کینسر کا باعث بننے والا سپرم جسے قریب 200 بچوں کی پیدائش کے لیے استعمال کیا گیا

ایک بڑی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک سپرم ڈونر جنھیں علم نہیں تھا کہ ان میں ایک ایسی جینیاتی تبدیلی کا رجحان ہے جو کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے، وہ یورپ بھر میں کم از کم 197 بچوں کو جنم دینے کا باعث بن چکے ہیں۔
Color light micrograph of a micro-needle (left) about to inject human sperm into a human egg cell (centre) being held in place by a pipette (right). IVF treatment.
Shutterstock
The donor's sperm was used in clinics across Europe (stock image)

ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک سپرم ڈونر جنھیں علم نہیں تھا کہ ان میں ایک ایسی جینیاتی تبدیلی کا رجحان ہے جو کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے، وہ یورپ بھر میں کم از کم 197 بچوں کو جنم دینے کا باعث بن چکے ہیں۔

ان کے سپرم ڈونیشن سے پیدا ہونے والے کچھ بچے پہلے ہی فوت ہو چکے ہیں۔ کینسر سے بچنے والے باقی بچوں کو یہی جینیاتی تبدیلی وراثت میں ملی ہے۔

یہ سپرم برطانیہ کے کلینکس کو فروخت نہیں کیے گئے لیکن بی بی سی تصدیق کر سکتا ہے کہ ان برطانوی خاندانوں کی ’بہت کم‘ تعداد میں کو مطلع کیا گیا جنھوں نے ڈنمارک میں بانجھ پن کے علاج کے دوران مذکورہ عطیہ دہندہ کے سپرم استعمال کیے۔

ڈنمارک کے یورپی سپرم بینک نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں سے ’گہری ہمدردی‘ ہے۔ اس نے تسلیم کیا کہ کچھ ممالک میں ان سپرم کو بہت زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

Embryologistlooking through a microscope and adding sperm to egg in laboratory of reproductive clinic
Getty Images
ڈونر کے 20 فیصد سپرم متاثرہ ہیں اور کیسنر کا سبب بن سکتے ہیں

یہ تحقیقات 14 پبلک سروس براڈکاسٹرز، بشمول بی بی سی، نے یورپی براڈکاسٹنگ یونین کے انویسٹیگیٹو جرنلزم نیٹ ورک کے حصے کے طور پر کی ہیں۔

یہ سپرم ایک گمنام شخص سے آئے تھے جنھیں 2005 میں بطور طالب علم عطیہ کرنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔

اس کے بعد ان کے نطفے خواتین نے تقریبا 17 سال تک استعمال کیے۔

وہ صحت مند ہیں اور ڈونر سکریننگ چیک پاس کر چکے ہیں۔ تاہم ان کے کچھ خلیات میں موجود ڈی این اے ان کی پیدائش سے پہلے ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نے TP53 جین کو نقصان پہنچایا جو جسم کے خلیات کو کینسر بننے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈونر کے جسم کا زیادہ تر حصہ TP53 کی خطرناک شکل میں موجود نہیں لیکن ان کے سپرم میں یہ 20 فیصد تک موجود ہوتا ہے۔

تاہم متاثرہ سپرم سے بننے والے بچوں میں یہ تبدیلی ان کے جسم کے ہر خلیے میں ہوتی ہے۔

اسے لی فرومینی سنڈروم کہا جاتا ہے اور اس میں کینسر ہونے کا امکان 90 فیصد تک ہوتا ہے، خاص طور پر بچپن میں اور بعد میں زندگی میں بریسٹ کینسر کے ساتھ۔

پروفیسر کلیر ٹرنبل، جو لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں کینسر جینیات کی ماہر ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک خوفناک تشخیص ہے۔‘

’کسی بھی خاندان کے لیے یہ جاننا بہت مشکل صورتحال ہے۔ اس خطرے کے ساتھ جینا زندگی بھر کا بوجھ ہے۔ یہ واضح طور پر تباہ کن ہے۔‘

جسم اور دماغ کے ایم آر آئی سکینز ہر سال درکار ہوتے ہیں۔ پیٹ کے الٹراساؤنڈ بھی کیے جاتے ہیں تاکہ ٹیومرز کی نشاندہی کی جا سکے۔ خواتین اکثر کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے چھاتیاں نکلوانے کا انتخاب کرتی ہیں۔

