اس فلیٹ میں بظاہر کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہاں کوئی جرم ہوا ہے۔ نہ تو کچھ بکھرا ہوا تھا اور نہ ہی کسی جگہ خون کا کوئی دھبہ تھا۔
یہ معمہ ہے کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے ملنے والی تین خواتین کی لاشوں اور ان کی موت کی وجہ کا جو اب تک حل نہیں ہو سکا ہےکراچی پولیس نے گلشنِ اقبال کے ایک فلیٹ سے تین خواتین کی لاشیں ملنے کا معمہ حل کر کے مبینہ قاتلوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
بدھ کو کراچی کے ضلع شرقی کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) زبیر نذیر شیخ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس گھر کے سربراہ اور ان کے بیٹے نے تینوں خواتین کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔
پولیس افسر کے مطابق ان تینوں خواتین کو مبینہ طور پر زہر دے کر مارا گیا ہے اور اس خاندان کے گھر سے چوہے مار دوا کی بوتلیں اور نیند کی گولیوں کے ریپر برآمد کیے گئے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں واقع حرمین رائل ریذیڈینسی کے ایک فلیٹ سے تین خواتین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں اور اسی فلیٹ میں ایک شخص بھی بیہوشی کی حالت میں ملا تھا۔
پولیس کے مطابق اہلخانہ کے ذریعے انھیں خواتین کے لاشوں کی موجودگی کے بارے میں علم ہوا تھا۔
چھیپا کے رضا کار شاہد چوہدری اس فلیٹ پر سب سے پہلے پہنچنے والے افراد میں سے ایک تھے۔
شاہد کہتے ہیں کہ اتوار کی شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اطلاع ملنے پر جب وہ گلشن اقبال کے بلاک ون میں واقع حرمین رائل ریذیڈنسی کے اس فلیٹ میں داخل ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں بظاہر کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس سے یہ پتا چلتا کہ وہاں کوئی جرم ہوا ہے۔ نہ تو کچھ بکھرا ہوا تھا اور نہ ہی کسی جگہ خون کا کوئی دھبہ تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہد نے بتایا کہ ’ایک کمرے میں بیڈ پر ایک خاتون کی لاش موجود تھی جبکہ اسی بیڈ پر ایک نوجوان شخص نیم بیہوشی کی حالت میں تھا۔ ایک اور کمرے میں ایک نوجوان عورت کی لاش تھی جو انھیں ایک یا دو دن پرانی محسوس ہوئی۔ ڈرائنگ روم میں ایک صوفے پر ایک اور خاتون کی لاش تھی۔‘
کچن کے باہر ایک کرسی پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جو اس گھر کا سربراہ تھا۔
بی بی سی نے جب اس مقام کا دورہ کیا تو معلوم ہوا حرمین رائل ریذیڈنسی تین بلاکس پر مشتمل ہے جس میں سے ایک میں یہ کارنر فلیٹ تھا جو مرکزی داخلی دروازے سے ہی دیکھا جا سکتا تھا اور اس کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔
خواتین کو کیسے قتل کیا گیا؟
ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ کے مطابقگھر کے سربراہ اور ان کے بیٹے مبینہ طور پر اس واقعے کے مرکزی کردار ہیں۔
پولیس افسر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ باپ اور بیٹے نے پہلے گھر کی بہو کو زہر دے کر کمرے میں بند کیا اور بعد میں ماں اور بیٹی کو اتوار کے روز جوس میں زہر ملا کر دیا۔
ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ مزید کہتے ہیں کہ تینوں خواتین کو زہر دینے کے بعد بیٹے نے بھی خودکشی کی کوشش کی تھی، جنھیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں اس فلیٹ سے چوہے مار دوا کی آٹھ، دس بوتلیں اور کثیر تعداد میں نیند کی گولیوں کے ریپر ملے ہیں۔
ایس یس پی ضلع شرقی کا دعویٰ ہے کہ زیرِ حراست باپ اور بیٹے نے دورانِ تفتیش تینوں خواتین کو زہر دے کر قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
پولیس کے مطابق متاثرہ خاندان پر ڈیڑھ کروڑ کا قرض بھی تھا۔
دو کمروں میں تین لاشیں
