اس فلیٹ میں بظاہر کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہاں کوئی جرم ہوا ہے۔ نہ تو کچھ بکھرا ہوا تھا اور نہ ہی کسی جگہ خون کا کوئی دھبہ تھا۔
یہ معمہ ہے کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے ملنے والی تین خواتین کی لاشوں اور ان کی موت کی وجہ کا جو اب تک حل نہیں ہو سکا ہےاس فلیٹ میں بظاہر کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے یہ پتا چلتا کہ وہاں کوئی جرم ہوا ہے۔ نہ تو کچھ بکھرا ہوا تھا اور نہ ہی کسی جگہ خون کا کوئی دھبہ تھا۔ نا ہی دھینگا مشتی کے کوئی آثار تھے، لیکن وہاں تین لاشیں موجود تھیں جن پر زخم کا کوئی نشان تک نہیں تھا۔
چھیپا کے رضا کار شاہد چوہدری کو یاد ہے کہ اتوار کی شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اطلاع ملنے پر جب وہ کراچی میں گلشن اقبال کے بلاک ون میں واقع حرمین رائل ریذیڈنسی کے اس فلیٹ میں داخل ہوئے تو انھوں نے کیا دیکھا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہد نے بتایا کہ ’ایک کمرے میں بیڈ پر ایک خاتون کی لاش موجود تھی جبکہ اسی بیڈ پر ایک نوجوان شخص نیم بیہوشی کی حالت میں تھا۔ ایک اور کمرے میں ایک نوجوان عورت کی لاش تھی جو انھیں ایک یا دو دن پرانی محسوس ہوئی۔ ڈرائنگ روم میں ایک صوفے پر ایک اور خاتون کی لاش تھی۔‘
کچن کے باہر ایک کرسی پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جو اس گھر کا سربراہ تھا۔
یہ معمہ ہے کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے ملنے والی تین خواتین کی لاشوں اور ان کی موت کی وجہ کا جو اب تک حل نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس کے مطابق انھیں کیمائی تجزیاتی رپورٹ کا انتظار ہے کیونکہ ابتدائی پوسٹ مارٹم میں موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
محمد شاہد، جو چھیپا کے رضاکار ہیں، اسی واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ بی بی سی نے جب اس مقام کا دورہ کیا تو معلوم ہوا حرمین رائل ریذیڈنسی تین بلاکس پر مشتمل ہے جس میں سے ایک میں یہ کارنر فلیٹ تھا جو مرکزی داخلی دروازے سے ہی دیکھا جا سکتا تھا اور اس کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔
دو کمروں میں تین لاشیں
گلشن اقبال تھانے کے اے ایس آئی عرض محمد ون فائیو سے اطلاع ملنے پر اس فلیٹ میں پہنچے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فلیٹ میں تین کمرے تھے اور ان میں سے دو میں لاشیں موجود تھیں۔
اے ایس آئی عرض محمد کے مطابق گھر کی صورتحال ’معمول والی تھی۔ کوئی بھی چیز بکھری ہوئی نہیں تھی جبکہ متاثرہ افراد کے جسم پر زخم یا خون کے نشانات نہیں پائے گئے۔‘
حرمین ریزیڈنسی میں اس واقعے کے بعد ہماری ملاقات اقبال خان سے ہوئی۔ وہ متاثرہ خاندان سے ایک منزل اوپر رہتے ہیںاس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق، جو گلشن اقبال تھانے میں عرض محمد کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ ’ان کو فون پر اطلاع ملی تو وہ فلیٹ پہنچے اور دیکھا کہ سب مر چکے ہیں، بس ایک ہی شخص زندہ ہے جو ہلکی سانسیں لے رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان تھا جو بیڈ پر موجود تھا۔‘
عجیب بات یہ ہے کہ مقدمہ اور پولیس کے مطابق گھر کے مالک، جن کو شاہد نے ایک کرسی پر بیٹھے پایا تھا، فلیٹ کو اندر سے بند کیے بیٹھے تھے۔ جب ان سے پولیس نے سوال کیا کہ فلیٹ اندر سے لاک کیوں تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بس، لاک کر دیا تھا۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اس گھر کے سربراہ نے ’پہلے اپنی بہن کو اطلاع دی جنھوں نے اپنے بھائی کو بتایا اور انھوں نے فلیٹ پر جا کر ون فائیو پر فون کیا جس کے بعد عرض محمد وہاں پہنچے۔‘ انھوں نے جن افراد کی لاشیں دیکھیں، ان میں ایک 53 سالہ خاتون اور گھر کے سربراہ کی اہلیہ تھیں جبکہ زندہ پایا جانے والا شخص ان کا 19 سالہ بیٹا تھا۔ دیگر لاشوں میں سے ایک ان کی 22 سالہ بہو اور ایک 14 سالہ بیٹی تھی۔
پولیس نے ابتدائی طور پر جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کیے اور عباسی شہید ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا جس کے بعد کیمائی تجزیے کے لیے نمونے جمع کرا دیے گئے ہیں۔ ان نمونوں کی رپورٹ آنے کا پولیس کو انتظار ہے۔
اس رپورٹ سے یہ بھی طے ہونا ہے کہ یہ لاشیں کتنے دن پرانی تھیں۔ تاہم ایس ایس پی نذیر شیخ کے مطابق ’اس پورے عرصے میں گھر کا سربراہ لاشوں کے ساتھ موجود رہا‘ جو پولیس کے مطابق اس وقت زیرحراست اور زیرتفتیش ہیں۔ ان کا بیٹا بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔

متاثرہ خاندان کون تھا؟
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندان پہلے رنچھوڑ لائن میں رہائش پذیر تھا جہاں سے وہ گلشن اقبال منتقل ہوا۔
حرمین ریزیڈنسی میں اس واقعے کے بعد ہماری ملاقات اقبال خان سے ہوئی۔ وہ متاثرہ خاندان سے ایک منزل اوپر رہتے ہیں۔
ان کے مطابق ان کا اور متاثرہ خاندان کے سربراہ کا پہلا نام ایک ہی ہے تاہم ان کے درمیان رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مسجد میں سلام دعا کے علاوہ اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔‘
اقبال خان نے بتایا کہ متاثرہ خاندان پہلے گلشن اقبال بلاک ڈی میں ایک چھوٹے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا لیکن بعد میں بلاک اے میں منتقل ہوا۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر پانچ سال سے یہ خاندان اسی جگہ رہ رہا تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انھیں پتا نہیں چلا کہ ان کے نیچے والے فلیٹ میں کیا ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں تو اس دن پتہ چلا جب پولیس آئی۔‘
پولیس کے مطابق گھر کا سربراہ اور ان کا بیٹا، جو نیم بیہوشی کی حالت میں پایا گیا تھا، اب ان کی تحویل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق گھر کے سربراہ خود کوئی کام نہیں کرتے جبکہ ان کا بیٹا ریئل سٹیٹ کا کام کرتا ہے۔