گوشت کی برآمدات بڑھانے کے لیے ’حلال میٹ ایکسپورٹ پالیسی‘ کا اعلان: کیا پاکستان یورپ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر پائے گا؟

پاکستان میں جہاں اکثر مضرِ صحت گوشت کی فروخت کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سیکٹر کو بین الاقوامی معیاروں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات کرے تاکہ بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بہتر ہو۔
گوشت
Getty Images

پاکستان نے گوشت کی برآمدت بڑھانے کے لیے ’حلال میٹ ایکسپورٹ پالیسی‘ کی منظوری دی ہے جس کے تحت بیرونِ ملک اور خاص کر مسلمان ممالک کو گوشت کی برآمدات بڑھانے کے لیے تین سال پر مشتمل ایکش پلان بنایا جائے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ’حلال میٹ ایکسپورٹ پالیسی‘ کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں فوری اصلاحات اور ریفارمز کیے جائیں، جس کے تحت گوشت کی برآمدات بڑھانے کے لیے بین الاقوامی معیار کے مذبح خانے، جانوروں میں بیماریوں سے بچاؤ اور حکومت کی معاونت سے کولڈ سٹوریج کی سہولیات بنائی جائیں۔

حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان نے بیرون ملک گوشت کی برآمدات میں اضافے کے حوالے سے مختلف پالسییوں کا اعلان کیا لیکن تاحال پاکستان گوشت خریدنے والے بڑی مارکیٹس جیسے یورپی ممالک یا جنوبی کوریا تک نہیں پہنچ سکا۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی چند ماہ قبل ملائیشیا کے دورے کے دوران پاکستان سے حلال گوشت کی خرایداری کے لیے 20 کروڑ ڈالر مالیت کا کوٹہ مختص کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

پاکستان میں جہاں اکثر مضرِ صحت گوشت کی فروخت کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سیکٹر کو بین الاقوامی معیاروں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات کرے تاکہ بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بہتر ہو۔

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا لائیو سٹاک سیکٹر منظم نہیں اور اسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ اس پالیسی کے ذریعے نہ صرف سمت متعین کی جائے گا بلکہ نجی شعبے کو مراعات بھی دی جائیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہارون اختر نے کہا کہ بیرون ملک گائے کے گوشت کی طلب بہت زیادہ ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان سے بیرون ملک جانے والے گوشت کی لاگت دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ لائیو سٹاک کے ڈیری کے شعبے میں گذشتہ کچھ برسوں کے دوران کافی بہتری آئی لیکن گوشت کی پروڈکشن بڑھانے کے معاملے پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔

ہارون اختر نے کہا کہ اس پالیسی کے تحت حکومت لائسنسگ، سرٹیفکیشن، خصوصی بریڈ اور فیڈ پر کام کریں گے تاکہ پاکستان عالمی مارکیٹس اچھی قیمت پر گوشت فراہم کر سکے۔

گوشت برآمد کرنے والے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان گوشت کی برآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے لیکن اس شعبے میں خام مال یعنی گائے، بکرا یا دنبے کی بروقت اور معیاری سپلائی سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس سیکٹر میں لائیو سٹاک کی فارم کی سطح پر فارمنگ نہیں ہو رہی۔

پاکستان گوشت کی برآمد کیسے بڑھا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر گوشت کی مارکیٹ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔

گوشت
Getty Images

پاکستان کن کن ممالک کو گوشت برآمد کرتا ہے؟

بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں برازیل، امریکہ اور آسٹریلیاسرفہرست ہیں جبکہ پاکستان اس فہرست میں بہت پیچھے ہے۔

پاکستان میں گوشت کی سالانہ پیدوار 60 لاکھ میٹرک ٹن ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ کی کھپت پوری کرنے کے بعد بھی اس شعبے میں برآمدات بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

پاکستان بیف، مٹن اور پولٹری یعنی مرغی کا گوشت برآمد کرتا ہے۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق سال 2024 میں پاکستان نے 51 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کا بیف، مٹن اور پولٹری گوشت برآمد کیا۔

