ملائیشیا کی تاریخ کا سب سے پراسرار ’اغوا‘: جب نقاب پوش افراد نے گاڑی کے شیشے توڑ کر پادری کو باہر نکالا اور گھسیٹتے لے گئے

یہ ملائیشیا کی تاریخ کے سب سے پراسرار مقدمے اور اس میں مشکل سے حاصل کی گئی شاندار قانونی فتح کی کہانی ہے۔

جب سوزانا لیو گذشتہ ماہ کوالالمپور کی ہائی کورٹ میں ٹی وی کیمرے کے سامنے آئیں تو اُنھوں نے اس لمحے کو ’تاریخی اور جذباتی سنگِ میل‘ قرار دیا۔

69 سالہ لیو نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا کہ ’آج ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا، جس پر ہمیں طویل عرصے سے یقین تھا کہ پادری ریمنڈ کوہ کے ساتھ سنگین ناانصافی کی جا رہی تھی۔‘

یہ ملائیشیا کی تاریخ کے سب سے پراسرار مقدمے اور اس میں مشکل سے حاصل کی گئی شاندار قانونی فتح کی کہانی ہے۔

لگ بھگ نو برس پہلے ان کے شوہر کو دن دیہاڑے نقاب پوش افراد نے اغوا کر لیا۔ اغوا کی واردات سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوئی اور برسوں تک پوری قوم کی نظریں اس مقدمے پر مرکوز رہیں۔

ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پولیس کی ایلیٹ سپیشل برانچ نے ریمنڈ کوہ کو حراست میں لے لیا تھا۔ عدالت نے پولیس اور ملائیشیا کی حکومت دونوں کو ملک کے جبری گمشدگی کے پہلے مقدمے میں اس کا ذمے دار قرار دیا۔ یہ جبری گمشدگی سے متعلق پہلا کیس ہے، جو ہائی کورٹ میں سنا گیا۔

برسوں تک سوزانا لیو نے یہ جاننے کے لیے جدوجہد کی کہ اُن کے شوہر کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ ایک پادری کی بیوی کی متحرک پرجوش سماجی کارکن میں بدلنے کی بھی کہانی ہے۔

اُنھیں ابھی بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُن کے پادری شوہر کو کیوں حراست میں لیا گیا لیکن دو آزاد سرکاری تحقیقات سے پتا چلا کہ پولیس نے پادری کو ملائیشیا کے اکثریتی مذہب اسلام کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا۔

عدالت میں کامیابی کے بعد بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے لیو کا کہنا تھا کہ ’مجھے انصاف تک پہنچنے کی تحریک ملی۔ اُنھوں نے میرے شوہر کو خفیہ طور پر اُٹھایا لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے پوری دُنیا کو بتاؤں گی۔‘

13 فروری 2017 کی صبح 10 بجے 63 سالہ کوہ اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے کوالالمپور کے ایک پُرسکون مضافاتی علاقے میں اپنے گھر سے نکلے۔ اسی دوران ایس یو وی اور موٹر سائیکلوں پر سوار افراد نے اُن کی گاڑی کو گھیر لیا۔

سیاہ لباس پہنے نقاب پوش افراد باہر نکلے اور اُنھوں نے کوہ کی گاری کے شیشے توڑ کر اُنھیں زبردستی باہر نکالا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔

اُنھوں نے کوہ کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ساتھ لے گئے۔ اغوا کی یہ واردات سیکنڈز میں ہوئی اور یہ اتنا ڈرامائی تھا کہ کوہ کے پیچھے گاڑی میں آنے والے ایک شخص نے کہا کہ مجھے لگا کہ یہ کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔

آنے والے چند روز کوہ اور اُن کے اہلخانہ کے لیے بہت مشکل تھے، اُنھوں نے اپنے گردونواح اور گلی محلوں میں اُن کی تلاش کا عمل شروع کیا۔ تلاش کے دوران دو گھروں کے سی سی ٹی وی کیمروں نے پورے واقعے کو قید کر لیا۔

