بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے کوٹ خان محمد میں کچھ روز قبل ایک دُکان میں چوری کا واقعہ پیش آیا تھا اور ان افراد کو اسی واقعے میں بےگناہی ثابت کرنے کے لیے دہکتے ہوئے انگاروں پر سے گزرنا پڑا تھا۔
اس فرسودہ رسم کو ’آس آف‘ کہا جاتا ہےہاتھوں میں ایک بڑی سی لاٹھی اٹھائے کچھ لوگ ننگے پاؤں ایک گڑھے میں موجود دہکتے ہوئے انگاروں سے گزر رہے ہیں اور وہاں سے نکلنے کے بعد لوگ ان کو اٹھا کر ایک چادر پر لے جاتے ہیں اور ان کے پیروں پر کوئی چیز ملتے ہیں۔
یہ مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں نظر آنے والے اس واقعے کے ہیں، جس میں آٹھ افراد کو بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انگاروں پر سے گزرنا پڑا۔
بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے کوٹ خان محمد میں کچھ روز قبل ایک دُکان میں چوری کا واقعہ پیش آیا تھا اور ان افراد کو اسی واقعے میں بےگناہی ثابت کرنے کے لیے دہکتے ہوئے انگاروں پر سے گزرنا پڑا تھا۔
انگاروں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی اس فرسودہ رسم کو بلوچستان کے مشرقی اور شمال مشرقی علاقوں میں بلوچی میں ’آس آف‘ جبکہ پشتو زبان میں ’چُر‘ کہا جاتا ہے۔
موسیٰ خیل کے ڈپٹی کمشنر عبدالرزاق خجک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انتظامیہ نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اس غیر قانونی اقدام کو سرانجام دینے والوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔
وائرل ہونے والی ویڈیوز میں کیا ہے؟
سرکاری حکام کے مطابق کوٹ خان محمد کے علاقے میں گلا خان نامی ایک شخص کے دکان میں چوری کا واقعہ پیش آیا تھا۔
چوری کا الزام آٹھ افراد پر لگایا تھا، جنھیں جرگے کے فیصلے کے مطابق بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انگاروں سے گزرنا پڑا۔
یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے قبائلی علاقے ’پگھلہ‘ میں پیش آیا ہے (فائل فوٹو)وائرل ہونے والی ویڈیوز میں گزرنے سے پہلے مبینہ ملزمان گڑھے کے ایک کونے پر کھڑے ہوکر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ’اگر میں نے گلا خان کی دکان میں چوری کی، اس میں شامل ہوں یا اس سے متعلق مجھے کوئی خبر ہو تو اللہ مجھے اس آگ میں جلائے۔‘
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ ملزمان ایک، ایک کر کے انگاروں سے گزرتے ہیں اور نکلنے کے ساتھ ہی وہاں موجود لوگ ان کو ایک چادر پر اٹھا کرلے جاتے ہیں اور ان کے پیروں پر کوئی چیز لگاتے ہیں۔
جب آٹھوں افراد انگاروں پر سے گزر جاتے ہیں تو وہاں پر موجود لوگ انھیں بلند آواز میں مبارکباد دیتے ہیں۔
’غیر قانونی عمل کا فیصلہ کرنے اور سرانجام دینے والوں کے خلاف کاروائی‘
ڈپٹی کمشنر موسٰی خیل عبدالرزاق خجک کا کہنا ہے کہ ملزمان کو انگاروں سے گزارنے کا واقعہ ضلع کے علاقے کوٹ خان محمد میں پیش آیا تھا، جو کہ ایک دور دراز علاقہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ کے نوٹس میں آنے کے بعد اس غیر قانونی عمل کا فیصلہ کرنے والوں اور اسے سرانجام دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے مزید بتایا کہ اب تک اس واقعے میں ملوث چار افراد کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے جن میں ایک دکاندار اور انگاروں کو دہکانے والے افراد شامل ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں ۔
انگاروں سے گزارنے کی رسم کیا ہے اور یہ بلوچستان کے کن علاقوں میں عام ہے؟
بلوچستان میں بلوچ رسم و رواج پر تحقیق کرنے والے دانشور اور ادیب پناہ بلوچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 'بے گناہی ثابت کرنے کے لیے یہ رسم زیادہ تر مشرقی اور شمال مشرقی بلوچستان کے علاقوں میں ہوتی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ اس رسم کو بلوچی زبان میں ’آس آف‘ کہتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’آس آگ کو کہتے ہیں اور آف پانی کو۔‘
