’چاول ڈمپ کرنے‘ سے متعلق بیان کے بعد مودی اور ٹرمپ کے درمیان رابطہ: انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے میں تاخیر کیوں؟

وزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں طے پایا ہے کہ امریکہ اور انڈیا، عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں گے۔
امریکہ، انڈیا ٹیرف
Getty Images
امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر اختلافات برقرار ہیں

’میری بہت گرمجوشی کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بامعنی گفتگو ہوئی ہے۔ ہم نے باہمی تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لیا ہے جبکہ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بھی بات کی ہے۔‘

یہ الفاظ ہیں انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے جو ایکس پر اپنی پوسٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جمعرات کو ہونے والی اپنی ٹیلی فونک گفتگو کا احوال بتا رہے تھے۔

وزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں طے پایا ہے کہ امریکہ اور انڈیا، عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ اور انڈیا کے مابین جاری ٹیرف کے معاملے پر تناؤ کے دوران یہ امریکی صدر اور وزیر اعظم مودی کے درمیان یہ تیسرا ٹیلی فونک رابطہ تھا، جس کی وائٹ ہاؤس نے بھی تصدیق کی ہے۔

’انڈیا مسلسل چاول ڈمپ کر رہا ہے‘

کچھ روز قبل ہی وائٹ ہاؤس میں دلچسپ منظر دیکھا گیا تھا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں آٹھ دسمبر کو ہونے والے ایک اجلاس کے دوران وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ سے استفسار کیا کہ ’انڈیا مسلسل امریکہ میں چاول ڈمپ کر رہا ہے۔ انھیں یہ کرنے کی اجازت کیوں ہے؟ انھیں اس پر ٹیکس دینا ہو گا۔ کیا انھیں چاول پر عائد محصول سے چھوٹ حاصل ہے؟‘

اس پر سکاٹ بیسنٹ نے جواب دیا کہ ’نہیں سر، ہم اب بھی اُن کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘

اس پر ٹرمپ نے فورا کہا: ’ہاں، لیکن وہ اپنا چاول یوں ہی یہاں نہیں بھیج سکتے۔ انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

وائٹ ہاؤس میں ہونے والا یہ اجلاس امریکی کسانوں کے مفادات کے تحفظ سے متعلق تھا۔

اسی اجلاس کے دوران ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ دیگر ممالک پر لگائے گئے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 12 ارب ڈالر سے امریکی کسانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔

وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور سکاٹ بیسنٹ کے درمیان ہونے والی اس گفتگو، جو براہ راست نشر ہو رہی تھی، نے انڈیا کے خدشات کو مزید بڑھاوا دیا ہے اور اب مبصرین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چاول کے مسئلے کی بنیاد پر انڈیا پر دوبارہ نئے محصولات عائد کر سکتے ہیں۔

اس وقت امریکہ نے انڈیا پر 50 فیصد محصول عائد کر رکھا ہے، جس میں روس سے تیل خریدنے پر بطور سزا 25 فیصد کا اضافی محصول بھی شامل ہے۔

اصل مسئلہ کیا ہے؟

وائٹ ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کے دوران ٹرمپ نے انڈیا کی چاول برآمدات کے لیے ’ڈمپنگ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اپنا چاول اس طرح امریکہ میں ڈمپ نہیں کر سکتا، اور امریکہ اس کا تدارک کرے گا۔‘

امریکہ میں کسانوں کا الزام ہے کہ انڈیا، ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ممالک چاول اور دیگر زرعی مصنوعات کم قیمت پر امریکہ بھیجتے ہیں، جو اُن (امریکی کسانوں) کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔

وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں ایک کسان نمائندے صدر ٹرمپ سے کہا کہ ’کسان پہلے ہی گذشتہ حکومت (بائیڈن انتظامیہ) کی پالیسیوں اور بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔‘

امریکہ کے زرعی شعبے سے منسلک افراد اور رہنما عمومی طور پر ٹرمپ کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔

انڈیا امریکہ کی زرعی مصنوعات پر اوسطاً 37.7 فیصد محصول لگاتا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ انڈین زرعی مصنوعات پر صرف 5.3 فیصد محصول لگاتا تھا، تاہم ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات کے بعد یہ شرح اب بڑھ کر 25 فیصد ہو گئی ہے۔

چاول کے معاملے پر انڈیا کے لیے ٹرمپ کا یہ انتباہ ایک نازک وقت پر سامنے آیا ہے۔

امریکی صدر بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ روس سے تیل خرید کر انڈیا نے ’یوکرین جنگ میں پوتن کی مدد کی ہے۔‘ مگر انڈیا مسلسل اس امریکی مؤقف کی مخالفت کرتا آیا ہے اور کہتا ہے کہ انڈیا کی درآمدی پالیسی ’انڈین صارفین کے مفاد‘ میں ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے انڈیا کا دو روزہ دورہ کیا ہے جہاں اُن کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔ جبکہ روسی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پوتن اور مودی کی گرمجوشی پر ٹرمپ ناخوش ہیں۔

انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے، مگر اس معاملے میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