پاکستان متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، چین اور دیگر خلیجی ممالک کو گوشت برآمد کرتا ہے۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق 2024 میں پاکستان نے سب سے زیادہ گوشت متحدہ عرب امارات کو بھجوایا اور یو اے ای کو 20 کروڑ ڈالر مالیت کا گوشت برآمد کیا گیا۔ اس دوران سعودی عرب کو 14 کروڑ ڈالر مالیت کا گوشت فروخت کیا گیا۔

پاکستان کا گوشت چین، ویتنام، ازبکستان سمیت دیگر وسطیٰ ایشیائی ممالک میں برآمد کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں مقامی سطح پر کئی ایسی کمپنیاں ہیں جو بیرون ملک گوشت فروخت کرنے کے معاہدے کر رہی ہیں۔

رواں سال ستمبر میں پاکستانی کمپنی ’دی آرگینک میٹ کمپنی‘ نے چین کو گوشت برآمد کرنے کے لیے ساڑھے سات کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔

پاکستان میٹ ایکسپورٹ اینڈ پراسینسگ ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں تقریباً 50 کمپنیاں ہیں جو بین الاقوامی معیار کے 35 سٹورز کی مدد سے بیرونِ ملک گوشت برآمد کر رہی ہیں۔

معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیدوار ہارون اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خلیجی ممالک کے بجائے دوسری منڈیوں تک پہنچنے کے لیے کئی مراحل طے کرنے ہیں۔

اس شعبے میں پاکستان کے لیے کتنے مواقع ہیں؟

پاکستان میں حکومت کا کہنا ہے کہ گوشت برآمد کرنے کے شعبے میں ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کوشش کے باوجود بھی اپنی برآمدات کو ایک خاص حد سے زیادہ نہیں بڑھا سکا۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں برآمد کنندگان کے لیے خام مال کا حصول سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ صرف گوشت کی پیدوار کے لیے ملک میں منظم فارمنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس شعبے سے وابستہ ایک ایکسپورٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ملک میں بکرے اور دنبے کی تعداد کم ہوئی کیونکہ اُن کے لیے چراہ گاہیں کم ہو رہی ہیں۔

پاکستان کی مجموعی میٹ ایکسپورٹ میں بکرے یا دنبے کے گوشت کا تناسب پانچ سے دس فیصد ہے کیونکہ پاکستان میں بکرے کا گوشت بہت مہنگا ہو گیا۔

پاکستان میں صرف اور صرف گوشت حاصل کرنے کے مقصد کے لیے گائے، بکرے اور دنبے نہیں پالے جاتے ہیں اور نہ ہی گوشت پیدا کرنے والی نسل کی گائے پاکستان میں موجود ہیں۔

پاکستان میٹ ایکسپورٹر اینڈ پراسینسگ ایسوسی ایشن کے سنیئیر نائب صدر سید حسن رضا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومت اگر چند بنیادی اقدامات کر لے تو گوشت کی برآمد کو 50 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سید حسن رضا نے کہا کہ پاکستان سے گوشت صرف متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک جاتا ہے لیکن برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی مارکیٹس پاکستان کے لیے مکمل بند ہیں۔

انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات پاکستان کو رعایت دیتے ہوئے اُس سے گوشت خرید رہا ہے کیونکہ پاکستان سے آنے والے گوشت کی قیمت باقی ممالک سے کم ہے۔

معاونِ خصوصی ہارون اختر کے مطابق میٹ پروڈکشن ابھی منظم سیکٹر نہیں بن سکا۔ انھوں نے کہا کہ خلیجی ممالک میں دنبے اور بکرے کے گوشت کی مانگ ہے اور پاکستان سے یہ گوشت بذریعہ جہاز برآمد کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ گائے کے گوشت کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور دنیا میں سٹیک کی مانگ زیادہ ہے جبکہ ہمارے ملک سے جو بیف باہر جاتا ہے وہ ہڈی کے بغیر والا گوشت جاتا ہے۔

ہارون اختر کے مطابق پاکستان سے فروزن میٹ کے بجائے ٹھنڈا گوشت برآمد کیا جاتا ہے جس کی معیاد کم ہوتی ہے۔

اُن کے بقول پاکستان آئندہ تین سے پانچ برس میں جدید ٹیکنالوجی اور مہارت حاصل کر کے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