گلشن اقبال تھانے کے اے ایس آئی عرض محمد ون فائیو سے اطلاع ملنے پر حرمین رائل ریذیڈینسی کے اس فلیٹ میں پہنچے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فلیٹ میں تین کمرے تھے اور ان میں سے دو میں لاشیں موجود تھیں۔
اے ایس آئی عرض محمد کے مطابق گھر کی صورتحال ’معمول والی تھی۔ کوئی بھی چیز بکھری ہوئی نہیں تھی جبکہ متاثرہ افراد کے جسم پر زخم یا خون کے نشانات نہیں پائے گئے۔‘
حرمین ریزیڈنسی میں اس واقعے کے بعد ہماری ملاقات اقبال خان سے ہوئی۔ وہ متاثرہ خاندان سے ایک منزل اوپر رہتے ہیںاس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق، جو گلشن اقبال تھانے میں عرض محمد کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کی گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ ’ان کو فون پر اطلاع ملی تو وہ فلیٹ پہنچے اور دیکھا کہ سب مر چکے ہیں، بس ایک ہی شخص زندہ ہے جو ہلکی سانسیں لے رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان تھا جو بیڈ پر موجود تھا۔‘
عجیب بات یہ ہے کہ مقدمہ اور پولیس کے مطابق گھر کے مالک، جن کو شاہد نے ایک کرسی پر بیٹھے پایا تھا، فلیٹ کو اندر سے بند کیے بیٹھے تھے۔ جب ان سے پولیس نے سوال کیا کہ فلیٹ اندر سے لاک کیوں تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بس، لاک کر دیا تھا۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اس گھر کے سربراہ نے ’پہلے اپنی بہن کو اطلاع دی جنھوں نے اپنے بھائی کو بتایا اور انھوں نے فلیٹ پر جا کر ون فائیو پر فون کیا جس کے بعد عرض محمد وہاں پہنچے۔‘ انھوں نے جن افراد کی لاشیں دیکھیں، ان میں ایک 53 سالہ خاتون اور گھر کے سربراہ کی اہلیہ تھیں جبکہ زندہ پایا جانے والا شخص ان کا 19 سالہ بیٹا تھا۔ دیگر لاشوں میں سے ایک ان کی 22 سالہ بہو اور ایک 14 سالہ بیٹی تھی۔
پولیس نے ابتدائی طور پر جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کیے اور عباسی شہید ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا جس کے بعد کیمائی تجزیے کے لیے نمونے جمع کرا دیے گئے ہیں۔ ان نمونوں کی رپورٹ آنے کا پولیس کو انتظار ہے۔
اس رپورٹ سے یہ بھی طے ہونا ہے کہ یہ لاشیں کتنے دن پرانی تھیں۔ تاہم ایس ایس پی نذیر شیخ کے مطابق ’اس پورے عرصے میں گھر کا سربراہ لاشوں کے ساتھ موجود رہا‘ جو پولیس کے مطابق اس وقت زیرحراست اور زیرتفتیش ہیں۔ ان کا بیٹا بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔

متاثرہ خاندان کون تھا؟
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندان پہلے رنچھوڑ لائن میں رہائش پذیر تھا جہاں سے وہ گلشن اقبال منتقل ہوا۔
حرمین ریزیڈنسی میں اس واقعے کے بعد ہماری ملاقات اقبال خان سے ہوئی۔ وہ متاثرہ خاندان سے ایک منزل اوپر رہتے ہیں۔
ان کے مطابق ان کا اور متاثرہ خاندان کے سربراہ کا پہلا نام ایک ہی ہے تاہم ان کے درمیان رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مسجد میں سلام دعا کے علاوہ اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔‘
اقبال خان نے بتایا کہ متاثرہ خاندان پہلے گلشن اقبال بلاک ڈی میں ایک چھوٹے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا لیکن بعد میں بلاک اے میں منتقل ہوا۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر پانچ سال سے یہ خاندان اسی جگہ رہ رہا تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انھیں پتا نہیں چلا کہ ان کے نیچے والے فلیٹ میں کیا ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں تو اس دن پتہ چلا جب پولیس آئی۔‘
پولیس کے مطابق گھر کا سربراہ اور ان کا بیٹا، جو نیم بیہوشی کی حالت میں پایا گیا تھا، اب ان کی تحویل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق گھر کے سربراہ خود کوئی کام نہیں کرتے جبکہ ان کا بیٹا ریئل سٹیٹ کا کام کرتا ہے۔