عمران خان جیلر ہے یا قیدی؟

کسی بھی شخص کو ذہنی مریض صرف کوالیفائیڈ ڈاکٹر یا میڈیکل بورڈ ہی ڈکلئیر کر سکتا ہے۔ ذہنی مریض چونکہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا لہٰذا وہ غداری و سہولت کاری جیسے منصوبہ بند کام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔ بلکہ قومی سلامتی سے زیادہ ذاتی سلامتیکے لیے خطرہ ہوتا ہے۔

محترم و مکرمڈی جی آئی ایس پی آر صاحب، بھاگ لگے رہن، مولا سلامت رکھے، جگ جگ جیئں۔ اوپر والاآپ کو بھی ایک دن فیلڈ مارشل بنائے اور عزت و تکریم کے مقامِ ثریا پر تا ابد براجمان رکھے۔

عالی جاہ! دنیا جانتی ہے کہ آپ ہیں تو ہم ہیں۔ ہم نہ بھی ہوں تو بھی آپ ہیں۔ آپ جس ادارے کے ترجمان ہیں اگر وہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی آج افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ وغیرہ وغیرہ ہوتا۔

یہ آپ ہی کے پیشروؤں کا کرم اور احسان ہے کہ بھلے 1948 اور 1965 کی جنگِ کشمیر ہو کہ 1971 کا معرکہِ حق و باطل کہ 1999 کا معرکہِ کارگل۔ آپنے ہمیشہ اس قوم کا سر فخر سے بلند کیے رکھا۔ آپ نے ہی افغانستان سے سوویت سامراج اور بعد ازاں امریکی سامراج کو نکال باہر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور کشمیریوں کو بھی خوداری سے جینا مرنا سکھایا۔

اٹھہتر برس میں جب جب بھی ٹچی نااہل سیاسی حکومتوں نے اس دیس کی لٹیا ڈبوئی تو آپ غازیوں نے ہی پیارے پاکستان کی ڈانوا ڈول کشتی کو بادلِ نخواستہ سنبھالا۔ خدا آپ کے زورِ بازو اور عزم کو اسی طرح تاقیامت نہ صرف برقرار رکھے بلکہ روز بروز اضافہ کرتا چلا جائے۔

حضورِ والاآپ نے سچ فرمایا کہ نہ کبھی فوج کا سیاست سے لینا دینا تھا نہ ہے اور نہ رہے گا۔ فوج محض ریاستی احکامات کا پابند اور اداروں کی طرح کا ایک ادارہ ہے جو ہمیشہ اپنی طے شدہ قانونی و پروفیشنل حدود و قیود میں رہ کر کام کرتا ہے۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ سپریم ہے۔ آئین محض بارہ صفحاتی کتاب نہیں بلکہ وہ پاک دستاویز ہے جس میں ریاست کی روح بند ہے۔

بعد از تمہیدِ طویل عرض یہ ہے کہ اس وقت اڈیالہ جیل میں عمران خان ولد اکرام اللہ نیازی نامی ایک مجرم بھی اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس جیل میں سینکڑوں اور قیدی بھی اپنے اپنے کرموں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ قیدی آپس میں لڑتے بھی ہیں اول فول بھی بکتے رہتے ہیں، چیختے چلاتے بھی ہیں۔ یہ دنیا بھر کا دستور ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ گنوار کی گالی ہنس کے ٹالی۔

ان میں سے بھی بہت سے قیدی جسمانی و نفسیاتی امراض و پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ ان مسائل سے نپٹنے کے لیے جیل کا ہسپتالی عملہ عموماً کافی ہوتا ہے۔ لہٰذا ان سینکڑوں قیدیوں میں سے کسی ایک کے لیے بطورِ خاص پریس کانفرنس کرنا یا اسی کی زبان میں جواب دینا آپ کے ادارے یا آپ کے شایانِ شان نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ عطا تارڑ یا خواجہ آصف کے لیول کا کام ہے۔

