دھوکہ، اغوا اور تشدد: چین کے وہ سکول جہاں ’باغی‘ نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے

بی بی سی آئی انویسٹیگیشن نے ان تربیتی مراکز میں جسمانی اذیت کے الزامات اور نوجوانوں کو اغوا کر کے یہاں لانے جیسے جرائم کا پردہ چاک کیا۔
Designed collage image showing side/back view of Baobao, who is wearing glasses and a grey cap. Left of her is an orange-tinted image of a corridor with bars on the windows, on the right is a blue-tinted image of the front of the school she attended. It has grilles across open-air corridors and Chinese writing on it.
BBC

تنبیہ: اس رپورٹ میں جسمانی و جنسی تشدد کی تفصیلات اور خودکشی پر بات چیت کا ذکر ہے

صبح کی بارش کے بعد گیلی مٹی کی خوشبو سے باؤباؤ (فرضی نام) کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔

یہ خوشبو انھیں اُن بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی فوجی مشقوں اور اس خوف کی یاد دلاتی ہے جو لیزہینگ کوالٹی ایجوکیشن سکول میں قیام کے دوران ان کی زندگی کا حصہ تھا۔

وہ 14 برس کی تھیں جب چھ ماہ تک چین کے اس دور افتادہ گاؤں مں بنی ہوئی سفید اور سرخ رنگ کی عمارت سے باہر نہ نکل سکیں۔ یہ وہ سکول تھا جہاں استاد ایسے بچوں کو سدھارنے کی کوشش کرتے تھے جن کے اہلخانہ کے خیال میں وہ بگڑ گئے تھے۔

ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کی اتنی شدید پٹائی ہوتی کہ وہ کئی کئی دن سو پاتے نہ بیٹھ پاتے۔

باؤباؤ اب 19 سال کی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں گزرا ہر لمحہ پریشان کن تھا۔‘ ان کے مطابق سکول میں قیام کے دوران انھوں نے خودکشی کرنے کے بارے میں سوچا اور اُن کے بقول کئی اور طالب علموں نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی۔

’ریپ اور مار پیٹ‘

بی بی سی آئی انویسٹیگیشن نے اس سکول اور اس جیسے دیگر کئی سکولوں میں جسمانی اذیت کے الزامات اور نوجوانوں کو اغوا کر کے یہاں لانے جیسے جرائم کا پردہ چاک کیا۔

چین میں جسمانی اذیت دینے پر کئی دہائیوں سے پابندی عائد ہے لیکن بی بی سی نے ان اداروں میں زیر تعلیم رہنے والے 23 سابق طلبہ سے بات کی جن کا الزام تھا کہ انھیں بہت زیادہ مارا پیٹا گیا اور سخت جسمانی مشقیں کروائی گئیں۔

ایک لڑکی نے ریپ کیے جانے کا الزام لگایا جبکہ باؤ باؤ سمیت دو طالبات نے بتایا کہ انھیں مختلف انسٹرکٹرز نے جنسی طور پر ہراساں کیا۔

بی بی سی نے خفیہ فلم بندی کی مدد سے بے نقاب کیا کہ سکولوں کا عملہ کس طرح حکام کا روپ دھار کر نوجوانوں کو زبردستی اپنے اداروں میں منتقل کرتا ہے۔

13 طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں والدین کی اجازت سے، خود کو پولیس یا حکام قرار دینے والے ملازمین نے اغوا کیا۔

یہ بیانات جو بی بی سی ورلڈ سروس کے انٹرویوز، کارکنوں کے جمع کردہ بیانات، پولیس رپورٹس اور سرکاری میڈیا سے حاصل کیے گئے ہیں، پانچ سکولوں سے متعلق ہیں۔ یہ کم از کم 10 سکولوں کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جو یا توایک سابق فوجی لی ژینگ چلاتے ہیں، یا ان سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں۔

باؤباؤ
BBC
باؤباؤ 14 برس کی تھیں جب چھ ماہ تک وہ چین کے دور افتادہ گاؤں مں بنی سفید اور سرخ رنگ کی عمارت سے باہر نہ نکل سکیں

یہ مراکز ایک تیزی سے بڑھتی صنعت کا حصہ ہیں جو پریشان اور بے چین والدین سے وعدہ کرتی ہے کہ فوجی طرز کا نظم و ضبط نوجوانوں کی نافرمانی، انٹرنیٹ کی لت، نوجوانوں کی ڈیٹنگ اور ڈپریشن کے علاوہ صنف اور جنسی شناخت کے خدشات کو حل کرے گی۔