ٹرمپ انڈیا کو ’دنیا کا سب سے زیادہ محصول لینے والا ملک‘ قرار دیتے رہے ہیں اور انڈیا سے تجارتی رکاوٹوں اور روس سے تیل خریدنے کے معاملے پر 50 فیصد محصول عائد کر چکے ہیں۔

رواں ہفتے ایک امریکی وفد انڈیا پہنچنے والا ہے، مگر محصولات میں کمی کے حوالے سے کسی معاہدے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔

دوسری جانب انڈین رائس ایکسپورٹرز فیڈریشن (آئی آر ای ایف) کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے محصولات بڑھانے کے باوجود انڈین چاول کی برآمدات میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آئی ہے کیونکہ ٹیکس کے باعث قیمت میں ہونے والا اضافہ زیادہ تر صارفین تک ریٹیل قیمتوں کے ذریعے منتقل کر دیا گیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا کے کسانوں اور برآمدکنندگان کو مستحکم منافع مل رہا ہے۔

امریکی صارفین پر محصولات کا بوجھ

انڈیا میں مختلف اقسام کے چاول ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر عمدہ اقسام برآمد کر دی جاتی ہیں
Getty Images
انڈیا کے باسمتی چاول پوری دنیا میں برآمد کیے جاتے ہیں

انڈین رائس ایکسپورٹرز فیڈریشن (آئی آر ای ایف) نے اندازہ لگایا ہے کہ انڈیا سے چاول کی برآمد پر امریکی محصولات کا زیادہ تر اثر امریکی صارفین کو ہی ہو گا، کیونکہ چاول امریکی صارفین کی ضروریات کی بنیادی چیزوں میں سے ایک ہے۔

ایک بیان میں فیڈریشن نے واضح کیا کہ ’اگرچہ امریکہ ایک اہم منڈی ہے، لیکن انڈیا کی چاول کی برآمدات کا دنیا بھر میں وسیع نیٹ ورک ہے۔‘

فیڈریشن نے یہ بھی نشاندہی کی کہ امریکہ میں پیدا ہونے والا چاول انڈین باسمتی کا متبادل نہیں ہو سکتا کیونکہ انڈین چاول کی خوشبو، ذائقہ، ساخت اور دانے کی لمبائی اسے ایک منفرد حیثیت دیتی ہے۔

فیڈریشن نے کہا کہ ’انڈین باسمتی کی خوشبو، لمبائی، ساخت اور ذائقے کی خصوصیات بالکل جدا ہیں اور امریکہ میں اگائی جانے والی چاولوں کی اقسام خلیجی اور جنوبی ایشیائی روایتی کھانوں کے معیار پر پوری نہیں اُترتیں۔ امریکہ میں انڈین چاول زیادہ تر خلیجی اور ساؤتھ ایشیئین کمیونٹی استعمال کرتی ہے اور وقت کے ساتھ اِس کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس بارے میں بات کر رہے ہیں اور انڈین چاول کو بے بدل قرار دے رہے ہیں۔

انڈین چاول کی صنعت مضبوط

انڈیا دنیا کا سب سے بڑا چاول پیدا اور برآمد کرنے والا ملک ہے
Getty Images
انڈیا دنیا کا سب سے بڑا چاول پیدا کرنے والا اور برآمد کرنے والا ملک ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے چاول کی برآمدی صنعت مضبوط اور عالمی سطح پر مسابقتی ہے کیونکہ انڈیا دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید مضبوط کر رہا ہے اور دنیا بھر میں نئی منڈیوں میں داخل ہو رہا ہے۔

انڈین رائس ایکسپورٹرز کے نائب صدر دیو گارگ کے مطابق 'اگرچہ امریکہ ایک اہم منڈی ہے، لیکن انڈیا کے چاول کی برآمدات عالمی سطح پر اچھی طرح تقسیم ہیں۔ فیڈریشن، انڈین حکومت کے ساتھ قریبی تعاون میں موجودہ تجارتی شراکت داریوں کو مزید مضبوط کر رہی ہے اور انڈین چاول کے لیے نئی منڈیاں کھول رہی ہے۔‘

خیال رہے کہ انڈیا دنیا میں چاول پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی برآمدات میں بھی دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔

انڈین رائس ایکسپورٹرز فیڈریشن کے مطابق انڈیا سالانہ 15 کروڑ میٹرک ٹن چاول پیدا کرتا ہے،جو دنیا میں چاول کی مجموعی پیداوار کا 28 فیصد ہے۔

سنہ 2024-25 میں انڈیا دنیا کا سب سے بڑا چاول برآمد کرنے والا ملک رہا، جس کا مجموعی عالمی برآمدات میں 30.3 فیصد حصہ تھا۔ چین دوسرے نمبر پر ہے جہاں سالانہ تقریباً 14 کروڑ میٹرک ٹن چاول پیدا ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ویتنام، تھائی لینڈ اور پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

باسمتی چاول انڈیا کی سب سے زیادہ برآمد ہونے والی اقسام میں سے ایک ہے۔

سنہ 2024-25 میں 59.44 لاکھ میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد ہوا جبکہ اسی سال 33.23 لاکھ میٹرک ٹن غیر باسمتی چاول برآمد کیا گیا۔

سب سے زیادہ برآمد پاربوائلڈ (جزوی ابلا ہوا) چاول کی ہوئی، جو 90.44 لاکھ میٹرک ٹن رہی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US