انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ایک خاندان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ شخص جس کی آخری رسومات انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ادا کی تھیں وہ 12 سال بعد واپس آجائے گا۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ کبھی کبھی حقیقتیں فسانوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں لیکن جب تک ایسی کسی حقیقت کا سامنا نہ ہو یہ بات صرف ایک کہاوت کی طرح ہی لگتا ہے۔
لیکن شیوم اور اس کے خاندان کے ساتھ جو ہوا وہ حقیقت اور فسانے کا ایک امتزاج سا ہے۔
انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ایک خاندان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ شخص جس کی آخری رسومات انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ادا کی تھیں وہ 12 سال بعد واپس آجائے گا۔
مگر مہاراشٹر کے شہر پونے کے ریجنل مینٹل ہسپتال کے عملے اور پولیس افسران کے تعاون کی بدولت کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
ابتدا میں ’شیوم‘ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ سنہ 2013 میں اتراکھنڈ کے مذہبی مقام کیدارناتھ میں آنے والے سیلاب میں بہہ گیا تھا۔انھیں لاپتا جان کر مردہ قرار دیا گیا تھا اور ان کی علامتی آخری رسومات بھی ادا کر دی گئی تھیں۔
لیکن گذشتہ دنوں یہ شخص وہاں سے سینکڑوں میل دور مہاراشٹر میں زندہ پائے گئے ہیں۔
سنہ2021 میں چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے ویجاپور تعلقہ میں کچھ لوگ ایک مندر سے چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ چوروں نے گاؤں والوں کو بتایا کہ چوری وہاں رہنے والے ایک شخص نے کروائی ہے۔
اسی مندر میں ایک ادھیڑ عمر شخص رہتا تھا، جسے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
جب اس شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج کو معلوم ہوا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہے اور پولیو کا شکار بھی ہے۔ دونوں ٹانگوں میں معذوری کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔
عدالت نے حکم دیا کہ اسے ہسپتال میں داخل کیا جائے۔
عدالت جو بھی سوال کرتی وہ شخص ’اوم نمہ شیواے‘ (ہندو عقیدت کے الفاظ) کے ساتھ جواب دیتا۔ جج کے حکم پر اسے پونے کے معروف یرواڈا مینٹل ہسپتال کے قیدی وارڈ میں داخل کروا دیا گیا۔
وہاں کا عملہ اسے 'شیوم‘ کہنے لگا۔ یہ ان کا اصلی نام نہیں تھا بلکہ یہ نام انھیں ہسپتال کے عملے نے دیا تھا۔
پونے کا مینٹل ہسپتالمتعلقہ نفسیاتی ہسپتال کے سوشل سروسز ڈیپارٹمنٹ کی سپرنٹنڈنٹ روہنی بھوسلے نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ شیوم کی عمر تقریباً 50-52 کے پیٹے میں ہوگی۔
شیوم کسی سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ عملہ جو کچھ بھی کہتا وہ خاموشی سے سنتے اور اس پر عمل کرتے۔
سنہ 2023 میں روہنی بھوسلے متعلقہ وارڈ کی سوشل سروس سپرنٹنڈنٹ بن گئیں۔ اس کے بعد روہنی نے شیوم کی فائل کو دیکھا اور ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔
شیوم کو مراٹھی نہیں آتی تھی۔ جب روہنی نے دیکھا کہ وہ تھوڑی ہندی بولنے کی کوشش کر رہے ہیں تو انھوں نے شیوم سے ہندی میں بات کرنے کی کوشش کی۔
تب ہی انھیں احساس ہوا کہ شیوم پہاڑی ہندی لہجے میں بات کر رہے ہیں۔
شیوم کے خاندان کا سراغ کیسے لگایا گیا؟
یہ سمجھتے ہوئے کہ شیوم اپنے خاندان یا ماضی کی یادوں کے بارے میں زیادہ انکشاف نہیں کر سکتا، روہنی نے ان سے ان کے سکول کے بارے میں پوچھا۔
سکول کا موضوع آیا تو انھوں نے روڑکی کے ایک سکول کا ذکر کیا۔ (شیوم کی شناخت کے تحفظ کے لیے سکول کا نام مخفی رکھا گیا ہے۔)
روہنی نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا: ’جب میں نے سکول کا نام سنا تو مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کس شہر میں ہے۔ لیکن پھر بات چیت میں ہری دوار کا ذکر آیا اور میں نے گوگل پر سرچ کرنا شروع کر دیا کہ کیا ہری دوار یا اس کے آس پاس اس نام کا کوئی سکول موجود ہے۔‘
روہنی کہتی ہیں: ’مجھے ایک سکول ملا جس کا نام شیوم نے لیا تھا۔ میں نے شیوم کو سکول کی تصویر دکھائی اور اس نے فوراً اسے پہچان لیا۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔‘
اس کے بعد روہنی نے روڑکی اور ہری دوار میں پولیس سے رابطہ کیا۔ جب اتراکھنڈ پولیس نے چھان بین کی تو انھیں اسی طرح کی تفصیلات کے ساتھ ایک شخص کا ریکارڈ ملا۔
لیکن پولیس ریکارڈ میں کہا گیا ہے کہ وہ (شیوم) سنہ 2013 کے کیدارناتھ سیلاب میں بہہ گیا تھا۔