کچھ والدین تو 18 سال سے زائد عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی بھیجتے ہیں، جو قانونی طور پر بالغ ہوتے ہیں۔

چین میں حالیہ برسوں میں، لی ژینگ کے سکولوں اور دیگر سکولوں میں زیادتی کے الزامات کے سلسلے نے خبروں میں جگہ بنائی۔

کچھ معاملات میں گرفتاریاں کی گئی ہیں یا ادارے بند کر دیے گئے لیکن ایسے سکول جلد ہی مختلف ناموں یا مختلف مقامات پر دوبارہ کھل سکتے ہیں کیونکہ اس شعبے کو منظم کرنا مشکل رہا ہے۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ لی ژینگ کو اس سال کے شروع میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں ایک نیا سکول کھولا۔

نیٹ ورک میں شامل کمپنیوں اور افراد سے یا تو رابطہ نہیں ہو سکا یا انھوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جبکہ برطانیہ میں چینی سفارت خانے نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام تعلیمی اداروں پر قواعد و ضوابط کی پابندی لازمی ہے۔

جسم کی ’جارحانہ تلاشی‘

باؤباؤ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ نے انھیں صوبہ ہونان کے لیژینگ کوالٹی ایجوکیشن سکول لے جانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انھوں نے سکول سے بھاگنا شروع کیا۔ اس کا نتیجہ دونوں کے درمیان جھگڑوں کی شکل میں نکلا جنھوں نے ان کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات مزید خراب کر دیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ انھیں سکول میں چھوڑ کر چلی گئیں اور پھر انھیں احساس ہوا کہ انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں۔ ’انھوں نے کہا اگر میں اچھا برتاؤ کروں تو شاید میں وہاں سے باہر نکل سکوں۔‘

باؤباؤ نے شروع میں تو انسٹرکٹرز کو لاتیں اور مکے مارنے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے ان کے ہی جوتوں کے تسمے سے باندھ دیے تو باؤباؤ نے ہار مان لی۔ پھر ان کی تلاشی لی گئی۔ وہ اس عمل کو جنسی ہراسانی قرار دیتی ہیں۔ ’مجھے یہ بہت توہین آمیز لگا، اس نے میرے تمام حساس حصوں کو چھوا۔‘

باؤباؤ کے مطابق ان کی والدہ نے ادارے میں ان کے چھ ماہ قیام کے لیے تقریباً 40 ہزار یوان (5700 امریکی ڈالر) ادا کیے اور انھیں کوئی تعلیم نہیں دی گئی۔ چند ڈسپلنری سکولز یہ پیشکش کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کے لیے اضافی رقم مانگتے ہیں۔

یہ سکول اب بھی کام کر رہا ہے، جسے اب کوالٹی ایجوکیشن فار ٹین ایجرز کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تقریبا 300 طلبہ ہیں، جن کی عمر آٹھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہے۔

اس سال کے آغاز میں چھپ کر بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو دکھایا گیا جو ایک 15 سالہ لڑکے کو اپنا بیٹا بتا کر اس سکول میں داخل کروانے آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ سگریٹ نوشی اور ڈیٹنگ کرتا ہے جبکہ ان کی گاڑی بھی چلاتا ہے۔

اس خاتون کو سیڑھیوں پر بند دروازے، راہداریوں میں لگے آہنی جنگلے اور سی سی ٹی وی مانیٹرنگ والے کمرے دکھائے گئے، جہاں بچے آرام کرتے، کپڑے تبدیل کرتے اور نہاتے ہیں۔

’کوالٹی ایجوکیشن فار ٹین ایجرز‘ کے نام سے اس سکول میں تقریبا 300 طلبہ ہیں، جن کی عمر آٹھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہے
BBC
’کوالٹی ایجوکیشن فار ٹین ایجرز‘ کے نام سے اس سکول میں تقریبا 300 طلبہ ہیں، جن کی عمر آٹھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہے

عملے کے ایک رکن نے اس خاتون کو بتایا کہ ان کے ’بیٹے‘ کے رویے کو بہتر بنانے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے، لیکن ’تین سالہ وارنٹی‘ کے تحت اگر وہ اپنے پرانے طور طریقے اپناتا ہے تو وہ صرف اس کے کھانے اور رہائش کے لیے ادائیگی کر کے اسے واپس یہاں بھیج سکتی ہیں۔

