُس وقت بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔
طویل مذاکرات کے بعد اُس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ مطالباتی فہرست کے مطابق عسکریت پسندوں کے ہمراہ ایک جہاز میں قندہار پہنچے جہاں مسافروں کو چھوڑنے کے عوض مسعود، مشتاق اور دیگر عسکریت پسندوں کو اُس وقت کی طالبان حکومت کے سپرد کیا گیا۔
عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر حکومت کی سیاسی اور سماجی حلقوں نے تنقید کی لیکن اغوا ہوئے جہاز میں سوار مسافروں کے اقربا نے ڈاکٹر روبیہ سید اغوا کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 'ہوم منسٹر کی بیٹی اگر اہم ہے تو عام لوگ بھی اہم ہیں۔''
اس طرح قندھار کا واقعہ کشمیر کی مسلح شورش کی تاریخ میں دوسرا قیدیوں کا تبادلہ بن گیا۔
واضح رہے کہ اغوا کیس کی سماعت کے دوران دو سال قبل ڈاکٹر روبیہ سعید نے عدالت کو بتایا کہ یٰسین ملک نے ان کے اغوا میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
یٰسین ملک کو دو سال قبل سپریم کورٹ نے عسکریت پسندوں کے لیے فنڈنگ کے ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی جبکہ ڈاکٹر روبیہ کے اغوا، انڈین فضائیہ کے اہلکاروں کی ہلاکت اور دوسرے معاملے سپریم کورٹ میں ہی زیرِ سماعت ہیں۔