سٹریٹ کرائم کی اس واردات کے بارے میں کراچی پولیس کے ضلع غربی کےڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ دو ڈاکوؤں نے ایک شخص سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی جو اپنے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا، اسی دوران ایک باڈی بلڈر نے مزاحمت کی جس پر ڈاکوؤں نے گولی چلا دی۔
ڈاکو کو جلانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے’صبح کا وقت تھا، باہر گلی سے شور کی آواز آئی۔ عبدالحنان جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ڈاکو بچے کے ساتھ موجود ایک شخص سے موبائل چھین رہے تھے۔ انہوں نے حنان کی بھی تلاشی لی لیکن اس کے پاس موبائل نہیں تھا اس کی ہاتھا پائی ہوئی اور ایک ڈاکو نے گولی چلائی جو اسے لگی اور وہ گر گیا۔‘
درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے مزدور عبدالحنان پیر کو کراچی کے علاقے بلوچ گوٹھ میں ایک ڈاکو کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے اور اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے ایک شخص کو پکڑ کر زندہ جلا دیا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے۔
عبدالحنان کے چچا اور سسر گل محمد خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گولی لگنے کے بعد حنان کو عباسی شہید ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا کیونکہ گولی اس کے دل سے آر پار ہو گئی تھی۔
سٹریٹ کرائم کی اس واردات کے بارے میں کراچی پولیس کے ضلع غربی کےڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ دو ڈاکوؤں نے ایک شخص سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی جو اپنے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا، اسی دوران ایک باڈی بلڈر نے مزاحمت کی جس پر ڈاکوؤں نے گولی چلا دی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ مقامی لوگوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
عرفان بلوچ کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح پیش آیا جبکہ ویڈیو رات کو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کو زندہ جلایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہجوم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ علاقے کے ایس ایچ او کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔
جائے وقوعہ پر تاخیر سے پہنچنے پر علاقے کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہےڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ ’مقامی تھانیدار جب جائے وقوع پر پہنچا تو اسے معلوم نہ تھا کہ ڈاکو کو کھمبے سے باندھ کر جلایا گیا ہے، تاہم وہ زخمی ڈاکو کو ہسپتال لے گئے لیکن وہ ہلاک ہو گیا۔‘
ایف آئی آر میں کیا لکھا گیا ہے؟
اورنگی ٹاؤن تھانے میں اس واقعے کے حوالے سے تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پہلے مقدمے میں مقتول عبدالحنان کے سسر گل محمد خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے داماد کو گلی میں دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پر لوٹنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر گولی مار دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی دوران محلے کے لوگ جمع ہوگئے اور ایک ڈاکو کو پکڑ کر مار پیٹ شروع کردی جبکہ دوسرا ڈاکو موقع سے فرار ہو گیا۔
گُل محمد کے مطابق ان کے داماد اور ڈاکو دونوں کو زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں دونوں چل بسے۔
اس کے علاوہ سرکار کی مدعیت میں نامعلوم افراد پر ایک ڈاکو کو زندہ جلانے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
ہیڈ کانسٹیبل انیس الرحمان نے اس ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ دوران گشت شاہ فیصل محلہ سیکٹر سات ایف پہنچے تو علم ہوا کہ ڈاکوؤں نے ایک شخص عبالحنان کو گولی مار کر ہلاک کیا، جس کے بعد محلے والوں نے ایک ڈاکو جس کا نام ساجد تھا کو پکڑ لیا جبکہ اس کا ساتھی موٹرسائیکل پر فرار ہو گیا۔
مدعی کے مطابق موقع پر موجود عوام نے پکڑے گئے ڈاکو کو پہلے مارا پیٹا اور پھر آگ لگا کر جلانے کی بھی کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکو کو زخمی حالت میں ایمبولینس کے ذریعہ ہسپتال روانہ کیا گیا لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی چل بسا۔
تیسرا مقدمہ ہیڈ کانسٹیبل انیس الرحمان کی ہی مدعیت میں مبینہ ڈاکو ساجد کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں دائر کیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ڈاکو کو جلانے والے ملزمان کی تلاش جاری ہے اور جلد ان کی شناخت ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو صرف کھمبے سے باندھے گئے ڈاکو کو جلانے کی کوشش کی ہے اور اس شخص نے بعد میں خود کو رسی سے آزاد بھی کرلیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں آس پاس موجود لوگ نظر نہیں آرہے لیکن پولیس ان تک پہنچ جائے گی۔
حنا اور ساجد دونوں کو عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا تھا لیکن وہ دونوں ہی جانبر نہیں ہو سکےہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟
کراچی میں مشتعل عوام کے قانون ہاتھ میں لینے اور اس کے نتیجے میں ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ چند برس قبل مچھر کالونی کے علاقے میں بھی ایک مشتعل ہجوم نے ٹیلی کام انجینیئر اور ان کو ڈرائیور کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا اور پولیس کے مطابق مقامی لوگوں نے اُنھیں بچوں کے اغواکار سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پلس نے چند برس قبل کراچی میں سٹریٹ کرائم پر ایک تحقیق کی جس کے نتائج کے مطابقان جرائم سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔
پلس کے کنسلٹنٹ کاشف حفیظ کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے کراچی کے ساتوں اضلاع میں ایک مطالعہ کیا گیا، جس سے پتا چلتا ہے کہ سٹریٹ کرائمز میں اضافہ کراچی والوں کو مزید خوفزدہ کر رہا ہے اور انھیں مزید غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔
اس سروے کے جواب دہندگان میں ہر 10 میں سے سات لوگ ایسے ہیں جو خود یا ان کا کوئی قریبی رشتے دار یا جاننے والا سٹریٹ کرائم کا شکار ہوا ہے۔
اسلام آباد ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ اور نسٹ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ماہین احمد نے اس بارے میں ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ پُرتشدد ہجوم کی ذہنیت ایک جامع سائنس ہے، جس کے مطابق لوگ ہجُوم میں اپنے کسی بھی رویے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور ’فوری انصاف‘ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔‘
ماہین احمد کے مطابق ’جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ اب آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کر رہا ہے۔ آپ خود درست اور غلط میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ خود کو بہتر سمجھنے والا مشتعل ہجوم آپ کو کنٹرول کر رہا ہے۔‘