اسرائیل دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے باضابطہ طور پر صومالیہ کے علیحدگی پسند خطے ’صومالی لینڈ‘ کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ صومالی لینڈ کے صدر عبد الرحمن محمد عبداللہی نے اسے ’ایک تاریخی لمحہ‘ قرار دیا تاہم صومالیہ کے وزیرِاعظم حمزہ عبدي بری نے اسے ملک کی خودمختاری پر ’ایک دانستہ حملہ‘ قرار دیا ہے۔

اسرائیل دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے باضابطہ طور پر صومالیہ کے علیحدگی پسند خطے ’صومالی لینڈ‘ کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو نے اعلان کیا کہ ’اسرائیل زرعی شعبے، صحت اور ٹیکنالوجی میں فوری طور پر تعاون کو وسعت دے گا۔‘ صومالی لینڈ کے صدر عبد الرحمن محمد عبداللہی نے اس پیش رفت کو ’ایک تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے تسلیم کیے جانے سے دیگر ممالک کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے، جس سے صومالی لینڈ کی سفارتی حیثیت اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب صومالیہ کے وزیرِاعظم حمزہ عبدي بری نے اس اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اسے اپنی خودمختاری پر ’ایک دانستہ حملہ‘ سمجھتا ہے۔
صومالی لینڈ کے صدر عبد الرحمن محمد عبداللہی نے اس پیش رفت کو 'ایک تاریخی لمحہ' قرار دیا۔صومالی لینڈ
صومالی لینڈ خلیج عدن پر ایک سٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے اور اس کی اپنی کرنسی، پاسپورٹ اور پولیس فورس موجود ہے۔ یہ سنہ 1991 میں سابق آمر جنرل سیاد بری کے خلاف آزادی کی جنگ کے بعد وجود میں آیا اور تب سے دہائیوں کی تنہائی کا شکار رہا ہے۔
تقریباً 60 لاکھ آبادی کے ساتھ، یہ خود کو جمہوریہ کہلانے والا خطہ حالیہ برسوں میں صومالیہ، ایتھوپیا اور مصر کے درمیان کئی علاقائی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔
گذشتہ سال خشکی میں گھرا ہوا ملک ایتھوپیا اور صومالی لینڈ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ایتھوپیا کو ساحل کی ایک پٹی بندرگاہ اور فوجی اڈے کے طور پر لیز پر دی گئی، جس کی وجہ سے صومالیہ کی جانب سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔
جمہوریہ صومالی لینڈ اپنی کرنسی جاری کرتا ہے۔صومالی لینڈ کا ابراہم معاہدوں میں شمولیت کا اعلان
صومالی لینڈ کے صدر عبداللہی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک ابراہم معاہدوں میں شامل ہوگا، جسے انھوں نے علاقائی اور عالمی امن کی جانب ایک قدم قرار دیا۔
واضح رہے کہ سنہ 2020 میں بحرین، متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی معاونت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جسے ’ابراہم اکارڈز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت تک صرف دو عرب ممالک مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہوا تھا۔
صومالی لینڈ کے صدر نے مزید کہا کہ ’صومالی لینڈ شراکت داری قائم کرنے، باہمی خوشحالی کو فروغ دینے اور مشرقِ وسطیٰ و افریقہ میں استحکام کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔‘
صومالیہ کے علیحدگی پسند خطے ’صومالی لینڈ‘ کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے اس فیصلے کی مذمت صومالیہ، مصر، ترکی اور جبوتی کے وزرائے خارجہ نے کی ہے، جنھوں نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے اعلان کو ’مکمل طور پر مسترد‘ کیا۔
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک نے ’مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جس میں سفیروں کی تقرری اور سفارت خانوں کا قیام شامل ہوگا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اپنی وزارت کو ہدایت دی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے فوری طور پر وسیع شعبوں میں اقدامات کیے جائیں۔‘

