پاکستان اور افغانستان کے مابین گذشتہ دو ماہ سے سرحد بند ہے۔ ایسے میں کابل میں موجود افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں ادویات کی قلت ہے اور ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ افغانستان میں بھی کچھ ادویات بنتی ہیں لیکن 70 فیصد سے زائد دوائیں پاکستان سے آتی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس کے وزیر صحت نے انڈیا میں روایتی جڑی بوٹیوں سے بننے والی ادویات کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے دوسرے عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور اس دوران انڈیا کے شعبہ صحت کے مختلف حکام اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں بھی کیں۔
بی بی سی کی نامہ نگار نورگل شفق کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت کی وزارت صحت کے مطابق ان ملاقاتوں کے دوران مولوی نور جلال جلالی کو ادویات، طبی سامان، مریضوں کے لیے انڈین ویزے اور افغانستان کے اندر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے صحت کے شعبے کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
یاد رہے کہ افغانستان میں میڈیسن انڈسٹری میں تبدیلی اُس وقت آئی، جب سے طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے پاکستان سے اودیات کی خریداری پر دو ماہ کی پابندی عائد کی۔
کچھ ہفتے قبل ملا بردار نے تاجروں اور عوام پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے بجائے دوسرے ملک سے ادویات خریدیں۔ اس سے قبل افغانستان میں دستیاب دو تہائی ادویات پاکستان سے درآمد کی جاتی تھیں۔
طالبان حکومت کی وزارت صحت کے مطابق روایتی ادویات سے متعلق انڈیا میں ہونے والا اجلاس 17 دسمبر کو انڈین وزارت آیوش کے تعاون سے منعقد ہوا اور اس میں افغانستان سمیت تقریباً 100 ممالک کے نمائندوں، دنیا بھر کے 23 ممالک کے وزرائے صحت اور دیگر ماہرین نے شرکت کی تھی۔
وزارت کے ترجمان کے مطابق فریقوں نے ’شعبہ صحت میں تعلقات کو مضبوط بنانے، طبی عملے کے درمیان تجربات کے تبادلے، افغان ہیلتھ ورکرز کی استعداد کار بڑھانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے اور افغانستان کو معیاری ادویات کی درآمد پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘
افغانستان میں ادویات کی صورتحال سے قبل پہلے جان لیتے ہیں کہ انڈیا میں منعقد اجلاس میں طالبان حکومت کے وزیر صحت کو انڈیا کی حکومت نے کیا یقین دہانیاں کروائیں۔
افغانستان میں دستیاب دو تہائی ادویات پاکستان سے درآمد کی جاتی تھیںافغان وزارت صحت کے ترجمان شرافت زمان امرخیل نے مزید کہا کہ ’انڈیا میں صحت کے حکام کے ساتھملاقات کے دوران کینسر کے علاج، انڈیا میں افغان مریضوں کےعلاج اور ویزوں کی سہولت اور افغان صحت کے مراکز کو طبی آلات کی فراہمی پر بھی بات چیت ہوئی۔‘
ادھر انڈیا کے وزیر برائے صحت عامہ اور خاندانی بہبود جگت پرکاش ناڈا نے کہا کہ مولوی نور جلال جلالی سے ملاقات کے دوران انھوں نے افغانستان میں طبی و انسانی امداد اور صحت کے شعبے میں جاری تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کی تجدید کی۔
جگت پرکاش ناڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ انھوں نے صحت کے شعبے میں افغان حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے انڈیا کے عزم کو ثابت کرنے کے لیے ایک ’علامتی‘ قدم کے طور پر جدید ترین ’کینسر کی ادویات اور ویکسین‘ طالبان حکومت کے حوالے کی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بڑی مقدار میں ادویات، ویکسین کے ساتھ سی ٹی سکین مشین بھی افغانستان بھیجی جا رہی ہیں جو ’کابل چلڈرن ہسپتال‘ میں پہنچا دی جائیں گی۔‘
کیا افغانستان میں ادویات میں مہنگی ہوئی ہیں؟
یاد رہے کہ پاکستان کی ادوایات پر پابندی کے اعلان کے بعد سے افغانستان میں مریضوں کی طرف سے میڈیکل سٹورز پر ان دنوں پوچھے جانے والا سب سے اہم سوال یہی ہے کہیہ دوا کس ملک کی ہے؟
افغانستان میں عوام برسوں سے میڈیکل سٹورز پر یہ سوال پوچھنے کے عادی ہیں۔ اُن کے خیال میں دوا کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ کہاں کی بنی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین گذشتہ دو ماہ سے سرحد بند ہے۔ ایسے میں کابل میں موجود افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں ادویات کی قلت ہے اور ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا۔
افغانستان میں بھی کچھ ادویات بنتی ہیں لیکن 70 فیصد سے زائد ادویات پاکستان سے آتی ہیں۔ افغان عوام دہائیوں سے پاکستانی ادویات سے پر اعتماد کرتے ہیں۔
نصراللہ خالد نے کابل کے ایک میڈیکل سٹور سے اپنی والدہ کے لیے دوائی خریدی۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ دل کی دوائی ہے اور میں نے اسے اپنی والدہ کے لیے خریدا۔‘
