پاکستانی نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری: ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی والدین اولاد کی کفالت کے لیے کام پر مجبور

پاکستان کے نئے لیبر فورس سروے میں بتایا گیا ہے کہ بیروزگاری پاکستان کے تمام عمر کے افراد کو متاثر کر رہی ہے، تاہم پندرہ سال سے لے کر 30 سال کے افراد کے افراد میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

قیصر احمد کی عمر 65 برس ہے۔ بارہ سال قبل ایک شپنگ کمپنی میں اُن کی ملازمت اس وقت ختم ہوئی جب اس کمپنی نے پاکستان میں اپنا کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے بعد قیصر احمد نے ایک اور ادارے میں ملازمت شروع کی جہاں انھوں نے پانچ سال تک کام کیا۔ اس کمپنی سے نکل کر انھوں نے کچھ پیسے لگا کر کہیں سرمایہ کاری کی تاکہ ملازمت سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ سکیں، تاہم ایسا مُمکن نہیں ہوا۔

ان کا خیال اور سوچ یہ تھی کہ ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی نے تعلیم مکمل کر لی ہے جس میں ایم بی اے اور بی ایس ریاضی کی ڈگریاں شامل ہیں اور بس اب ان کے روزگار پر لگنے سے ان کے گھریلو اخراجات کے لیے آمدن شروع ہو جائے گی۔ کافی کوشش کے باوجود ان کے بچوں کو ملازمت تو نہیں مل سکی تاہم انھوں نے اپنی ملازمت کا سلسلہ جاری رکھا۔

قیصر احمد کا کہنا ہے کہ ان کی محدود سرمایہ کاری سے اتنا منافع نہیں ملتا کہ گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں۔ وہ اس عمر میں بھی کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کو ابھی تک ملازمت نہیں مل سکی کہ جس سے گھر کے لیے اضافی آمدنی حاصل ہو اور وہ فراغت سے اس عُمر میں گھر بیٹھ سکیں۔

قیصر احمد سے ملتے جلتے حالات پاکستان میں بے شمار لوگوں کے ہیں کہ جو 60 سے 65 اور 70 سال کی عمر میں بھی کام کر رہے ہیں۔ معاشی ماہرین ایسے افراد کے کام کرنے کو ’انفلیشن ایڈجسٹمنٹ رئیل انکم‘ کہتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر بچے کام کرتے بھی ہوں تو وہ اتنا نہیں کما پاتے کہ گھریلو اخراجات اور والدین کا خرچ برداشت کر سکیں اس لیے والدین جن میں زیادہ تر والد ہی وہ فرد ہوتے ہیں جنھیں بڑھاپے میں بھی اولاد اور گھریلو اخراجات چلانے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں حال ہی میں جاری کیے جانے والے لیبر فورس سروے میں بھی یہ انکشاف ہوا ہے کہ 65 اور اس سے زائد عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے جب کہ 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب راجہ کامران 40 کی دہائی میں ہیں اور 20 سال سے میڈیا اور پبلک ریلشینگ کے شعبے میں کام کرتے رہے تاہم حال ہی میں تنخواہ کے مسائل کی وجہ سے انھیں پی آر کمپنی کی نوکری چھوڑنی پڑی۔

راجہ کامران کے مطابق وہ اس وقت بے روزگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں میڈیا میں ملازمت تو مل سکتی ہے مگر وہاں کم ترین تنخواہ کے علاؤہ غیر معمولی تاخیر سے ادائیگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ایک جانب راجہ کامران جیسے افراد بے روزگار ہیں تو دوسری جانب قیصر احمد نے بتایا کہ ان کا 30 سالہ بیٹا یونیورسٹی ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود ملازمت کا متلاشی ہے۔

پاکستان کے نئے لیبر فورس سروے میں بیروزگاری کی شرح 7.1 فیصد دکھائی گئی ہے جو دو دہائیوں کی بلند ترین شرحبیروزگاری ہے۔

سروے کے مطابق 2021 سے سنہ 2025 تک چار سالوں میں ملک میں مزید 14 لاکھ بے روزگار افراد کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کی لیبر فورس 45 لاکھ سے 59 لاکھ تک پہنچ گئی۔

دوسری جانب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملازمتوں کے سکڑتے ہوئے مواقع کی وجہ سے یہاں نوجوانوں کو ملازمتیں ملنے میں دشواری کا سامنا ہے تو اس کے ساتھ بڑی عمر کے افراد ابھی تک کام کرنے پر مجبور ہیں۔

لیبر فورس سروے ملک میں روزگار کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جاری کیے جانے والے لیبر فورس سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بے روزگار افراد میں 31 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں مزید 14 لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔

بے روزگار افراد کی مجموعی تعداد سال 2020-21 میں 45 لاکھ سے بڑھ کر سال 2024-25 میں 59 لاکھ ہوگئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ صورت حال لیبر مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔

یہ اضافہ تمام عمر کے گروہوں اور مرد و خواتین دونوں پر اثرانداز ہوا ہے، جو روزگار کی صورتِ حال میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ 15 سے 24 سال کی عُمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح اس عرصے کے دوران 11.1 فیصد سے بڑھ کر 12.6 فیصد ہوگئی ہے۔