خاتون کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے ’بیٹے‘ کو اس نئے سکول کے بارے میں مت بتائیں۔ سٹاف ممبر نے کہا کہ ’جب ہم بچوں کو پک اپ کرنے کا کا بندوبست کرتے ہیں تو، ہم سفید جھوٹ بولتے ہیں۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ ’انٹرنیٹ ریگولیٹر‘ کے عہدیدار بن کر آنے والے انسٹرکٹرز کہیں گے کہ انھیں تفتیش میں مدد کے لیے ان کی ضرورت ہے اور پھر ایسے انھیں مرکز تک لے جائیں گے۔

سٹاف ممبر نے یہ بھی کہا کہ ’اگر یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوتا تو انسٹرکٹرز اسے اٹھا کر گاڑی تک لے جائیں گے۔‘

ایک سابق سٹوڈنٹ زانگ انکسو جن کی عمر اب 20 برس ہے، کا کہنا ہے انھیں بھی ایسے ہی تجربے کا سامنا کرنا پڑا تھا جس وقت انھیں اس نیٹ ورک کے ایک سکول لے جایا گیا تھا۔

اس وقت ان کی عمر 19 برس تھی، ان کے والدین ان کی شناخت قبول کرنے اور بطور خاتون زندگی گزارنے کے ان کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ پیدائش کے وقت انھیں مرد رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ اپنی دادی کی قبر پر گئیں، جب پولیس اہلکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے تین آدمی آئے اور ان کو بتایا کہ ان کی تفصیلات فراڈ میں استعمال کی گئی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے گھسیٹ کر زبردستی کار میں ڈالا۔ جب وہ مجھے لے کر جا رہے تھے تو میرے والدین پاس ہی کھڑے تھے۔‘

انکسو بتاتی ہیں کہ ان کے والدین پاس ہی کھڑے تھے، جب انھیں زبردستی لے جایا گیا
BBC
انکسو بتاتی ہیں کہ ان کے والدین پاس ہی کھڑے تھے، جب انھیں زبردستی لے جایا گیا

انھیں ہونان میں شینگبو یوتھ سائیکولوجیکل گروتھ ٹریننگ سکول لے جایا گیا جہاں ان کے بقول انھیں اتنا مارا گیا کہ ان کے ایک کان کی قوت سماعت ختم ہو گئی جبکہ بعد میں ان کا ریپ کیا گیا۔

جس سکول میں باؤباؤ کو لے جایا گیا تھا، اس کی خفیہ فلمنگ کے دوران ایک سٹاف ممبر کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’یہاں مار پیٹ نہیں ہوتی۔ ہم نوجوانوں کا رویہ فوجی تربیت اور کاؤنسلنگ کے ذریعے تبدیل کرتے ہیں۔‘

لیکن باؤ باؤ اور انکسو ایک بہت مختلف تجربے کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

باؤباؤ کہتی ہیں کہ ’جسمانی سزا ہمیشہ موجود رہی۔ اگر آپ کا ڈانس یا ملٹری باکسنگ درست نہیں یا آپ نے انھیں خراب طریقے سے انجام دیا تو آپ کو سزا دی جائے گی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’انسٹرکٹرز ان کے کلاس فیلوز کو مارنے کے لیے پائپ کاپوری قوت سے استعمال کرتے۔ جہاں وہ مارتے، وہ حصہ سیاہ ہو جاتا۔ آپ کو شدید زخم آتے۔‘

لی ژینگ کے ایک اور سکول میں بنائی گئی ویڈیو، جو بی بی سی کے پاس موجود ہے اور اس کی تصدیق بھی کی گئی، میں انسٹرکٹرز کو طلبا کے ہاتھوں پر راڈ مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

انکسو کہتی ہیں کہ طلبا کو بہت زیادہ جسمانی تربیت کے لیے مجبور کیا جاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ جیسے ہزار ہزار پش اپس جیسی ورزشیں کروائی جاتی ہیں۔

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ رات کی ڈیوٹی پر موجود ایک انسٹرکٹر نے ان کے کمرے میں ان پر حملہ کیا۔ ’اس نے مجھے بالوں سے پکڑا، فرش پر گھسیٹا اور پھر مجھ پر جنسی حملہ کیا۔‘

انکسو کے کاؤنسلنگ سیشنز کو ان کے والدین کے لیے ریکارڈ کیا گیا
BBC
انکسو کے کاؤنسلنگ سیشنز کو ان کے والدین کے لیے ریکارڈ کیا گیا