مصر اور اتحادی ممالک کا اسرائیل کے اعلان پر ردِعمل
مصر کے وزیرِ خارجہ نے صومالیہ، ترکی اور جبوتی کے ہم منصبوں سے الگ الگ ٹیلیفونک گفتگو کی جس میں اسرائیل کے حالیہ اعلان سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مصر کی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق چاروں ممالک نے صومالیہ کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعادہ کیا اور خبردار کیا کہ یکطرفہ اقدامات خطے کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا صومالیہ کے ریاستی اداروں کے متوازی ڈھانچے قائم کر سکتے ہیں۔
وزرائے خارجہ نے مزید کہا کہ خودمختار ریاستوں کے حصوں کو آزاد تسلیم کرنا بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت ایک خطرناک مثال قائم کرے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل کئی برسوں سے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حالیہ جنگیں، بشمول غزہ اور ایران کے خلاف جمہوریت کے لیے رکاوٹ سمجھی جا رہی ہیں۔
تاریخی معاہدے جو 2020 میں صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے آخر میں ہوئے اور ’ابراہام معاہدے‘ کہلائے، کے تحت کئی ممالک بشمول مسلم اکثریتی متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، جبکہ دیگر ممالک بعد میں شامل ہوئے۔
صومالیہ میں خانہ جنگی اور تقسیم

صومالیہ کی تاریخ اور اس کی خانہ جنگی کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ اس کے اندر ایک علیحدگی پسند ریاست ’صومالی لینڈ‘ کیوں وجود میں آئی اور ایک دوسرا نیم خودمختار خطہ ’پونٹ لینڈ‘ کیسے سامنے آیا۔
صومالیہ مشرقی افریقہ کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں خلیج عدن اور جبوتی، مغرب میں ایتھوپیا، مشرق میں بحرِ ہند اور جنوب میں کینیا واقع ہیں۔
انیسویں صدی میں یورپی نوآبادیاتی طاقتیں آہستہ آہستہ صومالیہ پر قابض ہوئیں۔ ملک کا بڑا حصہ اطالوی حکمرانی میں آیا جبکہ شمال مغربی علاقہ برطانوی کنٹرول میں رہا۔
صومالیہ نے سنہ 1960 میں آزادی حاصل کی جب اطالوی زیرِانتظام اور برطانوی زیرِانتظام علاقوں کو ملا کر ’متحدہ جمہوریہ صومالیہ‘ تشکیل دی گئی۔

سنہ 1969 میں محمد سیاد بری نے منتخب صدر عبد الرشید شارمارکے کے قتل کے بعد فوجی بغاوت کی قیادت کی اور صومالیہ کو ایک اشتراکی ریاست قرار دے کر اس کے بیشتر معاشی وسائل کو قومی ملکیت میں لے لیا۔
بری کی 22 سالہ حکمرانی کے دوران ملک مسلسل شورش، بغاوت اور تنازعات کا شکار رہا جو بالآخر سنہ 1991 میں اُن کی برطرفی پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد ملک دہائیوں تک خانہ جنگی میں مبتلا رہا جس میں مختلف قبائل کے جنگی سردار اور کمزور مرکزی حکومت آمنے سامنے تھے۔
اسی سال شمالی علاقہ، جو پہلے برطانوی نوآبادیاتی کنٹرول میں تھا، نے یکطرفہ طور پر آزادی کا اعلان کیا اور ’جمہوریہ صومالی لینڈ‘ وجود میں آئی۔ تاہم یہ ریاست کسی ملک یا عالمی ادارے کی جانب سے تسلیم نہ کی گئی، سوائے اسرائیل کے جس نے اب 26 دسمبر 2025 کو اسے تسلیم کیا ہے۔
سنہ 1998 میں پونٹ لینڈ نے خودمختار انتظامی نظام کا اعلان کیا۔ تاہم صومالی لینڈ کے برعکس پونٹ لینڈ نے مکمل آزادی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ صومالیہ کا حصہ رہتے ہوئے خودمختاری کو ترجیح دی۔