Getty Images
Getty Images

پاکستان کے لیبر فورس سروے میں ملک کی لیبر مارکیٹ میں ایک نئے رجحان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جس میں گگ اکانومی شامل ہے یعنی ایک معیشت جو مستقل اور روایتی کی بجائے قلیل مدتی اور فری لانسنگ پر مشتمل ہو۔

سروے کے مطابق پرائمری ملازمتوں میں تقریباً تین فیصد مختصر مدت کے کاموں سے منسلک ہیں جب کہ ثانوی ملازمتوں میں مختصر مدت کی ملازمت کے افراد کا حصہ 10.6 فیصد ہو گیا ہے۔ اس شعبے میں خواتین کا حصہ نمایاں ہے۔ ثانوی ملازمتوں میں مختصر مدت والی ملازمتوں میں خواتین کا حصہ پندرہ فیصد اور مردوں کا حصہ 9.8 فیصد تک ہے۔

سروے کے مطابق زراعت کے شعبے میں روزگار کی شرح سنہ 2021 میں 37.4 فیصد تھی جو سنہ 2025 میں 33.1 رہ گئی۔ خدمات کے شعبے میں روزگار 37.2 فیصد سے 41.2 فیصد ہو گیا جب کہ صنعت کے شعبے میں روزگار کی شرح 25.4 فیصد سے 24.9 فیصد ہو گئی۔

بڑی عمر کے افراد ابھی تک ملازمت یا کام کیوں کر رہے ہیں؟

پاکستان میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 برس ہے۔ نجی شعبے سے بھی لوگ عموماً اس عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں تاہم لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں 60 اور اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد پاکستان کے لیبر فورس سروے میں بڑھی ہے اور ان میںبیروزگاری کی شرح بھی دوسری عمر کے افراد کے مقابلے میں کم شرح سے بڑھی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ لوگ ریٹائرمنٹ لے کر گھر نہیں بیٹھ رہے بلکہ ملازمت جاری رکھ کر اپنی معاشی ضروریات کو کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔

معاشی ماہر ڈاکٹر اسد سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں سرمایہ کاری کی کم شرح اور معاشی گروتھ کے نہ ہونے کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے اور اسی وجہ سے نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر کسی نوجوان کے پاس ملازمت ہے لیکن اس کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات کے ساتھ اپنے والدین کا بھی خرچ برداشت کر سکے تو اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے والد کو بھی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔‘

ڈاکٹر اسد سعید نے مزید کہا کہ ’بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے بل کے ساتھ میڈیکل کے خرچے ان سب کو پورا کرنے کے لیے بڑی عمر کے افراد بھی بچوں کے ساتھ مل کر کام کر ہے ہیں۔ اسے معاشی اصطلاحمیں ’انفلیشن ایڈجسڈڈ رئیل انکم‘ کہا جاتا ہے تاکہ مجموعی طور پر اتنی آمدنی ہو کہ اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ بہت سے لوگ بڑی عمر میں اس لیے بھی کام کر رہے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس تعلیمی اسناد تو آگئیں لیکن ملک میں ملازمتوں کے سکڑتے ہوئے مواقع کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اب بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Getty Images
Getty Images

نوجوان طبقے میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی کیا وجہ ہے؟

پاکستان کے نئے لیبر فورس سروے میں بتایا گیا ہے کہ بیروزگاری پاکستان کے تمام عمر کے افراد کو متاثر کر رہی ہے، تاہم پندرہ سال سے لے کر 30 سال کے افراد کے افراد میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اس بارے میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مُلک میں اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ مُلکی معاشی صورتحال ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اگر صعنتی شعبے کی بات کی جائے تو پاکستان کی گذشتہ پانچ سالوں میں اس شعبے میں اوسطاً گروتھ صفر رہی ہے جس کی وجہ سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہوئے جب کہ دوسری جانب ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اسی طرح سیلاب نے زرعی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع مزید سکڑ گئے ہیں۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’ایک جانب تو وہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں کہ جو لیبر فورس میں شامل افراد کی بیروزگاری کے ہیں۔ دوسری جانب ایک خوفناک صورتحال ان دو کروڑ دس لاکھ افراد کی ہے جو پندرہ سے 24 سال کے ہیں اور وہ کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول کے لیے نہیں جا رہے، جس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ ملازمت تو ملنی نہیں اس لیے پڑھنے کا کیا فائدہ ہے۔‘

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’یہ بہت بڑی تعداد ہے، دو کروڑ سے زائد افراد جو نوجوان بھی ہیں مگر وہ نہ تو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی اُن کی توجہ کسی ایسے کام کی جانب ہے جس میں اُن کا یا بحیثیتِ مجموعی مُلک کا کوئی فائدہ ہو۔‘

ڈاکٹر اسد سعید کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’معاشی گروتھ کم ہوئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملازمتیں کم ہو رہی ہیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’جو پڑھے لکھے نہیں ہیں وہ کہیں مزدوری یا گاڑی دھو کر کام کر لیتے ہیں اصل مسئلہ پڑھے لکھے افراد کا ہے کہ جو اس مقصد کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں کہ تعلیم کے بعد وہ اچھی ملازمت حاصل کر لیں گے تاہم معیشت میں نمو نہ ہونے کی وجہ سے اب ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے اس لیے یہ طبقہ سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US