یورپی سپرم بینک نے کہا کہ ’عطیہ دہندہ خود اور ان کے اہل خانہ بیمار نہیں ہیں‘ اور ایسی تبدیلی ’جینیاتی سکریننگ سے روک تھام کے لیے دریافت نہیں کی جا سکتی۔‘

انھوں نے کہا کہ جیسے ہی ان کے سپرم کا مسئلہ سامنے آیا، انھوں نے ڈونر کو ’فوراً بلاک‘ کر دیا۔

بچوں کی وفات

سپرم ڈونیشن سے منسلک کینسر کا شکار بچوں کو دیکھنے والے ڈاکٹرزنے اس سال یورپی سوسائٹی آف ہیومن جینیٹکس میں تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت معلوم 67 بچوں میں سے 23 بچے اس ویرینٹ کے حامل تھے۔ 10 میں پہلے ہی کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی۔

معلومات کی آزادی کی درخواستوں اور ڈاکٹروں و مریضوں کے انٹرویوز کے ذریعے ہم یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ مذکورہ ڈونرسے کہیں زیادہ بچے پیدا ہوئے۔

یہ تعداد کم از کم 197 تک کی ہے، لیکن یہ حتمی تعداد نہیں ہو سکتی کیونکہ تمام ممالک سے ڈیٹا حاصل نہیں ہوا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے بچوں نے خطرناک قسم وراثت میں حاصل کی۔

Dr Kasper sits at her work desk, wearing a white coat
BBC
ڈاکٹر کیسپر چند متاثرہ خاندانوں کی مدد کر رہی ہیں

ڈاکٹر ایڈویگ کیسپر جو فرانس کے روئن یونیورسٹی ہسپتال میں کینسر جینیٹکس کے ماہر ہیں، جنہوں نے ابتدائی ڈیٹا پیش کیا، انھوں نے تحقیق میں کہا کہ 'ہمارے پاس بہت سے بچے ہیں جنہیں پہلے ہی کینسر ہو چکا ہے۔ ہمارے کچھ بچے پہلے ہی دو مختلف کینسرز میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ان میں سے کچھ بہت کم عمر میں ہی مر چکے ہیں۔'

'سیلین، جو اس کا اصل نام نہیں، فرانس میں ایک سنگل ماں ہیں جن کا بچہ 14 سال پہلے ڈونر کے سپرم سے پیدا ہوا تھا اور اس میں یہ تبدیلی ہے۔ انھیں بیلجیئم میں اس فرٹیلیٹی کلینک سے کال آئی جس میں وہ اپنی بیٹی کی سکریننگ کروا رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ڈونر کے لیے 'بالکل کوئی برا احساس' نہیں ہے لیکن یہ ناقابل قبول تھا کہ انھیں ایسا سپرم دیا گیا جو 'صاف نہیں تھا، محفوظ نہیں تھا، جس میں خطرہ تھا'۔

وہ جانتی ہیں کہ کینسر ان پر ساری زندگی منڈلا رہے گا۔ 'ہمیں نہیں معلوم کب، کون سا، اور کتنے۔'

تاہم وہ کہتی ہیں کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ اس کے ہونے کا امکان زیادہ ہے اور جب ہوگا تو ہم لڑیں گے اور اگر کئی ہوں گے تو ہم کئی بار لڑیں گے۔'

اس ڈونر کے سپرم کو 14 ممالک کے 67فرٹیلٹی کلینکس نے استعمال کیا۔

سپرم برطانیہ کی کلینکس کو فروخت نہیں کیا گیا۔ تاہم، اس تحقیقات کے نتیجے میں ڈنمارک کے حکام نے پیر کے روز برطانیہ کی ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریالوجی اتھارٹی (HFEA) کو اطلاع دی کہ برطانوی خواتین نے عطیہ دہندہ کے سپرم کے ذریعے بانجھ پن کے علاج کے لیے وہاں کا سفر کیا تھا۔

ان خواتین کو اطلاع کر دی گئی ہے۔ ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریالوجی اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو پیٹر تھامسن نے کہا کہ 'بہت کم تعداد' میں خواتین متاثر ہوئیں اور 'انھیں اس ڈونر کے بارے میں ڈینش کلینک نے بتایا ہے جہاں ان کا علاج کیا گیا تھا'۔

تاحال یہ معلوم نہیں کہ آیا کسی برطانوی خاتون نے کسی دوسرے ملک سے بھی علاج کروایا جہاں مذکورہ ڈونر کا نطفہ تقسیم کیا گیا تھا۔