اس رسم کے بارے میں انھوں نے مزید بتایا کہ ’آگ سے گزارنے کے لیے ایک گڑھا کھودا جاتا ہے، جس کی لمبائی چھ قدم ہوتی ہے جبکہ چوڑائی اور گہرائی دو دو فٹ ہوتی ہے۔ اس میں ایک فٹ تک انگارے ہوتے ہیں۔ ان انگاروں پر سے گزر کر بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔‘
اسی نوعیت کی ایک اور رسم کے تحت ملزم کو بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ہاتھ میں گرم لوہا پکڑنا پڑتا ہے (فائل فوٹو)پناہ بلوچ کے مطابق بلوچستان کے مختلف قبائل کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں کے بھی کچھ علاقوں میں یہ رسم رائج ہے۔ ’بلوچستان کے ساتھ ملحقہ سندھ کے علاقوں میں اس فرسودہ رسم کو ’چربیل‘ یا ’چربیلی‘ کہا جاتا ہے۔‘
محقق کے مطابق اس رسم کی ادائیگی کے وقت ایک مذہبی عالم بھی وہاں موجود ہوتا ہے جو کہ انگاروں پر کچھ پڑھ کر ان پر کچھ سبز پتے پھینکتا ہے اور پھر ملزم کو وضو کر کے انگاروں سے گزرنا ہوتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’انگاروں پر سے گزرنے والے شخص کے پیروں کو زمین پر نہیں لگنے دیا جاتا بلکہ کوئی شخص اسے اوپر اٹھا کر اس کے پیروں کو تازہ زبح کیے جانے والے بکرے کے خون پر رکھتا ہے۔ اگر ان پیروں پر آبلے پڑ گئے ہوں تو وہ مجرم ہوتا ہے اور اگر ان پر آبلے نہ پڑیں تو وہ بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔‘
ڈیرہ غازی خان میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا پکڑوانے کی رسم
خیال رہے پاکستان میں ایسے واقعے اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
کچھ دن قبل ایک ایسا ہی واقعہ بلوچستان سے ملحقہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں آیا تھا جہاں چوری کے الزام میںایک شخص کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ہاتھ میں گرم لوہا پکڑنا پڑا تھا۔
ضلعی انتظامیہ نے سزا دینے والے غیرقانونی جرگے کے تمام اراکین کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے قبائلی علاقے ’پگھلہ‘ میں گذشتہ ماہ پیش آیا تھا۔
مقامی حکام کے مطابق ایک مقامی شخص نے دوسرے پر سولر پلیٹس اور انورٹر چوری کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس پر یہ معاملہ جرگہ کے سامنے پیش ہوا تو جرگے نے متفقہ فیصلہ دیا کہ جس شخص کو الزام کا سامنا ہے وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم لوہا ہاتھ میں پکڑے۔
اس علاقے میں رائج قبائلی روایات کے مطابق اگر الزام کا سامنا کرنے والا شخص بے گناہ ہو گا تو گرم لوہے سے اُس کے ہاتھ نہیں جھلسیں گے اور اگر گناہگار ہوا تو اُس کے ہاتھ جھلس جائیں گے۔
اس ایف آئی آر میں مقامی قبائلی عمائدین کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر کو بھی نامزد کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر اُس جرگے کے رُکن تھے جس نے یہ فیصلہ صادر کیا۔
پولیٹکل اسسٹنٹ تیمور کمال نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کے ہاتھ جرگے کے حکم جھلسائے گئے ہیں اُس نے ابھی تک پولیٹیکل انتظامیہ یا بارڈر پولیس کے پاس شکایت درج نہیں کروائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کی معلومات کے مطابق یہ واقعہ پیش آیا ہے جو کہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اسی بنیاد پر مقامی پولیٹیکل انتظامیہ اپنے طور پر اس کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ جرگے کے حکم پر گرم لوہا پکڑنے کے باعث جس شخص کے ہاتھ جھلسے ہیں اُس کی والدہنے پولیس کو اپنے بیٹے کو ڈرانے دھمکانے اور اغوا کرنے کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ہے اور اس درخواست کو بھی انتظامیہ کی مدعیت میں درج مقدمے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
پولیٹیکل اسسٹنٹ کے مطابق یہ واقعہ پانچ نومبر کو پیش آیا تھا تاہم اس کا مقدمہ تقریبا ایک ماہ بعد دو دسمبر کو درج کیا گیا ہے۔