باؤ باؤ کا کہنا ہے کہ انھوں نے خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن پھر انھیں احساس ہوا کہ وہ اس دوران پکڑی جائیں گی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ایک کلاس فیلو نے اپنی جان لینے کی کوشش کی لیکن انھیں ہسپتال لے جانے کی بجائے انسٹرکٹرز نے خود ان کا معدہ صاف کرنے کی کوشش کی۔

باؤباؤ اور انکسو کے مطابق کاؤنسلنگ سیشنز میں ان کی بات کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا گیا۔

انکسو کے سیشنز کو ان کے والدین کے لیے ریکارڈ کیا گیا جنھوں نے چھ ماہ کے لیے 65 ہزار 800 یوآن ادا کیے تھے۔ انھیں کہا گیا کہ ’ایک خوش، صحت مند اور مثبت لڑکا بنیں۔ ٹھیک ہے؟‘

’آپ ایک لڑکے ہیں تو وہ کریں جو لڑکے کرتے ہیں۔۔۔ خوش رہیں۔‘

باؤباؤ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے کاؤنسلر کو بتایا کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں کہا گیا کہ ’اگر آپ نے اتنا جلدی مرنا ہوتا تو آپ میرے سامنے نہ بیٹھی ہوتیں۔‘

وہ پوچھتی ہیں کہ ’کیا کوئی خیال کرنے والا شخص ایسا کہے گا۔ کیا وہ انسان ہیں؟‘

بی بی سی کے پاس لی ژینگ کے ایک سکول میں فلمائی گئی ویڈیو، جس میں انسٹرکٹر ایک طالب علم کے ہاتھ پر مار رہا ہے
BBC
بی بی سی کے پاس لی ژینگ کے ایک سکول میں فلمائی گئی ویڈیو، جس میں انسٹرکٹر ایک طالب علم کے ہاتھ پر مار رہا ہے

باؤباؤ اور انکسو حیران ہیں کہ کیسے ان کے والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے بچے یہ تجربہ کریں۔

انکسو کی والدہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑیں اور بتایا کہ سکول کی جانب سے وعدوں نے ان کے خاندان کو ’دھوکہ‘ دیا۔

’آپ نے صرف کسی کو اس کے پیسوں سے محروم نہیں کیا بلکہ ان کے خاندان کو بھی توڑ ڈالا جس سے ان کا رشتہ متاثر ہوا۔‘

ہالینڈ کی یوٹریکٹ یونیورسٹی کے ماہر بشریات ڈاکٹر یچن راؤ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر شہری متوسط ​​طبقے کے خاندانوں میں والدین کی جانب سے ان تربیتی مراکز میں اپنے بچوں کو بھیجنے کا فیصلہ اس سماجی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے تعلیمی لحاظ سے کامیاب ہوں۔

انھوں نے چین میں انٹرنیٹ کی لت کے شکار بچوں کے لیے سینٹرز کا مطالعہ کر رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سکول سسٹم میں سپورٹ کی کمی، بے چینی اور خاندان کے ساتھ تنازعات کی بدولت والدین محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔

باؤباؤ کی والدہ نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم باؤباؤ کہتی ہیں کہ وہ اب ’دونوں طرف کو سمجھ سکتی ہیں۔‘

’میرے خیال میں اس سکول کے نعروں کی وجہ سے میری والدہ برین واش ہوئیں۔ وہ انتہائی بیتیاب تھیں کہ میں ایک زیادہ فرماں بردار بیٹی بنوں، ایک ایسی بیٹی جن کی انھیں ہمیشہ خواہش رہی۔‘

باؤ باؤ آنکھ کی تکلیف کا بہانہ کرنے کے بعد سکول سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ان کی والدہ نے صرف اتنا کہا کہ ’چلو اب آگے بڑھتے ہیں‘ جس سے وہ غصے اور الجھن کا شکار ہوئیں۔

وائرل خطوط

انکسو کی آزمائش ایک مہینے بعد ختم ہوئی۔ ان کے دوستوں کو احساس ہوا کہ وہ غائب ہیں اور انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا۔ پولیس نے انکسو کا پتہ لگانے کے بعد سکول میں ان کی ایک ویڈیو شیئر کی۔

ان کے دوست وانگ یوہانگ نے آن لائن یہ ویڈیو شیئر کی اور ان کے سبز رنگ کے یونیفارم کی مدد سے سکول کا پتہ لگا لیا۔

