ایشیائی ترقیاتی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد آبادی کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کے ذخائر میں کمی، زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال، ماحولیاتی تبدیلی اور ناقص انتظامیہ کے سبب ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار 1972 میں 3500 مکعب میٹر سے کم ہو کر 1100 مکعب میٹر رہ گئی ہے جبکہ زہریلا آرسینک زیرزمین پانی میں پھیل رہا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلاؤ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق زراعت کے شعبے میں پانی کا زیادہ استعمال، شہری علاقوں میں ناقص انفراسٹرکچر اور بغیر ٹریٹمنٹ پانی کے اخراج سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ شہری علاقوں میں پانی کی سالانہ طلب تقریباً 10 فیصد بڑھ رہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں سپلائی غیر موثر اور نگرانی کا نظام کمزور ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واٹر سیکیورٹی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں اور آئندہ دہائی میں پاکستان کو پانی کے نظام کے لیے 35 سے 42 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ پانی کے ذخائر بڑھانے، انفراسٹرکچر بہتر کرنے اور واٹر گورننس مضبوط کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک میں بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پانی کے معیار کی نگرانی کے لیے آزاد اتھارٹی قائم کرنے، بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری اور اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ پانی اور صفائی کے نظام میں موجودہ اخراجات ضرورت کا صرف 40 فیصد ہیں اور آئندہ دہائی میں مزید اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