فکر مند والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس کلینک سے رابطہ کریں جہاں سے انھوں نے علاج کروایا اور اس ملک کی فرٹیلیٹی اتھارٹی سے بھی رابطہ کریں۔

بی بی سی نے ڈونر کا شناختی نمبر جاری نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے کیونکہ انھوں نے نیک نیتی سے عطیہ دیا تھا اور برطانیہ میں معلوم کیسز سے رابطہ کیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں کسی ڈونرکے سپرم کو کتنی بار استعمال کیا جا سکتا ہے اس کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم، انفرادی ممالک اپنی حدود مقرر کرتے ہیں۔

یورپی سپرم بینک نے تسلیم کیا کہ یہ حدود ’بدقسمتی سے‘ کچھ ممالک میں توڑ دی گئی ہیں اور یہ ’ڈنمارک اور بیلجیئم کے حکام کے ساتھ بات چیت میں ہے۔‘

بیلجیئم میں، ایک سپرم ڈونر صرف چھ خاندانوں کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے 38 مختلف خواتین نے ڈونر کے 53 بچے پیدا کیے۔ برطانیہ میں ہر عطیہ دہندہ کے لیے 10 خاندان کی حد ہے۔

’آپ ہر چیز کی جانچ نہیں کر سکتے ‘

پروفیسر ایلن پیسی پہلے شیفیلڈ سپرم بینک چلاتے تھے اور اب مانچسٹر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف بایولوجی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے نائب نائب صدر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کئی ممالک بڑے بین الاقوامی سپرم بینکوں پر منحصر ہو چکے ہیں اور برطانیہ کا آدھا سپرم اب درآمد کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں بڑے بین الاقوامی سپرم بینکوں سے درآمد کرنا ہوگا جو اسے دوسرے ممالک کو بھی بیچ رہے ہیں کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ اپنی آمدنی کماتے ہیں اور مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کیونکہ اس بارے میں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے کہ آپ سپرم کو کتنی بار استعمال کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ کیس سب کے لیے ’خوفناک‘ تھا لیکن سپرم کو مکمل طور پر محفوظ بنانا ناممکن ہوگا۔

’آپ ہر چیز کی سکریننگ نہیں کر سکتے، ہم موجودہ سکریننگ انتظام میں صرف ایک فیصد یافیصد مردوں کو قبول کرتے ہیں جو سپرم ڈونر بننے کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ تو اگر ہم اسے مزید سخت کریں تو ہمارے پاس کوئی سپرم ڈونر نہیں ہوگا، یہی توازن ہے۔‘

ایک ایسے شخص جسے سپرم ڈونیشن کے ذریعے 550بچوں کی پیدائش کے بعد روکنے کا حکم دیا گیا تھا، اس کے کیس اور اب اس کیس نے ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا سخت حدود ہونی چاہیں۔

یورپی سوسائٹی آف ہیومن ریپروڈکشن اینڈ ایمبریولوجی نے حال ہی میں ہر ڈونر کے لیے 50خاندانوں کی حد تجویز کی ہے۔

تاہم اس نے کہا کہ اس سے نایاب جینیاتی بیماریوں کے وراثت کے خطرے میں کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر ہوگا جو زندگی میں یہ جانتے ہیں کہ وہ سینکڑوں سوتیلے بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔

’دنیا بھر میں ایک ہی ڈونر سے پیدا ہونے والے خاندانوں کی تعداد کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

سارہ نورکراس، پروگریس ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ڈائریکٹر ہیں جو بانجھ پن اور جینیاتی بیماریوں سے متاثرہ افراد کے لیے ایک آزاد چیریٹی ہے۔ انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ہم پوری طرح نہیں سمجھ سکتے کہ ان سینکڑوں سوتیلے بہن بھائیوں کے ہونے کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے۔ یہ ممکنہ طور پر تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔‘

یورپی سپرم بینک نے کہا کہ ’خاص طور پر اس معاملے کے تناظر میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہزاروں خواتین اور جوڑوں کو ڈونر سپرم کی مدد کے بغیر بچے پیدا کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔‘

’عام طور پر اگر سپرم ڈونرز کو طبی رہنما اصولوں کے مطابق سکرین کیا جائے تو یہ زیادہ محفوظ ہوتا ہے کہ ڈونر سپرم کی مدد سے بچہ پیدا کیا جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US