روہنی بتاتی ہیں کہ پولیس نے پہلے شیوم کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا اس جیسا کوئی شخص لاپتا ہوا ہے۔ اس کے بعد خاندان نے انھیں بتایا کہ ان کا بھائی کیدارناتھ کے سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ جب ان کی لاش نہیں ملی تو انھوں نے علامتی طور پر ان کی آخری رسومات ادا کر دیں۔
پولیس نے انھیں شیوم کی تصویر دکھائی تو ان کے بھائی نے انھیں پہچان لیا۔
سنہ 2013 میں اتراکھنڈ میں شدید سیلاب آیا تھا اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھیشیوم ویجا پور کیسے پہنچے؟
شیوم کئی سالوں سے لاپتا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ 2013 کے سیلاب میں بہہ گئے تھے لیکن دراصل وہ اس واقعے سے پہلے سے لاپتا تھا۔
روہنی کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً بیس سال گھر سے دور رہے۔ شیوم کو یہ یاد نہیں ہے کہ وہ اتراکھنڈ سے ویجا پور کیسے پہنچے، اس لیے وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکے۔
سنہ 2015 میں شیوم نے ویجا پور کے ایک مندر میں رہنا شروع کیا۔ وہ وہیں کھاتے، سوتے اور مندر کی صفائی بھی کرتے۔
لیکن روہنی نے کہا کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ وہاں کیسے پہنچے۔
تو شیوم کے گھر والوں نے انھیں کیسے پہچانا؟
دراصل شیوم کے سامنے اتراکھنڈ میں ان کے گھر والوں کو ویڈیو کال کی گئی تھی۔
شیوم کے بھائی نے ویڈیو کال پر ان سے بات کی اور انھیں پہچان لیا۔
اتنا ہی نہیں شیوم نے اپنے بھائی کو بھی پہچان لیا اور سب رونے لگے۔
کیدارناتھ کے اس مندر کو بھی نقصان پہنچا تھانفسیاتی ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سری نواس کولودے نے کہا: ’اس کے بعد شیوم ہسپتال میں بہت خوش رہنے لگے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ خون کسی بھی مائع سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے۔‘
’ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اتنے سالوں بعد بھی شیوم نے اپنے بھائی کو پہچان لیا۔‘
شیوم کا خاندان ان سے ملنے پونے آیا لیکن انھیں واپس لے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
شیوم پر چوری کے الزامات کا کیا ہوا؟
شیوم اپنے رشتہ داروں سے تو مل گئے لیکن انھیں چوری کے الزام سے بری نہیں کیا گیا تھا۔
روہنی بھوسلے کہتی ہیں: ’جب مجھے اس کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے کیس کی نوعیت کا جائزہ لیا۔‘
جب پولیس اور جج کو چوری کے معاملے کی اطلاع ملی تو 2023 میں چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔ اس کے بعد کیس کی سماعت ہوئی۔ یہ بھی پتا چلا کہ اس پر مقدمہ نہیں چلایا جا رہا ہے۔
چونکہ شیوم چلنے پھرنے سے قاصر اس لیے انھیں ویڈیو کال کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا۔ چوری کے کیس میں گرفتار ملزمان نے عدالت کو بتایا کہ شیوم چوری میں ملوث نہیں تھے۔
روہنی کہتی ہیں کہ ملزمان نے بتایا کہ ’جب گاؤں والوں نے ہمیں پکڑا تو ہم نے جھوٹ بولا اور ایک ایسے شخص کا نام دیا جو اسی جگہ کام کرتا تھا، اس ڈر سے کہ وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘
’ان کی گواہی کے بعد کیس کا فیصلہ ستمبر 2025 میں ہوا اور شیوم کو بری کر دیا گیا۔ حکمنامے کی ایک کاپی نومبر میں آئی اور پھر ہم نے شیوم کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا۔‘
شیوم کی اہل خانہ سے ملاقات اور ہسپتال سے رخصتی
روہنی کا کہنا ہے کہ شیوم اور ان کے خاندان سے ملاقات ہمارے لیے ایک ناقابل فراموش لمحہ تھا۔
روہنی نے کہا: ’گذشتہ چار سالوں سے ہسپتال کے عملے کے اراکین نیلیش دیگے اورکویتا گاڈے وارڈ میں شیوم کی بہترین دیکھ بھال کر رہے تھے۔‘
’شیوم کو الوداع کہنا ہمارے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا کیونکہ وہ سب کے لیے ایک فیملی ممبر کی طرح تھے لیکن ہم سب یقیناً خوش تھے کہ وہ اپنے خاندان کے پاس جا رہے ہیں۔‘
سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سرینواس کولودے نے کہا: ’گذشتہ چار یا پانچ سالوں میں ہمارا ان کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ بن گیا تھا۔ وہ بہت پرسکون اور نرم مزاج شخص ہیں اور اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ چاہے کھانے کے بعد ہماری پلیٹیں دھونا ہو یا بستر ٹھیک کرنا، وہ اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کرتے تھے۔‘
روہنی بھوسلے نے کہا کہ شیوم کے بھائی سرکاری ملازم ہیں اور انھوں نے اس واقعے کے حوالے سے میڈیا پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
روہنی نے کہا کہ خاندان فی الحال خوش ہے لیکن ساتھ ہی درخواست کی ہے کہ ان کی رازداری کا احترام کیا جائے، اس لیے بی بی سی نے خاندان سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں مانگا۔