نہ صرف قوم آپ کے ادارے کی بہت عزت کرتی ہے بلکہ اب تو آپ لوگوں کا عالمی معززین کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے صدر شی جن پنگ اور شہزادہ محمد بن سلمان سے رجب طیب اردوان اور علی خامنہ ایتک سب آپ کی شاندار کارکردگی، دریا دلی اور ژرف نگاہی کے مداح ہیں۔

فلسطینی مظلوموں سمیت تمام عالمِ اسلام و عرب و عجم آپ کو بحیثیت ایٹمی طاقت امید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس ہائی فائی پروفائل کے ہوتے کسی چھٹ بھیئے قیدی کی اشتعال انگیز گفتگو کا دوبدو جواب دینا آپ کو ملنے والی عالمی عزت کے شایان نہیں۔ آپ نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

چلیے کوئی بات نہیں بندہ بشر ہے۔ غصے اور بہکاوے میں تو کوئی بھی آ سکتا ہے۔ بھول چوک معاف۔ مگر حضور والا اب جبکہ آپ اس ’کارزارِ دوبدو‘ میں کود ہی پڑے ہیں، کچھ کنفیوژن بھی دور ہو جائیں تو بہت عنایت ہو گی۔

آپ نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ وہ (عمران خان) ایک نرگسیت زدہ ذہنی مریض ہے، کومیکل نان سنس سک مائنڈ ہے، قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، گوئبلز کا استاد ہے، غدار ہے، انڈیا اور افغانستان کے ایجنڈے کا سہولت کار ہے وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ آپ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ ایک ذمہ دار اور حسّاس عہدیدار ہیں اس لیے آپ سے کم از کمیہ کمترین گذارش کر ہی سکتا ہے کہ کسی بھی شخص کو ذہنی مریض صرف کوالیفائیڈ ڈاکٹر یا میڈیکل بورڈ ہی ڈکلئیر کر سکتا ہے۔

ذہنی مریض چونکہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا لہٰذا وہ غداری و سہولت کاری جیسے منصوبہ بند کام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے اور قومی سلامتی سے زیادہ ذاتی سلامتیکے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ لہذا اسے دیکھ بھال اور نگرانی کی اوروں سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ کا ادارہ واقعی مستند طبی چھان پھٹک کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچچکا ہے کہ فلاں قیدی ذہنی مریض ہے تو پھر طبی و عمومی اخلاقیات کا بنیادی تقاضا ہے کہ نہ صرف علاج معالجے کی تسلی بخش معیاری سہولتیں فراہم کی جائیں بلکہ مریض کی طبی حالت کی بطور راز حفاظت کی جائے۔

اس طرح کی تشہیر سے صرف اور صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک ذہنی مریض نے نہ صرف سیاسی پارٹی بھی بنائی بلکہ انتخابات میں حصہ لے کر ایک جوہری قوت کا وزیرِ اعظم بھی بن گیا۔

حمید گل سے لے کر جنرل شجاع پاشا، ظہیرالسلام، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ تک کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی کہ جسے ہم ایک شفاف و ایماندار نجات دھندہ سمجھ رہے ہیں وہ تو دراصل ذہنی مریض ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض حاسد اسے آپ کی سنگین پیشہ ورانہ غفلت کا بیانیہ بنانے کی بھی کوشش کریں۔

یہ ملک پہلے ہی کئی غدار اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ڈکلئیر ہونے والے وزرائے اعظم اور لیڈر بھگت چکا ہے۔ اب ایک ذہنی مریض بھی دیکھنا باقی رہ گیا تھا جو آپ کے ہوتے کتنے آرام سے ساڑھے تین برس حکومت کر گیا اور پھر لاکھوں لوگوں کو بھی اپنے جیسا دیوانہ بنا دیا۔

اوچیاں شاناں والیو آپ کے بچے جیئں۔ آپ طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ آپ کو بڑے بڑے کام کرنے ہیں۔ آپ کا تو ایک ایک پل اس قوم کے لیے قیمتی ہے۔ جھاڑیوں میں دامن الجھانے سے کیا حاصل۔ ایسے تو نہ کریں جس سے ایسا لگے کہ اس وقت دراصل عمران خان جیلر ہے اور آپ اس کے قیدی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US