انکسو نے خاموشی سے اپنے تجربے کو خطوط میں دستاویز کیا جنھیں آن لائن پوسٹ کیا گیا۔ یہ خطوط وائرل ہو گئے اور جیسے ہی عوامی دباؤ بڑھا، پولیس کو مداخلت کرنا پڑی جس کے بعد انھیں سکول چھوڑنے کی اجازت ملی۔

12 دن بعد حکام نے اعلان کیا کہ شینگبو سکول کو بند کیا جا رہا ہے لیکن انکسو کی جانب سے مبینہ استحصال کا کوئی حوالہ نہیں دیا تاہم یہ کہا گیا کہ سکول نے انتظامی ضابطوں کی خلاف ورزی کی۔

انکسو بتاتی ہیں کہ پولیس نے انھیں بعد میں بتایا کہ منظم جرائم کے الزامات کے بعد لی ژینگ کو گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس نے انکسو اور لی ژینگ کیس سے متعلق بی بی سی کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ مقامی محمکہ تعلیم نے بھی اس حوالے سے جواب نہیں دیا۔

خفیہ فوٹیج میں طلبا کو لی ژینگ سکولوں کے سابق ملازمین کے قائم کردہ ایک نئے سکول میں فوجی طرز کی مشقیں کرتے دیکھا گیا
Secret filming
خفیہ فوٹیج میں طلبا کو لی ژینگ سکولوں کے سابق ملازمین کے قائم کردہ ایک نئے سکول میں فوجی طرز کی مشقیں کرتے دیکھا گیا

لی ژینگ زیادہ تر عوامی نظروں سے اوجھل ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ بی بی سی نے ان کے نیٹ ورک کا جائزہ لیا اور پتہ چلا کہ وہ چار صوبوں میں خود یا اپنے قریبی ساتھیوں کی رجسٹرڈ کمپنیوں کے ایک پیچیدہ سیٹ کے ذریعے ان سکولوں کو چلا رہے ہیں۔

سنہ 2006 میں انھوں نے اپنا پہلا سینٹر قائم کیا اور مختلف ادوار میں وہ چار مختلف تعلیمی کمپنیوں کے مالک رہے۔

ان کے ایک ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق لی جنوبی چین میں چینی ایئر فورس اکیڈمی سے گریجویٹ ہیں اور سنہ 2007 سے متعدد سکولوں میں ’ڈائریکٹر ٹریننگ‘ اور ’سینیئر سائیکولوجیکل کاؤنسلر‘ کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ہونان صوبے کے ایک مقامی ٹی وی چینل پر انھوں نے ایک بار نوجوانوں کی پرورش ’پیار اور صبر‘ کے ساتھ کرنے کی بات کی تھی۔

چینی حکام ان کے نیٹ ورک میں موجود سکولوں پر الزامات کے بعد پہلے بھی مداخلت کر چکے ہیں۔

لی ژینگ کے ایک اور سکول کے انسٹرکٹر کو پولیس نے سنہ 2019 میں حراست میں لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے پائپس کے ساتھ بچوں کو مارا تھا۔

اس کے علاوہ چینی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق باؤباؤ جس سکول گئیں تھیں، اسے سنہ 2020 میں ایک طالب علم کی خودکشی کے بعد داخلے کرنے سے روکا گیا تھا۔

باؤباؤ کہتی ہیں کہ اس وقت وہ وہاں موجود تھیں اور سکول چلتا رہا تھا۔ بعد میں جلد ہی اس سکول کا نام تبدیل کر دیا گیا۔

آسٹریلیا کے رضاکار مو زاؤ جو بدسلوکی کے ان الزامات کو دستاویز کرنے میں مدد کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جب بھی عوامی سطح پر احتجاج ہوتا ہے تو وہ (لی ژینگ) سکول کا نام بدل دیتے ہیں یا اس سے متعلقہ قانونی نمائندے کو تبدیل کر دیتے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نگرانی سے بچنے کے لیے طلبا کو مختلف مقامات پر منتقل بھی کیا جاتا ہے۔

’بڑا منافع‘

دو خفیہ ریسرچرز نے حال ہی میں لی ژینگ نیٹ ورک کے ایک نئے سکول کا دورہ کیا۔

ہانگ کانگ میں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی شخصیات بن کر ان ریسرچرز نے لی ژینگ سکولز کے تین سابق ملازمین کے ساتھ ایک نئے سکول میں میٹنگ کی، جو انھوں نے فوجیان میں قائم کیا۔