ویڈیو دیکھ کر اہلخانہ کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی عام اغوا نہیں تھا۔ یہ منظم اور انتہائی محتاط انداز میں کی گئی کارروائی تھی۔

اغوا کے بعد نہ تو کوہ کے اہلخانہ کو تاوان کے لیے کوئی پیغام ملا اور نہ ہی اغوا کاروں نے اُن سے کسی قسم کا رابطہ کیا۔

اس واقعے سے چند ماہ قبل نومبر 2016 میں شمالی ریاست پرلیس سے تعلق رکھنے والے امری چی مات نامی کارکن کو تقریباً بالکل اسی طرح اغوا کیا گیا تھا۔

کوہ کا خاندان اس معاملے کو میڈیا میں لے گیا اور سی سی ٹی وی فوٹیجز وائرل ہو گئیں اور عوام کی جانب سے حکام پر اس کا جواب دینے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔

ملائیشیا کی پارلیمنٹ کے نیچے قائم انسانی حقوق کے آزاد ادارے نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ بعدازاں حکومت نے بھی اس کی الگ سے تحقیقات کیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ملائیشیا کی سپیشل برانچ اس کی ذمے دار ہے لیکن پولیس نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔

کئی ماہ بعد اپنی تحقیقات کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ کوہ کو منشیات کی سمگلنگ کے ایک گروہ نے اغوا کیا۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اُنھوں نے اس سلسلے میں اغوا کار اوبر ڈرائیور کو حراست میں لیا ہے لیکن بعدازاں یہ الزام خارج کر دیا گیا۔

انسانی حقوق کمیشن نے بعدازاں اپنی تحقیقات میں بتایا کہ یہ دونوں دعوے غلط تھے۔

ریمنڈ کوہ کی گمشدگی نے اُن کے اہلخانہ کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا۔

اس دوران لیو نے گزر بسر کے لیے ہاتھ سے بنے ہوئے زیورات بیچنا شروع کیے اور اپنی جمع پونجی میں سے بھی خرچ شروع کیا۔ اُنھوں نے عطیات لے کر اپنی چھوٹی بیٹی کو یونیورسٹی میں داخل کرایا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں پولیس سے کچھ ہمدردی کی اُمید تھی لیکن اس کے بجائے پولیس نے گمشدگی کی رات اُنھیں پانچ گھنٹے تک تھانے میں بٹھائے رکھا اور پوچھ گچھ کی۔

لیو کا کہنا تھا کہ پولیس اُن سے یہ سوال پوچھتی رہی کہ ’کیا تمہارے شوہر نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس پر میں بہت صدمے سے دوچار ہوئی۔‘

لیو سے تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو جب انسانی حقوق کمیشن میں گواہی کے لیے بلایا گیا تو وہاں اُنھوں نے اعتراف کیا کہ اُنھیں حکام بالا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کو اسی رُخ میں آگے بڑھائیں۔

سنہ 2011 میں بھی ریمنڈ کوہ پر الزم لگایا گیا تھا کہ وہ مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا میں مسلمانوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں ایسا کرنا جرم ہے۔

اُن پر الزام لگا کہ سنہ 2011 میں اُنھوں نے ایک گرجا گھر میں پارٹی کا اہتمام کیا، جس میں کچھ مسلمانوں نے بھی شرکت کی تھی۔ ملائیشیا میں اسلامی اتھارٹیز نے اس معاملے کی چھان بین کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ریمنڈ کوہ اور اُن کے خاندان نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ریمنڈ کوہ کے لاپتہ ہونے کے کئی برسوں بعد لیو نے کہا کہ اُنھِیں محسوس ہوا کہ پولیس اس معاملے پر کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہی اور تفتیش بھی سست ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس سچ تک پہنچنے کی اُن کی کھوج میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی اور یہاں تک کہ کبھی کبھار اُن کے سامنے کوئی نہ کوئی جھوٹی کہانی گھڑ دی جاتی۔