کابل میں فارمیسی کے مالک حمد فردوس کا کہنا ہے کہ ’کمپنیوں کے گوداموں میں پاکستان کی بنی ہوئی ادویات کا سٹاک پہلے سے وافر مقداد میں موجود ہے۔ اس لیے کوئی مسئلہ نہیں۔‘
فارماسیوٹیکل حکام کا کہنا ہے کہ بعض فارمیسیز جان بوجھ کر مہنگی ادویات فروخت کرتی ہیںدوائیوں سے بھرے تھیلے کو دکھاتی ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی ادویات کو پہنچانتے ہیں۔
خالد نے بتایا کہ تین ماہ قبل ’میں نے اپنی والدہ کی دوائی 900 افغانی (3850 پاکستانی روپے) میں خریدی تھی جو اب 1150 افغانی (4900 پاکستانی روپے) میں ملی ہے، سب ہی افراد مہنگی دوائیوں سے پریشان ہیں۔‘
افغانستان میں ادویات اور طبی سازو سامان کی تجارتی ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ محمد یعقوب منگل کا کہنا ہے کہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ اور دیگر تجارتی مسائل کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں پہلے ہی بڑھی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب فارماسیوٹیکل حکام کا کہنا ہے کہ بعض فارمیسیز جان بوجھ کر مہنگی ادویات فروخت کرتی ہیں اور ایک ہی دوا کی قیمت ہر جگہ مختلف ہوتی ہے۔
طالبان حکومت کے وزیر صحت مولوی نور جلال نے میڈیکل سٹورز کو خبرادار کیا تھا کہ وہ ادویات کی قیمتیں نہ بڑھائیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی ادویات پر پابندی کے باوجود بھی ملک میں دوا کی قلت نہیں۔
کابل میں موجود ایک پرانے میڈیکل سٹور کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے اہلکار قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہر میں سٹورز پر چھاپہ مار رہے ہیں۔ انھوں نے مہنگی دوائیں بیچنے پر دوکانیں بند بھی کی ہیں۔
پاکستان کے متبادل کے طور پر کہاں سے ادویات آ رہی ہیں؟

افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب سے پاکستانی ادویات پر پابندی کے بعد مارکیٹ میں چین، انڈیا، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان میں بننے والے ادویات موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومتمتبادل تجارتی راستوں پر کام کر رہی ہے اور انڈیا افغانستان کو ادویات برآمد کرنے اور افغانستان میں مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔
لیکن تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بجائے دیگر ممالک کے ساتھ ادویات کی خریداری کے لیے قلیل وقت میں کوئی میکنزم قائم کرنا مشکل ہے۔
افغانستان میں ادویات اور طبی سازو سامان کی تجارتی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ ایران، چین، بنگلہ دیش، بھارت، ازبکستان، ترکی اور مغربی یورپ سے ادویات درآمد کرنے اور اودیات کی ملکی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ایسوسی ایشن کے عہدایدار کا کہنا ہے کہ حقیقیت یہ ہے کہ فی الحال دوسرے ممالک کی دوائیں بھی پاکستان کے راستے افغانستان آ رہی ہیں اور اب سرحد بند ہونے سےکارگو کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے آنے والے ان ٹرکوں میں نہ صرف چین، ترکی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی ادویات لائی جاتی ہیں بلکہ افغانستان میں تیار ہونے والی ادویات کا خام مال اُسی راستے سے آتا ہے۔
افغانستان کی ادویات کی صنعت اور خدشات

ادویات کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی طرح کسی اور ملک باآسانی جا نہیں سکتے ہیں۔ پاکستانی مارکیٹ میں اُن کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں اور متبادل آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت اور قیمتوں میں اضافے جیسی صورتحال سے سمگلنگ، ناقص اور زائد المیاد ادویات کے لیے راستہ ہموار ہو گا۔
فارماسیوٹیکل ڈیلرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان تاجروں کے لیے ویزا اور دوسرے ممالک کے سفر کے انتظامات کو آسان،تیز بنائیں اور متبادل راستوں کے ذریعے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کرے۔
کابل میں ادویات کے خریدار سیف الاسلام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ قیمتوں پر نظرِ ثانی کرےکیونکہ ان کے مطابق ادویات کی قلت سے غریب اور بیمار افرادمتاثر ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ کچھ دوا ساز کمپنیاں زیادہ منافع کمانے کے لیے سستی اور ناکارہ ادویات درآمد کر رہی ہیں،۔
فارماسسٹ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس افغان ادویات سمیت دیگر ممالک کی اعلیٰ کوالٹی کی ادویات موجود ہیں لیکناعلیٰ کوالٹی کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہے اور لوگ انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
افغانستان ، متبادل روٹس، متبادل ادویات، ڈاکٹر کی تجویز کردہ متبادل گولیوں اور شربت سے واقفیت میں تھوڑاوقت درکار ہے لیکن یہ اس عمل کا آغاز ہے جس کے لیے حکومت پرعزم ہے۔