نئے سکول میں کاؤنسلنگ ڈائریکٹر لی ین فینگ نے انھیں بتایا کہ ’اس انڈسٹری میں بہت زیادہ منافع ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح یہ کاروباری ماڈل ہانگ کانگ میں کام کر سکتا ہے، جس میں فی طالب علم کم از کم 25 ہزار ڈالر سالانہ فیس تجویز کی گئی۔

انھوں نے اپنے باس کا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا لیکن بتایا کہ وہ ’تجربہ کار‘ ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کو نیٹ ورک سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاہم خفیہ ریسرچرز کو بتایا گیا کہ ’کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ والدین نے شکایت درج کروائی۔ گروپ اگرچہ ابھی تک باضابطہ طور پر تحلیل نہیں ہوا لیکن یہ تباہی کے دہانے پرہے۔ اسی وجہ سے میں باہر نکلا۔‘

لی ین فینگ
Secret filming
نئے سکول میں کاؤنسلنگ ڈائریکٹر لی ین فینگ نے بتایا کہ ’اس انڈسٹری میں بہت منافع ہے‘

بی بی سی متعدد کوششوں کے باوجود لی ژینگ، لی یون فینگ اور لی ژینگ کے ساتھیوں سے منسلک دیگر سکولوں اور کمپنیوں کا اس بارے میں تبصرہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

وہ سٹاف ممبر جنھوں نے ’کوالٹی ایجوکیشن فار ٹین ایجرز‘ سکول کا دورہ کروایا تھا، نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ سکول کی نگرانی کرنے والے محکمہ تعلیم سے بھی متعدد کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔

ان مراکز کی نگرانی مشکل کام ہے۔ ان میں سے کچھ سکول کے طور پر رجسٹر ہی نہیں۔ ایسے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے واقف ایک چینی وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ذمہ داری مقامی تعلیم، شہری امور اور مارکیٹ ریگولیشن حکام کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر یچن راؤ کہتے ہیں کہ ان مراکز کے لیے کوئی مرکزی ضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ذمہ داری مقامی حکومت پر آتی ہے۔

وہ اسے ایک ’مشکوک صنعت کے طور پر بیان کرتے ہیں جسے ریاست برداشت کرتی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ریاست اس حوالے سے گائیڈ لائنز فراہم کر کے اسے قانونی حیثیت نہیں دینا چاہے گی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان سکولوں کا ایک ’سپیکٹرم‘ ہے، جس میں کچھ طلبا کے لیے سائیکو تھراپی اور والدین کے لیے تربیت، یا جسمانی سزا دینے والے عملے کو نظم و ضبط کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔

لندن میں چینی سفارت خانے نے کہا کہ حکومت ’تعلیمی اداروں کے قانونی آپریشن اور نابالغوں کے تحفظ کو بہت اہمیت دیتی ہے۔‘

اس کا کہنا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو ’متعلقہ قوانین اور ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔‘

’انتہائی افسوسناک‘

انکسو اور ان کے دوست وانگ چاہتے ہیں کہ ایسے تمام سکول بند کر دیے جائیں۔ وہ دونوں مل کر اس استحصال اور اغوا کے ویڈیو شواہد جمع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ شواہد پولیس تحقیقات کے لیے ضروری ہیں اور کبھی کبھار وہ انھیں آن لائن پوسٹ بھی کرتے ہیں۔

وانگ کو اکثر طالب علموں کی جانب سے درخواستیں بھی موصول ہوتی ہیں۔ انھوں نے فرار کی کوششوں میں کئی طالب علموں کی مدد کی اور سکولوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کو جانے دیں۔

باؤباؤ نے دوبارہ کبھی تعلیم حاصل نہیں کی اور وہ کہتی ہیں کہ وہ اس بارے میں بہت افسوس محسوس کرتی ہیں۔

وہ آن لائن سٹریمنگ اور گیمنگ کے ذریعے اب پیسے کماتی ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ کوالٹی ایجوکیشن سکول نہ گئیں ہوتی تو شاید وہ یونیورسٹی چلی جاتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سکول دھوکہ ہیں۔ موجودہ تعلیمی نظام تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یہ تصور ہی بنیادی طور پر ناقص ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بس ان کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔‘

اضافی رپورٹنگ: الیکس میتھولی اور شانشان چن


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US