اہلخانہ کو طویل عرصے تک یہ یقین رہا کہ پولیس اپنا جرم چھپانے کے لیے اس اغوا کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی بی سی نے ان الزامات پر پولیس کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن اُنھوں نے تاحال اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

لیو کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، خاندان کے افراد کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔ اُن کے بقول وہ خود بھی ذہنی مسائل کا شکار ہو گئی تھیں۔

کار اور اعتراف

اس کہانی میں اس وقت ایک موڑ آیا، جب مئی 2018 کی ایک رات ایک شخص 2016 میں اغوا ہونے والے امری چی مات کی اہلیہ نورہائیتی سے ملنے آیا۔

اپنی شناخت پولیس سارجنٹ کے طور پر کرواتے ہوئے اس شخص نے دعویٰ کیا کہ اُن کے شوہر اور ریمنڈ کوہ کو سپیشل برانچ نے اغوا کیا تھا۔

اُس شخص نے دعویٰ کیا کہ پولیس کا خیال تھا کہ ریمنڈ کوہ مسیحیت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ امری چیشیعہ اسلام کی ترویج کر رہے ہیں، جس پر سنی اکثریتی ملائیشیا میں پابندی ہے۔

پولیس سارجنٹ نے کہا کہ وہنورہائیتی کو بتانا چاہتے ہیں کہ کیا ہوا کیونکہ اُنھیں لگا کہ اسپیشل برانچ نے جو کیا وہ غلط تھا۔

نورہائیتی کی پولیس سارجنٹ کے ساتھ اس گفتگو کی انسانی حقوق کمیشن نے بھی چھان بین کی اور اسے قابل اعتبار قرار دیا۔ بعدازاں پولیس سارجنٹ نے کمیشن کے سامنے اپنے اس بیان کی تردید کر دی۔

پھر وہاں ایک سنہرے رنگ کی کار بھی تھی۔

ریمنڈ کوہ کے اغوا کے ایک گواہ نے سنہری رنگ کی ٹویوٹا ویوس کو دیکھا تھا۔ اسی طرح کی ایک کارامری چے مات کے اغوا سے پہلے بھی اس علاقے میں دیکھی گئی تھی۔ پولیس سارجنٹ نے بھی اُن کی اہلیہ سے گفتگو میں اس کار کا ذکر کیا تھا۔

تصویر
Getty Images

حقوق کمیشن کے تفتیش کاروں نے اس کار کو کوالالمپور میں ایک ایسے شخص سے ٹریس کیا جو سپیشل برانچ کے لیے کام کرتا تھا۔

اپریل 2019 میں کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ سپیشل برانچ ہی ریمنڈ کوہ اور امری چی مات کے اغوا کی ذمے دار تھی۔

کمیشن کے مطابق دونوں افراد کو مذہبی حکام اور پولیس نے ان الزامات پر نشانہ بنایا کہ وہ ملائیشیا میں اسلام کے خلاف کام کر رہے تھے۔

اس رپورٹ نے ملائیشیا کی عوام کو حیرت میں مبتلا کر دیا اور لوگ احتساب کا مطالبہ کرنے لگے۔ کئی ماہ بعد حکومت نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے نتائج کو لیو اور نورہائیتی کی جانب سے مقدمہ دائر کرنے کے بعد عام کیا گیا۔

حکومتی تحقیقات میں کہا گیا کہ اس واقعے میں ’غیر ذمے دار بدمعاش پولیس‘ اہلکار ملوث تھے۔ اس رپورٹ میں ایک پولیس اہلکار کا خاص طور پر ذکر کیا گیا، جن کی شناخت علوالدین بن جدید کے نام سے ہوئی اور یہ انتہا پسندی سے نمٹنے والی یونٹ کے سربراہ تھے۔

حکومتی کمیشن کے مطابق علوالدین بن جدید شیعہ اسلام اور مسیحیت کے بارے میں انتہائی منفی خیالات رکھتے تھے اور اپنی گفتگو میں اُنھیں اسلام کے لیے خطرہ قرار دیتے تھے۔