گوشت
Getty Images

پاکستان کا گوشت یورپ کیوں نہیں جاتا؟

اس انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک لائیو سٹاک یا گوشت کی پیداوار اور اس کی برآمد باقاعدہ ایک شعبے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکی۔

پاکستان میٹ ایکسپورٹر اینڈ پراسیسنگ ایسوسی ایشن کے سینئیر نائب صدر سید حسن رضا کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں سب سے بڑی روکاٹ یہ ہے کہ برآمد کیے جانے والے گوشت کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں۔

’یعنی ایسی معلومات کہ یہ کس فارم کا گوشت ہے، تاکہ اگر کوئی بیماری پھیلنے کا امکان ہو تو پوری سپلائی چین کو بند کیے بغیر اُس کا پتہ لگایا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ گوشت برآمد کرنے والی کسی بھی کمپنی کو یہ ’ٹریسبلٹی‘ تین چار مراحل مکمل کرنے کے بعد ملتی ہے۔

حسن رضا نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں بیماریوں سے پاک جانوروں کے مراکز بنائے جاتے ہیں جس کے تحت کسی بھی فارم کے 20 کلومیٹر تک کے علاقے میں موجود جانوروں کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں موجود چین کی کمپنی ’رائل گروپ آف چائنا‘ کو بیماریوں سے پاک جانوروں کے مراکزکی منظوری مل گئی اور یہ چینی کمپنی پاکستان سے بیرون ملک گوشت برآمد کر رہی ہے لیکن پاکستانی کمپنیوں کیبیماریوں سے پاک جانوروں کے مراکز کے لیے درخواست زیر التوا ہے۔

معاونِ خصوصی ہارون اختر کا کہنا ہے کہ ’میٹ ایکسپورٹ پالیسی‘ کے تحت حکومت لائسنسگ، ٹریسبلٹی اور سرٹیفکیشن پر خصوصی توجہ دے گی تاکہ پاکستان یورپ کی مارکیٹ میں انٹری کے لیے تیار ہو سکے۔

بکرے
Getty Images

گوشت برآمد کے اہداف اہم لیکن جانوروں کی پروڈکشن بڑھانے کی ضرورت

گوشت برآمد کرنے والے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں گوشت کے لیے وہ گائے یا بھینسیں دستیاب ہوتی ہیں جو دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی یا پھر نر جانور ہوتے ہیں۔

حسن رضا نے بتایا کہ مارکیٹ میں دستیاب ان جانوروں میں گوشت کی پیداوار 50 فیصد ہوتی ہے جبکہ صرف گوشت حاصل کرنے کے لیے پالے گئے جانوروں میں گوشت کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ فوج کے زیر انتظام ایس آئی ایف سی کے گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت تحقیقی مقاصد کے لیے گوشت پیدا کرنے والی نسلیں برازیل اور آسٹریلیا سے منگوائی گئیں تھیں لیکن ابھی تک کسی اور کمپنی یا گروہ کو ان جانوروں کی نسل درآمد کرنے کی اجازت نہیں ملی۔

حسن رضا کے مطابق گوشت کے لیے مخصوص نسلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اُن کا وزن یومیہ ایک کلو سات گرام تک بڑھتا ہے۔

گوشت برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خام مال کی سپلائی چین سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُن کے بقول زراعت کے شعبے سے منسلک اکثر افراد لائیو سٹاک سیکنڈری بزنس یا پھر اضافی آمدن کے لیے رکھتے ہیں۔ اس لیے گوشت کی ایکسپورٹ کے وقت سپلائی مستحکم کرنا بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان میٹ ایکسپورٹ اینڈ پراسیسگ ایسوسی ایشن کے عہدیدار کے مطابق خصوصی طور پر گوشت پیدا کرنے والے جانوروں کی فارمنگ کی لاگت اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایکسپورٹر کے لیے بھی اُسے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ہارون اختر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان میں خصوصاً گوشت کی پیدوار بڑھانے یا زیادہ گوشت بنانے والی بریڈز پر کام نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت ملک میں موجود بریڈز کو بھی بہتر کرے گی اور باہر سے ایسے جانور لانے کی اجازت دی جائے گی جن میں گوشت زیادہ بنتا ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US