بی بی سی نے ان نتائج پر اپنے ردِعمل کے لیے علوالدین بن جدید سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔

علوالدین نے اس سے قبل امری چے مات کی گمشدگی میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے رپورٹ تیار کرنے والی حکومتی ٹاسک فورس کو ’متعصب‘ قرار دیا تھا۔

سنہ 2020 میں لیو نے اپنی اور اپنے لاپتہ شوہر کی جانب سے کئی اعلی پولیس افسران، رائل ملائیشین پولیس اور ملائیشیا کی حکومت کے خلاف دیوانی مقدمہ دائر کر دیا۔

لیو نے اس مقدمے میں ان تمام فریقوں کو ریمنڈ کوہ کی گمشدگی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ لیو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ریمنڈ کوہ کو فوری بازیاب کرایا جائے۔

گذشتہ ماہ ہائی کورٹ کے جج نے فیصلہ سنایا کہ نامزد پولیس اہلکاروں اور رائل ملائیشین پولیس میں ’ایک سے زیادہ اہلکار‘ ریمنڈ کوہ کے اغوا اور اُنھیں ’نقصان پہنچانے کی سازش‘ کے ذمے دار تھے۔

جج کے مطابق کیونکہ یہ سرکاری اہلکار تھے جو ریاست کے ماتحت کام کر رہے تھے۔ اس لیے حکومت کو اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا جواب دینا چاہیے۔

لیو کو اس دوران پہنچنے والی ذہنی تکلیف کے ازالے کے لیے جج نے کئی ملین رنگٹ کے علاوہ، ہر روز کے لیے 10 ہزار رنگٹ (2385 ڈالرز) ایک ٹرسٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا، جب تک ریمنڈ کے ٹھکانے کا علم نہیں ہو جاتا۔

اب تک یہ رقم 32 ملین رنگٹ سے تجاوز کر چکی ہے اور حتمی اعداد و شمار کے مطابق یہ ملائیشیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ادائیگی ہو سکتی ہے۔

وہ رقم جو عدالت نے ہر روز کے حساب سے ٹرسٹ کو دینے کا حکم دیا، وہ کوہ کے ٹھکانے کا انکشاف ہونے کے بعد اُن کے لیو اور اُن کے بچوں کو دی جائے گی۔

نورہائیتی جنھوں نے ایک مقدمہ شروع اور وہ بھی یہ جیت چکی ہیں، اُنھیں بھی لاکھوں رنگٹ مل چکے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت ان فیصلوں کے خلاف اپیل کر رہی ہے۔

حکومت کی یہ دلیل ہے کہ اسے ادائیگیوں سے متعلق عالمی قوانین کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پولیس اس معاملے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

بی بی سی نے اس فیصلے پر ردعمل کے لیے پولیس سے رابطہ کیا لیکن اُن کی جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔

’صرف اتنا ہی بتا دیا جائے کہ ریمنڈ زندہ ہیں یا نہیں‘

لیو کو امید ہے کہ حکومت اپیل سے دستبردارہو جائے گی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مجھے یہ سب کچھ دوبارہ کرنا پڑے تو میں بہت تھکاوٹ محسوس کروں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ خاندان پہلے ہی پادری سے متعلق جاننے کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا غم منجمد ہو گیا اور ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

لیو کے بقول ہمیں صرف اتنا ہی بتا دیا جائے کہ ریمنڈ زندہ ہیں یا نہیں، کم از کم ہم اُن کی تدفین کر کے آگے بڑھ سکیں۔

لیو کہتی ہیں کہ مقدمے کی سماعت کے دوران جب وہ ملزمان کو بات کرتے ہوئے سنتی تھیں تو اُن کا دل کرتا تھا کہ وہ ان کا گلا دبا دیں۔ ’مجھے ان پر بہت غصہ تھا۔‘

لیکن بعد میں آہستہ آہستہ یہ نفرت کم ہوتی گئی، میں نے انھیں معاف کر دیا لیکن میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ اس معاملے میں انصاف ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US